محمد جمیل اختر | Mohammad Jamil Akhtar Biography

0

تعارف

محمد جمیل اختر کی پیدائش چار جون کی ہے۔ آپ روالپنڈی میں مقیم ہیں اور پیشہ وارانہ طور پر اکاؤنٹنٹ ہیں۔ محمد جمیل صاحب افسانہ نگار بھی ہیں۔ گہرائی سے ان کو پڑھنے کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ جمیل بہت حساس طبع کے انسان ہیں۔ ان کی تحریروں میں زندگی کی ،مفلسی کی،اور غیر ہموار معاشرے کی تلخیص نظر آتی ہے۔

شہرت

ان کی بہت سی مختصر کہانیاں مختلف رسالوں میں شائع ہوچکی ہیں۔
فنون ، ادیب لطیف ، اردو ڈائجسٹ ، غنیمت ، زنجیر ، اردو اکیڈمی دہلی کا ایوان اردو ، سنگت کوئٹہ ، قرطاس اسلام آباد ، ایکسپریس نیوز پیپر کے نام سرِ فہرست ہیں۔

افسانوی مجموعہ

افسانوی مجموعہ “ٹوٹی ہوئی سڑک” افسانہ نگار کے تخلیقی سفر کا پہلا سنگ میل ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ نہ صرف بہت مقبول ہوا بلکہ بہت سے ناقدین نے اس پر تبصرے بھی کیے۔ یہ مجموعہ جمیل اختر کی کامیابی اور شہرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ناقدین کی آراء

محمد حامد سراج فرماتے ہیں :
“ایک افسانہ نگار جو واقعہ بیان کر کے الگ ہو کر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ وہ جو اپنی تخلیق کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے خود افسانے میں ڈھل جاتا ہے ایسے میں جو تخلیق سامنے آتی ہے وہ اتنی مکمل اور شاندار ہوتی ہے کہ قاری کو سرشار کرتی ہے۔ کردار نگاری افسانوں میں نبھانا کارآساں نہیں۔ محمد جمیل اختر افسانے کا زندہ استعارہ ہے جسے پڑھنے کے بعد یقین ہوجاتا ہے کہ اردو افسانہ اپنی پوری رعنائی اور توانائی کے ساتھ زندہ ہے۔”

اقبال خورشید لکھتے ہیں :
“فکشن میں محمد جمیل اختر کا مستقبل تابناک ہے اس کے پاس سنانے کو کہانیاں ہیں اور خوش قسمت ہے وہ جن کے پاس سنانے کو کہانیاں ہیں اور وہ سماعتوں سے سیدھے دل میں اتر جائیں گے۔”

تصانیف

  • آپ کی مشہور و معروف تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :
  • “آخری روتا شخص بھی قید ہو گیا”
  • “دھند میں لپٹی شام”
  • “دنیا کا آخری کونہ”
  • “بوڑھا اور جنٹلمین”
  • “ٹوٹی ہوئی سڑک”
  • “کس جرم کی پائی ہے سزا”
  • “ایک الجھی ہوئی کہانی”
  • “کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے”
  • “اداس ماسی نیک بخت”
  • “وہ آنکھیں”
  • “ٹک ٹک ٹک”
  • “ایٹو موسو”
  • “ریلوے اسٹیشن”
  • “میں پاگل نہیں ہوں”
  • “روشنی”
  • “مسکراتے شہر کا آخر اداس آدمی”
  • “یادداشت کی تلاش میں”
  • “ٹکٹ چیکر”
  • “جیرے کالے کا دکھ”

آخری حرف

اگر صاحب من مصنف محمد جمیل اختر صاحب اپنی مختصر کہانیوں کی فکر انگیز باتوں کی ترویج شروع کر دیں اور اپنے باقی سب افعال ایک جانب رکھ کر اردو کی اشاعت میں بھرپور کردار ادا کریں تو کوئی شک نہیں کہ اردو ادب جانے کتنی ہی بلندیوں تلک رسائی حاصل کر لے۔