سلمہ جیلانی | Salma Jeelani Biography

0

تعارف

سلمیٰ جیلانی ایک مختصر کہانی کی مصنفہ اور شاعرہ ہیں۔ وہ ۲۰۰۱ سے نیوزی لینڈ میں رہائش پذیر ہیں ، اصل میں کراچی ، پاکستان سے ہیں۔ انھوں نے ڈبل ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم- کام اور آکلینڈ یونیورسٹی سے ایم-بزنس کیا۔وہ مختلف بین الاقوامی ترتیری اداروں میں اور باہر کی بنیاد پر پڑھاتی رہی ہیں۔ مختصر کہانیاں لکھنا ان کا جنون ہے۔ اب تک ایک رنگ کتاب” پیوند”کے نام سے ایک مجموعہ ۲۰۱۷ میں شائع ہوا تھا۔

سلمیٰ جیلانی دنیا بھر سے متعدد نوجوان اور بوڑھے نامور شعراء کا اردو میں ترجمہ کرتی ہیں اور اس کے برعکس وہ ادب کے ترجمے کو ایک پُل سمجھتی ہیں۔ مختلف ثقافتوں کے درمیان جو انہیں قریب لاتے ہیں اور دقیانوسی تصورات کو دور کرتے ہیں۔ سلمیٰ جیلانی ڈاکٹر نسترن فاتح  اور سبین علی کے ساتھ آن لائن ادبی رسالہ “دیدبان”کی شریک مدیر بھی ہیں۔ سلمیٰ جیلانی کی شادی دوران تعلیم ہو گئی تھی اور ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

ادبی تعارف

سلمٰی جیلانی عصرِ حاضر کے ادیبوں میں تیزی سے اپنی شناخت تراش رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب آپ کا شمار موجودہ دور کے مایہ ناز ادیبوں میں کیا جا سکے گا۔ آپ اپنی ہر تحریر و افسانے کو تحقیق و تجربے کی بھٹی میں پکانے کے بعد سپردِ قلم کرتی ہیں اور یہی آپ کی تحریروں کا حسن ہے۔

 سلمیٰ نیوزی لینڈ کے دور دراز جزیرے پر ایک ناسٹلجک کی سی زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو سے ان کا رابطہ بس گھر والوں سے بات چیت کی حد تک ہی رہ گیا تھا کہ 2010ء میں فیس بک کی کھڑکی کھلی ، جس کے ذریعے گل بانو آپا سے اور پاکستان کے دوسرے تخلیق کاروں خصوصاً شعراء اور ان کی تخلیقات سے آگاہی ہوئی۔ میں نے کچھ دوستوں کی نظموں کے انگریزی زبان میں ترجمے کئے اس کے علاوہ مولانا رومی کے انگریزی ترجمے اردو میں منتقل کئے۔ انہی میں سے کسی ترجمے کو دیکھ کر نصیر احمد ناصر صاحب نے اپنے گروپ تسطیر کا ایڈمن بنا دیا۔ جہاں میں نے کم ازکم تیس پینتیس ملکی اور غیر ملکی شعراء کی نظموں کو اردو/ انگریزی میں منتقل کیا۔ اسی زمانے میں میرا ایک چھوٹا سا افسانچہ افسانہ فورم کے میلے میں شامل ہوا جسے دوستوں نے کافی پسند کیا۔ بس اس کے بعد افسانہ نگاری کا سلسلہ چل نکلا۔

ادبی آغاز

سلمیٰ جیلانی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز نظموں کے ترجمے سے  کیا جس میں رومی اور بہت سے  کنٹمپریری شاعر اور شاعرہ شامل ہیں۔ وطن سے دور اپنی تہذیب اور اپنوں سے جو فاصلے بن گئے تھے اس کا ازالہ انہوں نے اس طرح کیا اور وہ ادب سے گہرائی سے جڑتی چلی گئیں۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ کچھ نظمیں لکھنے لگیں لیکن بہت جلد احساس ہوا کہ وہ افسانہ کے ذریعے زیادہ بہتر طریقے سے  معاشرے کے مسائل کو سامنے لا سکتی ہیں۔ اس طرح وہ افسانے کی طرف آگئیں۔

افسانے

  • ان کے افسانے ثالث (مونگیر ہندوستان)،
  • فنون (پاکستان)،
  • شاعر(ہندوستان)،
  • ادبیکا (پاکستان)،

اجراء (پاکستان) کے علاوہ کئی اہم ادبی جریدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ترجمے اور غیر عروضی نظمیں وہ شروع سے کہتی رہی ہیں ، چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ “اُردو اَفسانے سے مجھے جو تعلقِ خاص ہے اس کا سبب اِس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ میں اَپنے تخلیقی وجود کو اِس باکمال صنف سے ہم آہنگ پاتی ہوں۔ یہ اسی تعلق کا فیضان ہے کہ میں اَفسانے کی تخلیقی فضا میں رہتے ہوئے زندگی کی تفہیم کے جتن کرتی رہتی ہوں۔”

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے تو ان کی ان تحریروں کو وہ توجہ اور پزیرائی ملی جو شاید ہی ان کے کسی ہم عصر کے حصہ میں آئی ہوگی۔ اس تخلیقی سفر کے دوران ‘ ان افسانوں کے موضوعات کی وسعت و تنوع اور اسلوب کی رنگا رنگی نے صف اوّل کے افسانہ نگار پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی کو متاثر کیا‘ وہیں ان کے معاصرین بھی ان کی تخلیقات سے صرف نظر نہ کر سکے۔

ان کے علاوہ ‘ فرخ ندیم ‘ نعیم بیگ جیسے بالغ النظر ادیب اور نقاد ان کے فن پر بات کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پیغام آفاقی نے کہا کہ سلمیٰ جیلانی کہانی کہنے کے فن پر حیرت انگیز طور پر قدرت رکھتی ہیں۔ان کا مشاہدہ گہرا اور تیز ہے ‘ وہ زندگی کو کسی شاہراہ سے نہیں بلکہ اس کی پگڈنڈیوں سے گزر کر دیکھنے کی عادی ہیں۔ اس طرح کہ زندگی کا بھر پور ابلاغ ان کی کہانیوں سے ہوجاتا ہے۔

ان کی کہانیوں میں عہد موجودہ کی معاشرتی ‘ ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے نقوش بڑے واضح اور اتنے نمایاں ہیں کہ ان سے لمحہ رواں کی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ نعيم بیگ کو ان کے یہاں بیان کی سادگی‘ خلوص اور خیالات کی یک گونہ ندرت نے متوجہ کیا۔ ان کی کہانیاں عصری زندگی کے مصائب کا احاطہ کرتی ہیں۔

سلمی جیلانی کا افسانہ” عشق پیچاں“ اردو کی چند تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں ماحولیاتی مادریت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ سلمیٰ جیلانی نے اس افسانے میں کیا کیا ہنر دکھائے ہیں۔ فکر انگیز جملے ’ دلچسپ واقعات‘ سیدھی سادی سی پچیدگیاں، ایجاز و اختصار، زبان کا برملا اوربے دریغ استعمال افسانے کو پر کشش بناتی ہے۔ سلمیٰ جیلانی جیسی مصنفہ کا ہمارے درمیان ہونا ہمارے اور اردو ادب کے لیے فخر کی بات ہے۔