حجاب امتیاز علی | Hijab Imtiaz Ali Biography In Urdu

0

تعارف

حجاب امتیاز علی ایک مشہور و معروف رومانی افسانہ نگار تھیں۔ وہ ۱۹۱۵ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام سید محمد اسمعیل تھا اور وہ نظام حیدر آباد کے فرسٹ سیکرٹری تھے۔ لہذا ان کی پیدائش، پرورش اور تعلیم و تربیت حیدرآباد میں ہوئی۔ انہوں نے عربی، فارسی، اردو اور موسیقی کی تعلیم گھر پر پائی اور اسکول سے سینئر کمبرج کے امتحان کو پاس کیا۔

ان کے والد نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد مدارس میں سکونت اختیار کی۔ ان کی والدہ عباسی بیگم مشہور و معروف ناول نگار تھیں۔ ان کا ناول ”زہرا بیگم“ اور فلسفیانہ مضامین کا مجموعہ ”گل صحرا“ ان کی بہترین یاد گار ہیں۔ حجاب نے علمی و ادبی اور متمول گھرانے میں پرورش پائی۔ انہیں انگریزی زبان و ادب پر بھی عبور حاصل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ۱۹۳۶ء میں ناردن لاہور فلائنگ کلب سے ہوا بازی کی سند حاصل کی اور برطانوی ہند کی پہلی ہوا باز خاتون کی حیثیت سے شہرت پائی۔ انہوں نے دنیا کی بہاریں اور خزائیں دونوں دیکھیں مگر خزائوں کا انہیں کوئی خاص تجربہ نہیں بلکہ وہ صرف ان کے مشاہدے اور مطالعے تک ہی محدود رہیں۔

ازدواجی زندگی

حجاب امتیاز علی کی شادی ۱۹۳۵ء میں مشہور ڈرامہ نگار اور مقبول ترین ڈرامے ”انار کلی“ کے خالق سید امتیاز علی تاج سے ہوئی۔ حجاب امتیاز علی کا نام شادی سے قبل حجاب اسمعیل تھا۔ اس لیے انہوں نے ابتدائی دور کی تصانیف حجاب اسمعیل اور مس حجاب کے نام سے شائع کیں۔ اب اردو ادب میں ان کا معروف نام حجاب امتیاز علی ہے۔

ادبی زندگی

حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کیا۔ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب انہوں نے اپنا پہلا افسانہ ”میری ناتمام محبت“ تحریر کیا۔ جو بعد میں نیرنگِ خیال میں شائع ہوا۔ نابالغ ذہن کے تراش شدہ اسی بت کی ساخت میں کئی جگہ بت تراش کی نوعمری او رجذبات کی ولولہ انگریز ناہمواریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن زبان وبیان ،فکر و فن ایک عمدہ افسانہ نگار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔

ان کا دوسرا افسانہ ” ظالم محبت“ تھا جو ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی افسانے اور ناول لکھے۔ جیسے”صنوبر کے سائے“٬ ”نغمات محبت“ ٬ ”لاش‘‘وغیرہ جو اُن دنوں تہذیب نسواں، عالم گیر ، اور نیرنگِ خیال وغیرہ میں شائع ہوئے۔

حجاب امتیاز علی نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے افسانے، ناول، ڈرامے، تنقیدی و تخلیقی اور انشائیہ طرز کے مضامین اور کئی کتابوں کے مقدمے بھی تحریر کیے۔ بچوں کے ادب سے متعلق لکھا اور تراجم بھی کیے۔ ”تہذیب نسواں“ کی ادارت اور افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کے ابتدائی افسانے ”تہذیب نسواں“ میں شائع ہوئے۔ ان کا ادبی ذوق تاج کے ساتھ لاہوری علمی و ادبی فضا میں رہ کر اور بھی نکھر گیا اور ان کے لکھنے کی رفتار اور بھی تیز ہو گئی۔

زبان و اسلوب

زبان واسلوب کا انتخاب بھی حجاب نے موضوع کی مناسبت سے کیا ہے۔ حسن وعشق چوں کہ ان کا موضوع تھا اس لئے ان کی زبان نہایت لطیف وشیریں اور اسلوب شاعرانہ ہے۔ جہاں تک مکالموں کا تعلق ہے وہ بھی نہایت ہی دلچسپ اور بر محل اور افسانے کے مطابق ہوتے ہیں۔ جو کہانی کے ارتقا میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کرداروں کے مزاج اور کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

مشاغل

حجاب کو ہوا بازی کا بھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا باز تھیں۔ انہوں نے ۱۹۳۶ء میں نارون لاہور فلائنگ کلب سے پائلٹ کا لائیسنس حاصل کیا تھا۔

تصانیف

ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔ اندھیرا خواب (ناول)
2۔ ظالم محبت (ناول)
3۔ وہ بہاریں یہ خزائیں (ناول)
4۔ پاگل خانہ (ناول)
5۔ سیاح عورت (ناول)
6۔ نغماتِ موت (مجموعہ مضامین)
7۔ ادب زریں (مجموعہ مضامین)
8۔ خلوت کی انجمن (مجموعہ مضامین)
9۔ میری نا تمام محبت (افسانوی مجموعہ)
10۔ لاش اور دوسرے ہیبت ناک افسانے،
11۔ کونٹ الیاس کی موت اور دوسرے ہیبت ناک افسانے،
12۔ ممی خانہ (افسانوی مجموعہ)
13۔ کالی حویلی اور دوسری خوفناک کہانیاں
14۔ تحفے اور شگوفے (افسانوی مجموعہ)
15۔ لیل و نہار (ڈائری)،

مندرجہ بالا افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کے بہت سے افسانے ہیں جو رسائل میں شائع ہوئے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن میں رومانیت ایک رجحان کے طور پر ابھری جسے سرسید کے عقلیت پسند تحریک کی ضد مانا جاتا ہے۔ اس رومانی دور میں کئی آفاق گیر ادبی شخصیتیں منظرِعام پر آئیں۔ جن میں ایک نمایاں نام حجاب امتیاز کا ہے۔ اُردو ادب میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے ان کی کئی تخلیقات کو شاہکار مانا جاتا ہے مگر جن مطبوعات کو غیر معمولی شہرت نصیب ہوئیں ان میں” لاش“، ”صنوبر کے سائے“، ” میری ناتمام محبت “، ”ظالم محبت “، ” الیاس کی موت “، ”موت کا راگ“، ”آپ بیتی۔تصویر بتاں“ وغیرہ شامل ہیں۔

آخری ایام

اپنے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے علاحدگی اختیار کر کے اپنی فیملی کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی بسر کرنے لگیں۔ ۱۹۹۹ء کو وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں اور لاہور میں مدفون ہوئیں۔