Krishan Chander Ki Afsana Nigari | کرشن چندر کی افسانہ نگاری

0

کرشن چندر کی افسانہ نگاری

اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کرشن چندر 22 نومبر 1914ء کو وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام گوری شنکر چوپڑا تھا جو پیشے سے ڈاکٹر تھے اور جموں میں تعینات تھے۔1918ء میں ان کا تبادلہ جموں سے مہنڈر، پونچھ میں ہوا جہاں انہوں نے کرشن چندر کو پانچ سال کی عمر میں پرائمری اسکول مہنڈر میں جماعت اول میں داخل کرایا۔پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد کرشن چندر کو ہائی اسکول پونچھ میں داخل کرایا گیا جہاں سے انہوں نے 1929ء میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبرات سے پاس کیا۔

اسکے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1933ء میں سائنس کے مضامین کے ساتھ بی اے کا امتحان پاس کیا۔پھر وہاں ہی 1935ء میں انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔لاہور کے لا کالج میں انہوں نے 1937ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی مگر وکالت پسند نہ آئی تو ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔یہاں بھی دل نہ لگا تو ملازمت ترک کر دی اور صحافت و افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔1938ء میں ان کی شادی لاہور میں ودیاوتی سے کرائی گئی جن سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پیدا ہوئے۔ 1938ء میں کرشن چندر نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کر لی اس سلسلہ میں وہ دہلی اور لکھنؤ میں رہے بعد میں اس ملازمت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور فلم کمپنی میں ملازمت شروع کی۔یہ سلسلہ 1943ء تک جاری رہا ساتھ ہی انہوں نے ممبئی میں مکمل سکونت اختیار کر لی۔جہاں علمی اور ادبی مضامین کے علاوہ ریڈیو کے لئے کہانیاں لکھنے لگے۔یہ سلسلہ آخر عمر تک جاری رہا۔ کرشن چندر کی پہلی ازدواجی زندگی بہت ناخوشگواررہی۔آخر تنگ آ کر انہوں نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی اور 1961ء میں اردو کی مشہور افسانہ نگار سلمیٰ صدیقی سے دوسری شادی کرلی جس نے زندگی کے آخری لمحات تک انکا ساتھ دیا۔

کرشن چندر نے مارچ 1977ء میں ممبئی میں وفات پائی اور وہیں ان کے جسد خاکی کو سپرد آتش کیا گیا۔ان کے جسد خاکی کی راکھ پونچھ میں بھی لائی گئی جو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جناب مجاہد جیب اللہ نے دریائے پونچھ میں بہائی،اس وقت ان کے ہمراہ بہت سے سرکاری افسر بھی تھے۔ان کے علاوہ پونچھ شہر کے بہت ہی معزز شہری بھی تھے جن میں ایک کنبہ مشق استاد جناب دینا ناتھ رفیق،مشہور پنجابی شاعر اکالی درشن سنگھ،سابق لیبر کمشنر جناب غلام قادر بانڈے،سابق نائب وزیر اطلاعات ایڈوکیٹ خواجہ محمد دین بانڈے،رسالہ “ستاروں سے آگے” کے ایڈیٹر جناب ایم اے شمیم،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔پونچھ میں کرشن چندر کے نام پر ایک پارک بھی بنایا گیا ہے جبکہ سرنکوٹ میں ان کے نام پر بزم چل رہی ہے۔

جدید دور کے افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کا نام نہایت اہم ہے۔وہ ایک زبردست حقیقت پسند افسانہ نگار تھے۔اگر انہوں نے تنگ و تاریک گلیوں کا ذکر کیا ہے تو ساتھ ہی ساتھ تیرہ وتار منازل سے نکال کر روشنی اور سادہ سڑکوں کی بھی سیر کرائی ہے۔کرشن چندر کا فن پر اثر اور دیرپا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں قاری کو شہر کی چہل پہل دکھا کر دیہات کے دلکش مناظر کی سیر کرائی اور اس کے بعد زندگی کی تلخ حقیقت سے روشناس کرایا ہے۔ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت کا بہت ہی خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔

موجودہ دور کے افسانہ نگاروں میں کرشن چندر کا مقام بہت بلند ہے۔انہوں نے خیال و بیان کی لطیف رعنائیوں کے ساتھ اپنی انفرادیت کو افسانے کے پیکر میں نمایاں کیا ہے۔انہوں نے فکر انگیز انداز میں موجودہ سماجی کشمکش کی مصوری کی ہے۔

منظر نگاری میں کرشن چندر کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔انہوں نے شاعرانہ رنگین بیانی کے ساتھ مناظر فطرت کی مصوری کی ہے۔کردار نگاری میں بھی انہوں نے نفسیاتی تجزیہ نہایت اچھے ڈھنگ سے کیا ہے۔کرشن چندر کے افسانوں میں زندگی کی ترجمانی پائی جاتی ہے۔انسانوں سے ہمدردی، ان کے مستقبل کا خیال، ان کے ساتھ انصاف، ان کی ترقی کے احکامات کا تجزیہ، اور اسی طرح کے خاص موضوعات میں کرشن چندر نے لگ بھگ 80 کتابیں لکھی ہیں جن میں ناول، افسانے، ڈرامے اور متعدد ترجمے شامل ہیں ساتھ ہی جن میں زندگی کے نشیب و فراز، اس کی دلکشی، آرزوؤں اور امیدوں کی واضح تصویریں ملتی ہیں۔

کرشن چندر کے افسانوں میں ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے۔انھوں نے انسانی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر کامیابی سے روشنی ڈالی ہے۔کرشن چندر نے بہت سے علمی ادبی مضامین لکھے ہیں انہوں نے افسانوی ادب کو بہت بڑا فروغ دیا ہے۔

کرشن چندر ترقی پسند تحریک کے ایک سرگرم رکن تھے۔انہوں نے جدید اردو افسانے کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھایا۔تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے سفاکانہ خونریزیوں پر کرشن چندر کی افسانوی تخلیق “ہم وحشی ہیں”ایک یادگار کارنامے کی حیثیت حاصل کر چکی ہے جس کی تقلید آج تک ہو رہی ہے۔

کرشن چندر کسی خاص موضوع یا دائرے تک محدود نہ رہے ان کے ہر افسانے میں انکا اپنا ایک الگ انداز ہے۔انہوں نے انسان دوستی،آفاقیت اور بین الاقوامیت کا پرچار کیا۔انہوں نے مظلوم اور بے بس عوام کو اپنے افسانوں کی بنیاد بنایا۔سرمایہ داری کے خلاف جنگ کو اپنے افسانوں کا مقصد بنایا۔ان کے ابتدائی افسانے رومانی انداز کے تھے پھر انہوں نے قومی انداز اپنایا اور اس کے بعد وہ اشتراکیت اور سوشلزم کی طرف مائل ہوئے اور وہی رنگ ان کے افسانوں میں واضح ہوا۔

کرشن چندر کے افسانوں کے کئی مجموعے ہیں لیکن وہ مجموعے جن کے افسانے ان کے ذہنی ارتقاء کو ظاہر کرتے ہیں ان میں “ٹوٹے ہوئے تارے” “نظارے” اور “ہم وحشی ہیں” مشہور ہیں۔

کرشن چندر اردو زبان کے سب سے بڑے افسانہ نگار ہیں۔کچھ لوگ ان کے مقابلے میں رجندر سنگھ بیدی کو بڑا افسانہ نگار قرار دیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کی رائے میں کرشن چندر ہی سب سے بڑے افسانہ نگار تھے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال کی خامیوں مثلاً بے جا رسم و روایات، مذہبی تعصبات،امرانہ نظام اور تیزی سے ابھرتے ہوئے دولت مند طبقہ کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔غالبا یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔انکی کی تصنیفات مثلاً کالوبھنگی، مہالکشمی، اور ایک گدھے کی سرگزشت،وغیرہ ایسے افسانے ہیں جنہوں نے لازوال شکل اختیار کر لی ہے۔کرشن چندر کو زبان اردو پر جو عبور حاصل تھا وہ شاید دوسروں کا مقدر نہیں۔ان کی خوبصورت زبان قاری کو شروع میں ہی اپنی کشش میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔

کرشن چندر کی خوبیوں کے معترف اردو کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ “کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ان کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ کرشن چنندر 1950ء اور 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کرچکے تھے۔ان کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا”

زندگی کے موڑ پر’ اور’ بالکونی‘ جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔جہاں ایک طرف ‘زندگی کے موڑ پر’ افسانہ پنجاب کی قصباتی زندگی کی انتہائی رومانی شبیہ پیش کرتا ہے وہیں ‘بالکونی‘ کشمیر کی خوبصورت اور مست آب و ہوا کو مرکز نگاہ میں رکھ کر لکھا گیا ہے

کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ‘اندھے’ ‘لال باغ’ ‘جیکسن’ ‘امرتسر’ اور ‘پشاور ایکسپریس’ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں کے پیدا شدہ ماحول پر ضرب کرتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔انکے یہ افسانے ہندوستانی ادب میں انسانیت کے حق میں آواز اٹھانے کا کام انجام دیتے ہیں اور قارئین کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔وہ اپنے ان خیالات کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

کرشن چندر کے کل 33 افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔


١ طلسم خیال، ٢ نظارے، ٣ ہوائی قلعے، ٤ گھونگھٹ میں گوری چلے، ٥ زندگی کے موڑ پر، ٦ نئے افسانے، ٧ نغمے کی موت، ٨ پرانے خدا، ٩ ان داتا، ١٠ ہم وحشی ہیں، ١١ ٹوٹے ہوئے تارے، ١٢ تین غنڈے، ١٣ اجنتا سے آگے، ١٤ ایک گرجا ایک خندق، ١٥ سمندر دور ہے، ١٦ شکست کے بعد، ١٧ نئے غلام، ١٨ میں انتظار کروں گا، ١٩ مزاحیہ افسانے، ٢٠ ایک روپیہ ایک پھول، ٢١ یوکلپٹس کی ڈالی، ٢٢ ہائیڈروجن بم کے بعد، ٢٣ کتاب کا کفن، ٢٤ دل کسی کا دوست نہیں، ٢٥ کرشن چندر کے افسانے، ٢٦ مسکرانے والیاں، ٢٧ سپنوں کا قیدی، ٢٨ مس نینی تال، ٢٩ دسواں پل، ٣٠ گلشن گلشن ڈھونڈا تجھ کو، ٣١ آدھے گھنٹے کا خدا، ٣٢ الجھی لڑکی کالے بال، اور ٣٣ دیوتا اور کسان۔


مجموعی طور پر کرشن چندر نے افسانے کی دنیا میں بہت بڑا نام کمایا۔وہ پہلے افسانہ نگار تھے جنہوں نے اردو ادب کو ترقی پسند تحریک میں شہرت دی اور شروع سے آخر تک اس تحریک کے ساتھ منسلک رہے اور اچھی مقبولیت حاصل کی۔اردو افسانے کی دنیا میں کرشن چندر کا نام ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔