سعادت حسن منٹو | Saadat Hasan Manto Biography in urdu

0

سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری

سعادت حسن نام تھا۔ منٹو ان کے خاندان کا نام تھا۔اصل میں یہ ایک کشمیری خاندان تھا جو کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب چلا گیا تھا۔سعادت حسن منٹو کا جنم پنجاب میں لدھیانہ کے ضلع سرالہ میں 1912ء میں ہوا۔پہلے امرتسر میں تعلیم حاصل کی اور پھر اعلی تعلیم کی خاطر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور علیگڑھ سے واپسی پر ملازمت کرلی۔منٹو کو ابتدائی عمر سے ہی افسانہ نگاری کی طرف لگاؤ تھا۔انہوں نے کچھ دیر کے لیے امرتسر کے اخبار “مساوات” میں ملازمت کی۔اسے چھوڑ کر بمبئی سے جاری ہونے والے ہفت روزہ “مصور” میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔اس کے بعد فلمی دنیا کا رخ کیا، اسی دوران ملک کی تقسیم ہوئی اور منٹو پاکستان چلے گئے جہاں افسانہ نگاری جاری رکھی۔ منٹو کا انتقال 10 جنوری 1955ء کو پاکستان میں ہوا۔


منٹو کی ادبی زندگی کا آغاز لاہور سے ہوا جب انہوں نے اردو میں تحریروں کا سلسلہ شروع کیا۔اس کے بعد وہ فلمی کہانیاں لکھنے کے ارادے سے بمبئی چلے گئے اور فلموں کے لیے لکھنا شروع کیا،بعد میں عام موضوعات پر لکھا۔انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی، مختلف ڈرامے، خاکے اور افسانے لکھے لیکن وہ صنف جس نے انہیں حیات جاوداں بخش دی وہ ان کی افسانہ نگاری ہے۔

اردو افسانوی ادب میں سعادت حسن منٹو کا شمار پہلی صف کے فنکاروں میں ہوتا ہے۔ان کی ادبی زندگی کی شروعات 1936ء میں ہوئی۔یہ نئی ادبی تحریک کا زمانہ تھا۔یہ تحریک سامراجی نظام اور اس وقت کے معاشرتی نظام کے خلاف حقیقت نگاری کے حق میں تھی۔منٹو اسی تحریک سے وابستہ ایک اہم ادیب تھے۔ان کی نظر صرف اپنے دور کے سماجی تفرقات و تضادات پر ہی نہیں تھی بلکہ تاریخی دور سے پہلے کے تضادات کی بھی وہ اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔وہ ایک سچے اور بے باک فنکار تھے۔ان کے افسانوں میں بلا کی جان ہے انہوں نے جو کچھ لکھا وہ خلوص اور ایمانداری سے لکھا۔ان کے فن کی انفرادیت یہ تھی کہ انہوں نے گرے ہوئے کرداروں کے لیے انسان کےدل میں محبت پیدا کی۔ان پر فحش نگاری کے الزامات بھی لگائے گئے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تحریریں ہمارے جنس نگار ادیبوں سے سب سے زیادہ صاف ستھری اور پاکیزہ ہیں۔محمد حسن عسکری کے مطابق منٹو ایک فحش نگار نہیں تھے بلکہ اخلاقی فنکار تھے۔معاشرے کو ان کے افسانوں میں اپنا بدصورت اور کریہہ چہرہ نظر آتا ہے اس لیے منٹو پر فحاش کا الزام لگایا جاتا ہے۔منٹو نے معاشرے کی نقاب الٹ کر رکھ دی ہے۔محمد حسن عسکری ان کو بہت قریب سے جانتے تھے۔

سعادت حسن منٹو نے کارل مارکس کے نظریوں کو بھی پڑھا اور ترقی پسند تحریک سے متاثر بھی ہوئے لیکن اس قدر نہیں کہ وہ اسی کا شکار ہوتے۔انہوں نے اپنے اندر اپنے انفرادی افسانہ نگار کو زندہ رہنے دیا۔منٹو کے پہلے دور کے افسانوں میں بھی عورت طوائف کی حیثیت سے پیش کی گئی ہے۔اس سلسلے میں ان کے افسانے “ہتک” کی کردار ‘سوگندی’ اور “کالی شلوار” کی کردار ‘سلطانہ’ پورے سماج میں ایک خالص طوائف کا کردار پیش کرتی ہیں۔

انہوں نے افسانہ “نیا خون” میں نظامِ حکومت کی لعنتوں کے دور ہونے کی غلط امیدوں اور خوش فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔انکا ایک اہم افسانہ “باپو گوپی ناتھ” ہے اس افسانے میں منٹو نے ایک بھرپور اور مکمل کردار پیش کیا ہے۔باپو گوپی ناتھ ایک چھٹا ہوا بدمعاش، ایک عیاش اور شرابی ہے لیکن اس بدی کے خول میں ایک نیک باطن ہے۔اس کی روح پاکیزہ اور اس کا دل بہت پاک ہے، اس کے پاس ہمدردی، فیاضی اور دوستی کا بے پناہ جذبہ ہے۔

منٹو نے اپنے افسانوں میں جنس کو موضوع بنایا ہے۔ان کا خیال تھا کہ غلاظت کو چھپانے کے بجائے اسے کریدنا اور صاف کرنا چاہیے،بے شک اسے بدبو پھیلتی ہے لیکن اس کے بغیر چارہ نہیں۔منٹو کے دماغ پر جنسیات کا غلبہ تھا وہ بہت حد تک فرائڈ کے فلسفے سے متاثر ہوئے اور عام طور پر دنیا کو اور خاص کر ایک طبقہ کو نفسیاتی خواہشات کا شکار پایا۔مگر انہوں نے اصلاح کا کوئی طریقہ نہیں بتایا اور نہ ابتری کو سمجھنے کا موقع دیا بلکہ انہوں نے ذہن کو مستقل اور گمراہ کیا ہے۔حالات سے تنفر کے بجائے ایک لذت انگیز الجھن پیدا کرنا ان کا حصہ رہا ہے۔

منٹو کی شوخی تحریر سے ایک دنیا نقش فریادی ہے ان کے کرداروں کا پیرہن کاغذی نہیں بلکہ گوشت پوست کا ہے۔منٹو کے کردار حقیقی ہیں۔طوائفوں یا اسی طبقہ کے دوسرے کرداروں کو انہوں نے اس انداز سے پیش کیا ہے جیسے ان کی زندگی انہی لوگوں میں گزری ہو۔انہوں نے جنسی کیفیت اور نفسیاتی خواہشات کے مظاہرے بڑی تفصیل اور بے باکی سے بیان کئے ہیں۔کبھی کبھی تو ان تفصیلات میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیش نظر اصلاح نہیں بلکہ لطف اندوزی ہے۔

ترقی پسند تحریک کے سلسلہ میں منٹو کا نام بہت اہم ہے۔انہوں نے اپنے مخصوص فن سے افسانہ نگاری کو ترقی بھی دی ہے اور ان ہی کے قلم سے اس نازک فن کو نقصان بھی پہنچا۔منٹو سیاسی افسانوں کی وجہ سے مشہور نہیں ہوئے بلکہ ان کا خاص میدان جنسی میلانات کا تجزیہ ہے۔اس سلسلہ میں انہوں نے باریک بینی اور مور شگافی سے کام لیا ہے۔منٹو نے اپنے افسانہ “دھواں” میں ابتدائی عمر کے جذبات کی ترجمانی کامیابی کے ساتھ کی ہے۔ان کے تمام افسانوں میں نفسیاتی تجزیہ نہیں ہے بلکہ ان کے بہت سے افسانوں میں گندگی پیدا ہوگئی ہے جس کی مثال “جانکی” میں جانکی کا کردار ہے۔افسانہ “ٹھنڈا گوشت” منٹو کے خاص رنگ کی نمائندگی کرتا ہے۔دراصل منٹو کا آرٹ عریانی میں مضمر ہے انہوں نے جنسی افسانوں کو ترقی دی ہے۔

منٹو کے آخری دور کے افسانے “سڑک کے کنارے” میں انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ عورت ایک ماں کی زخمی تڑپتی ہوئی روح ہے۔منٹو نے اس فسانے میں بھی ایسا موقع پیدا کیا ہے کہ اس روح میں ایک طوفان ہے جس کی وجہ سے ہلچل مچی ہوئی ہے۔

“ہتک” کے کردار سوگندھی میں منٹو نے طوائف کے اندر چھپی ہوئی عورت کو ظاہر کیا ہے اور اسکی روح کو چھوا ہے۔

منٹو کی کردار نگاری میں سوگندھی کا کردار اور سلطانہ کا کردار منٹو کے متعدد طوائف کرداروں میں سب سے نمایاں کردار ہیں۔منٹو نے اپنے کرداروں کو ان شکنجوں سے آزاد کیا اور کہانی سے پلاٹ کی اولیت کو ختم کر کے کردار نگاری کے مقابلے میں اسے ثانوی چیز قرار دیا۔منٹو کی کردار نگاری جو اپنے عروج کو پہنچتی ہے تو وہ پلاٹ کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔”موپاساں” اور “چیخوف” کی طرح اگر اردو میں کسی افسانہ نگار کے کردار آر پار نظر آنے والے کردار بن کر سامنے آتے ہیں تو وہ منٹو ہی کے کردار ہیں۔

منٹو کے کارناموں میں ایک ناول “بغیر عنوان کے” 1954ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوی مجموعوں میں “آتش پارے” (1936) “منٹو کے افسانے”(1940)، دھواں (1941)، افسانے اور ڈرامے (1943)، لذت سنگ (1948)، سیاہ حاشیے (1948)، چغد (1948)، ٹھنڈا گوشت (1950)،خالی بوتلیں خالی ڈبے (1950)، بادشاہت کا خاتمہ (1951)، یزید (1951)، نمرود کی خدائی (1952)، سڑک کے کنارے (1953)، اوپر، نیچے اور درمیان (1954)، سرکنڈوں کے پیچھے (1954)، پھندے (1954) وغیرہ اہم ہیں۔

منٹو کے تقسیم ہند کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، موذیل، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، سہائے، رام کھلاون، گورمکھ سنگھ کی وصیت، یزید،لہرنام کور،ڈارلنگ، عزت کے لیے،وہ لڑکی، اور انجام بخیر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ منٹو نے مختلف شخصیات پر کل 22 خاکے بھی لکھے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔میرا صاحب، آغا خشر سے دو ملاقاتیں،اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں،تین گولے،بار صاحب،عصمت چغتائی،مرلی کی دھن،پری چہرہ نسیم،اشوک کمار،نرگس،کشت زعفران،بابو رائل پٹیل،دیوان سنگھ مفتون،نور جہاں،نواب کاشمیری،ستارہ،چراغ،حسن حیرت،پراسرار نینا،رفیق غزنوی پارودیوی،انور کمال پاشا۔

منٹو کے پانچ افسانوں:کالی شلوار، دھواں،بو، ٹھنڈاگوشت، کھول دو، اور ایک ڈرامہ اوپر نیچے درمیان پرفحاشی کے الزام کے تحت فوجداری مقدمے چلائے گئے۔ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین تحریروں پر مملکت پاکستان میں درج ہوئے۔منٹو کے مطابق “زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے” منٹو ایک جگہ فرماتے ہیں”چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہوسکتی۔میری ہیروئن چکلی کی ایک رنڈی ہوسکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سونے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا ہے”

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ منٹو نے ہمیشہ جنس کو موضوع بنایا لیکن جنسی موضوعات پر لکھ کر انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ دو جنسیت کا ہی ہے اسی لئے انہوں نے خود کہا ہے کہ اگر میرے افسانے پڑھنے میں آپ کو شرم آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔بہرحال کچھ بھی ہو سعادت حسن منٹو کا نام اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ایک بلند مقام کا حامل ہے۔