Niyaz Fatehpuri In Urdu | نیاز فتح پوری کی افسانہ نگاری

0

نیاز فتح پوری کی افسانہ نگاری

نیاز فتح پوری ادب لطیف کے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔وہ صرف افسانہ نگار ہی نہیں شاعر اور نقاد بھی ہیں۔ادب لطیف کے ایک نمائندہ افسانہ نگار کی حیثیت سے وہ ایک انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے ادب لطیف میں کسی افسانہ نگار کی تقلید نہ کرتے ہوئے جدید طرز کی بنیاد ڈالی۔نیاز ادب برائے ادب کے قائل ہیں ان کے خیالات آسکر والڈ کے رحجانات کے آئینہ دار ہیں۔جب انہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھا تو اس زمانے میں یلدرم کافی شہرت حاصل کرچکے تھے۔نیاز ان کی تخلیقات سے متاثر ہوئے۔انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے ذوق ادب کو ابھارنے میں سجادحیدریلدرم کا بڑا ہاتھ ہے۔یلدرم کی تخلیق “خالستان” اور “گلستان” سے انہیں متاثرت ہوئی۔

نیاز نے ابتداء میں یونانی ادب کو اردو میں منتقل کیا۔ وہاں کی رومانیت اور جمالیت کو نئے انداز میں پیش کیا۔وہ حسن کے پرستار تھے انہوں نے عورت کے آدرش وادی نقطۂ نظر کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا۔یونانی دیومالا کی حکایتیں نیاز نے اپنے افسانوں میں پیش کی ہیں۔عورت اور حسن و عشق ان کے خاص موضوعات ہیں۔“ایک شاعر کا انجام” ان کا ایک طویل افسانہ ہے یہ افسانہ ١٩١٣ء میں شائع ہوا۔اس افسانے کی سب سے نمایاں خوبی زبان کا حسن ہے۔

یلدرم کے اثرات کے علاوہ ٹیگور کے اسلوب کے اثرات بھی نیاز نے قبول کیے ہیں۔انہوں نے ٹیگور کی تصنیف “گیتانجلی” کو اردو میں منتقل کیا۔ٹیگور کے اسلوب نے نیاز کو بہت متاثر کیا۔گیتانجلی کا ترجمہ١٩١٤ء  میں شائع ہوا۔اس ترجمہ کو نیاز نے “عرض نغمہ” کے نام سے موسوم کیا۔انہوں نے ‘عرض نغمہ’ کے مقدمے میں رومانیت، تصوف اور رومانیت کی شاعری پر اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔نیاز اہل یورپ کے رومانی جذبات کے قدردان تھے انہوں نے ٹیگور کی شاعری کی روحانیت کو عزت و احترام سے دیکھا اور اہل یورپ کی روحانیت سے بھی دلچسپی ظاہر کی لیکن یہ روحانیت ان کی تحریروں میں نمایاں نہ ہوسکی۔وہ جمال پرست بھی تھے اس لیے وہ حسن و عشق کی رنگینیوں میں کھو گئے۔نیاز نے اپنے افسانوں اور انشائیوں میں اسلوب پر زیادہ زور دیا ہے۔منظر نگاری اور جذبات نگاری میں ان کی امتیازی حیثیت ہے۔وہ تحریر کو دلکش اور دلچسپ بنانے کی کوشش میں عربی، فارسی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ ” ایک شاعر کا انجام” ان کا پہلا طویل افسانہ ہے۔انہوں نے افسانے کی خصوصیات اور اپنے طرز تحریر کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ افسانہ ان تمام تخلیقات سے بالکل مختلف ہے جن کا ذکر افسانوی ادب میں اب تک کیا جاتا رہا ہے۔

اس افسانے میں جذباتی عنصر کو ابھارا گیا ہے اور اس جزبات نگاری کی وجہ سے ہی اسلوب کا حسن ہے۔الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی ساخت سے جمالیاتی ذوق نظر آتا ہے۔کردار جس انداز میں محبت پر گفتگو کرتے ہیں اور اپنی رائے دیتے ہیں اس سے رومانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔نیاز کا اسلوب ان کے ناولٹ” شہاب کی سرگزشت” میں اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اس ناولٹ کے کردار شہاب، محمود، اختر اور طفیل سوچتے زیادہ ہیں اور ان کے سوچنے کا انداز فلسفیانہ ہے۔شہاب فلسفیانہ غوروفکر میں دوسرے کرداروں پر فوقیت رکھتا ہے۔وہ محبت کو جو کچھ سمجھتا ہے اس سے عام انسانوں کو کوئی دلچسپی نہیں۔اس کا خیال ہے کہ محبت رشتہ ازدواج کی قیود سے بالاتر ہے۔اس کا یہ خیال اس افسانے میں شروع سے آخر تک چھایا ہوا ہے۔طرز تحریر کی دلکشی متاثر کرتی ہے۔رومانیت، جمالیاتی احساس اور اسلوب کا حسن اس ناولٹ کو ادب لطیف کے زمرے میں داخل کر دیتے ہیں۔حالانکہ اس میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو سماجی حیثیت رکھتے ہیں  لیکن رومانیت اور جمالیت شروع سے آخر تک چھائی رہتی ہے۔

“شہاب کی سرگزشت”کے بعد نیاز کی دوسری اہم تصنیف “نگارستان” ہے۔ادب لطیف میں اسے اہم مقام حاصل ہے۔ ‘نگارستان” ٢٦ افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ ہے۔نگارستان کی تخلیق تین حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں پہلی قسم کی تخلیقات طبع زاد ہیں جن میں سے کچھ کا ماخذ یونانی علم”العضام” سے ہے۔اور دیگر تخلیقات نیاز کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہیں۔دوسری قسم کی تخلیقات تراجم پر مشتمل ہیں ۔تیسری قسم کی تخلیقات پہلی اور دوسری قسم کی تخلیقات سے بالکل مختلف ہیں۔ان تخلیقات میں نہ تو وہ رومانیت اور رنگینی ہے اور نہ ہی اسلوب میں وہ حسن  جونیاز کی خاص خوبی ہے۔بہرحال چند ایسی تخلیقات ہیں جنہیں ادب لطیف میں شامل کیا جاتا ہے۔ان میں اسلوب کے ساتھ ساتھ موضوعات بھی لطیف ہیں۔

نیاز اپنی تحریروں میں عورت کے حسن کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں۔وہ صرف عورت کی خوبصورتی اور اس کے شباب سے ہی متاثر نہیں ہیں، انہوں نے عورت کی نفسیات کا عمیق مطالعہ بھی کیا ہےاور ان کی باطنی صفات کا جائزہ بھی لیا ہے۔وہ عورت کے جذبہ محبت و خلوص کی داد پرجوش انداز میں دیتے ہیں۔افسانہ” عورت” میں نیاز نے بڑی خوبصورتی سے عورت کی صفات پیش کی ہیں۔ وہ عورت کو ایک شوہرپرست بیوی کے روپ میں بھی پیش کرتے ہیں اور ممتا بھری ماں کی شکل میں بھی۔“ایک مصور فرشتہ” میں نیاز نے اپنے خیالات کا اظہار بڑے اچھے انداز سے کیا ہے۔کائنات میں حسن عورت کی وجہ سے ہے اس لئے عورت کی تخلیق بھی غیر معمولی کاوش سے کی گئی ہوگی۔نیاز کا خیال ہے کہ عورت کی تخلیق ایک فرشتہ نے بڑے اہتمام سے کی۔نیاز نے عورت کی نفسیات کا ذکر اپنے مختلف افسانوں میں کیا ہے۔افسانہ “محبت کی دیوی” میں عورت کے ایثار، اس کی محبت اور حسن سیرت کا ذکر کیا ہے۔کردن “قربان گاۓ حسن” میں عورت کا غرور اور اس کا جذبہ حسد پیش کیا گیا ہے۔پروفیسر وقار عظیم نے نیاز کو رومانی محبت کا افسانہ نویس قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ہمارے افسانہ نگاروں میں جن جن نے رومانی محبت کے افسانے لکھے ہیں ان کے یہاں نفسیات اور نفسیاتی تحلیل کے بہترین نمونے موجود ہیں۔رومانی افسانہ نگاروں میں نیاز اور سجاد حیدر یلدرم کے افسانے اردو کے افسانوی ادب میں سر مایہ ناز چیزیں ہیں۔”

نیاز کی نثر نگاری کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ان کے مکاتیب کا ذکر نہ کیا جائے۔ان کے تین مکتوبات شائع ہو چکے ہیں۔حصہ اول اور دوم اسلوب کے لحاظ سے زیادہ اہم ہیں۔ان خطوط میں ان کے شگفتہ طرز تحریر کے بہترین نمونے نظر آتے ہیں۔شعر و شاعری، تنقید و تبصرہ، مذہب و سیاست،، حسن و عشق اور بہت سے موضوعات بھی ان کے مکاتیب میں شامل ہیں۔کہیں کہیں تو ان خطوط میں افسانوی انداز ملتا ہے۔یہ خطوط تصنیف کی گئی ہیں اس لیے ان میں ذاتی خطوط کی خاصیت نظر نہیں آتی۔نیاز نے اپنی تحریروں میں رومانی اور جمالیاتی انداز اختیار کیا اس میں شک نہیں کہ وہ ایک کامیاب نثر نگار ہیں رومانیت کے ساتھ ساتھ جمالیت بھی ان کی تخلیقات کی خصوصیت ہے۔مجنوں گورکھ پوری کے مطابق “اردو زبان میں نیاز فتح پوری نہ صرف نئے دور کے رہنما ہیں بلکہ ایک خاص ادبی دبستان کے بانی ہیں جن کو جمالیاتی دبستان کہنا چاہیے۔رومانیت اور جمالیات دونوں ان کی ادبی تخلیقات کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں۔ان کی تخلیقات سرمایہ ادب میں بیش بہا اضافہ ہیں۔