Ali Abbas Hussaini Biography In Urdu | علی عباس حسینی کی افسانہ نگاری

0

علی عباس حسینی 1895ء میں ضلع غازی پور کے مولوی خاندان میں پیدا ہوئے۔عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مدرسہ میں حاصل کی۔اس کے بعد میٹرک، بی اے اور ایم اے ایل ٹی کے امتحانات پاس کیے۔1921ء میں محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔1952ء تک مختلف سرکاری اداروں میں ٹیچر، ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور 1954ء میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئے اور لکھنؤ میں سکونت اختیار کرلی۔علی عباس حسینی کا انتقال 1969ء میں ہوا۔

علی عباس حسینی کی افسانہ نگاری

علی عباس حسینی طبع زاد افسانے لکھنے والوں میں ایک خاص انداز کے مالک ہیں۔ان کے اردو افسانے بڑے کام کی چیز ہیں۔ان کے افسانوں کے پلاٹ نہایت دلکش اور فطری ہیں۔اصلاح معاشرت کا رنگ ان کے افسانوں پر چھایا ہوا ہے۔ انھوں نے پلاٹ، کردار اور طرز بیان کے ذریعے سے ایک انفرادیت اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے حسینی کے یہاں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ ان کی سیرت نگاری ہے۔ان کے کردار بہت سی خصوصیات کے مالک ہیں۔

حسینی نے نفسیات اور تحلیل نفسی کو مدنظر رکھ کر افسانے لکھے ہیں۔ان کے ابتدائی افسانوں میں نفسیاتی صداقت کی کمی پائی جاتی ہے لیکن بعد کے افسانوں میں یہ کمی پوری ہو گئی ہے اور تحریر کے ساتھ ساتھ کردار نگاری میں بھی پختگی اور بہتری آ گئی ہے۔ایک قصہ گو کی طرح حسینی کے یہاں تفصیلات ہیں۔ انہوں نے جزوی باتوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے بعض جگہوں پر معمولی باتوں کی تفصیل بھی لکھی ہے یہ تفصیل سیرت و کردار سمجھنے میں ضرور مدد دیتی ہے لیکن کبھی کبھی ایک بوجھ بن جاتی ہے۔اس کے برعکس انھوں نے بعض جگہوں پر اختصار سے بھی کام لیا ہے اور دو تین جملوں میں ایک مکمل نقشہ پیش کر دیا ہے۔اس طرح تفصیل کے ساتھ ساتھ اختصار بیان کی خصوصیت بھی ان کے افسانوں میں پائی جاتی ہے۔

حسینی نے محبت کو ایک پاک اور مقدس جذبہ سمجھ کر اسے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور ہر جگہ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کے افسانوں میں مقامی رنگ جھلکتا ہے۔ دیہات کی فضاؤں میں انہیں سکون ملتا ہے اور وہیں کے لوگ ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔وہیں کے رسم و رواج اور اخلاق و عادات پر انہوں نے گہری روشنی ڈالی ہے۔دیہات کی زندگی پر انہوں نے مختلف زاویوں سے نظر ڈالی ہے کھیتوں اور فصلوں کا ذکر کیا ہے مگر ان کے افسانوں میں دلکشی برابر قائم ہے۔ان کی ظرافت اور مزاح کی چاشنی نے ان کی طرز تحریر کو بے حد شگفتہ بنا دیا ہے۔ان کے یہاں درد کی کسک اور تڑپ موجود ہے لیکن مزاح نے اسے فطری بنا دیا ہے اس وجہ سے ان کے افسانے بےحد دلکش ہوگئے ہیں۔حسینی کے افسانوں کی زبان سادہ، رواں،صاف اور شگفتہ ہے۔انہوں نے الفاظ کے انتخاب، تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سےعبارت میں اثر اور گزار پیدا کیا ہے۔سندی کے سادہ اور خوبصورت الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن بعض جگہوں پر ہندی کے نامانوس الفاظ سے کام لیا ہے۔ان کے کردار ہم متوسط طبقہ کے ہیں اور حسینی نے انہیں فنی مہارت سے پیش کیا ہے۔

حسینی کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد حساس ہوتا ہے کہ انہیں انسانی نفسیات پر عبور حاصل ہے۔وہ ہر کردار کے ذہن کی تہوں کو اس طرح آہستہ آہستہ کھولتے ہیں کہ اس کی مکمل شخصیت بے نقاب ہو جاتی ہے۔اس لیے حسینی کے کردار بہت جاندار اور دلکش ہیں۔افسانہ کے پلاٹ کی طرف بھی ان کی خصوصی توجہ رہتی ہے۔ وہ کہیں پلاٹ میں جھول نہیں پیدا ہونے دیتے البتہ واقعات کی طوالت اور ہر واقعے کی تفصیل پر حد سے زیادہ زور اکثر طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔

بحیثیت مجموعی ان کے افسانوں کی زبان بہت دلکش ہے۔اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کا سیاسی شعور پختہ نہیں ہے اور یہ درست ہے کہ سیاسی موضوع کی طرف انہوں نے توجہ نہیں کی۔ان کے افسانوں کے تین مجموعے“آئی سی ایس” “باسی پھول” اور “کچھ ہنسی نہیں” شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔