اردو خاکہ نگاری، تعریف،آغاز و ارتقاء

0

خاکہ نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔اس کا آرٹ غزل اور افسانے کے آرٹ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔مراد یہ ہے کہ افسانہ و غزل کی طرح یہاں بھی اشارے کنایے سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ اختصار اس کی بنیادی شرط ہے۔خاکے میں کسی شخصیت کے نقوش اسطرح ابھارے جاتے ہیں کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں اور ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے پیشِ نظر ہو جاتی ہے۔

ایک چیز ایسی ہے جو خاکے کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ کہ جس کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے اس کی کمزوریاں قاری کے دل میں اس کے لئے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی پیدا کریں اور خاکہ پڑھ کر وہ بے ساختہ کہے کہ کاش اس شخص میں یہ کمزوریاں بھی نہ ہوتیں۔

مولوی عبدالحق نے “نام دیو مالی” رشید احمد صدیقی نے” کندن “کا خاکہ لکھ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خاکے کا موضوع عظیم شخصیتیں ہی نہیں معمولی انسان بھی ہو سکتے ہیں۔اچھا، برا ،چھوٹا، بڑا، امیر ،غریب ہر طرح کے انسان کا خاکہ لکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ خاکہ نگار نے اسے ہر رنگ و رُوپ میں نزدیک سے دیکھا ہو اسے بھی بڑھ کر یہ کہ خاکہ نگار کا قلم مردہ جسم میں جان ڈال دینے کے ہنر سے واقف ہو۔

خاکہ سیرت نگاری ہے نہ سوانح عمری۔یہ کسی دل آویز شخصیت کی دھندلی سی تصویر ہے۔اس میں نہ اس کی زندگی کے اہم واقعات کی گنجائش ہے نہ خاص خاص تاریخوں کی اور نہ زیادہ تفصیل کی۔ مصنف نے کسی شخص میں کچھ قابل ذکر خصوصیات دیکھی ہوں اور وہ انہیں دلچسپ انداز سے بیان کردے تو یہی خاکہ ہے۔ مصنف نے یہ خصوصیات بچشم خود دیکھی ہوں تو کیا کہنا ورنہ منٹو نے “میرا صاحب”لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر بھی ایک کامیاب خاکہ لکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے محمدعلی جناح کے ڈرائیورز سے اسکے صاحب کے حالات سنے اور یہ خاکہ لکھ کر ان کی زندہ تصویر بنا دی۔

آغاز و ارتقاء

اردو میں باقاعدہ خاکہ نگاری کا آغاز تو حال میں ہوا لیکن شعرائے اردو کے تذکروں میں اس کی جھلکیاں ضرور مل جاتی ہیں۔میر کے “نکات الشعراء” مصحفی کے “تذکرہ ہندی” شیفتہ کے” گلشن بےخار” قدرت اللہ قاسم کے “مجموعہ نغز” اور سعادت یار خان کے “خوش معرکہ زیبا” کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مولانا محمد حسین آزاد کی “آب حیات” ایک ایسی کتاب ہے جس میں بیسوں چلتی پھرتی اور منھ بولتی تصویریں نظر آتی ہیں۔اسے تصویروں کا خوبصورت البم کہا جائے تو بجا ہے۔ اس لحاظ سے مولانا کی دوسری کتاب” دربار اکبری”بھی اہم ہے انشاء کی” دریاۓ لطافت ” میں بھی چند شخصی تصویریں نظر آتی ہیں۔

عبد الحلیم شرر مولوی نذیر احمد مرزا محمد ہادی رسوا اور خواجہ حسن نظامی کی تحریروں میں بھی خاکوں کے نمونے نظر آتے ہیں۔لیکن اردو خاکہ نگاری کا باقاعدہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوا۔ انھوں نے نذیر احمد کا خاکہ لکھ کر اردو میں خاکہ نگاری کی بنیاد ڈالی۔اس کے علاوہ انہوں نے اور خاکے بھی لکھے۔مولوی عبدالحق نے بھی اس طرف توجہ کی۔ مختلف شخصیتوں پر وہ مسلسل مضامین لکھتے رہے جو بعد کو کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

رشید احمد صدیقی کو بھی شخصیات سے دلچسپی رہی ہے اور انھوں نے بہت سے خاکے لکھے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ایک منصوبے کے تحت شخصیتوں کے خاکے لکھے جاتے رہے لیکن ان مصنفین کی نظر اشخاص سے زیادہ تحریک پر تھی اس لیے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔تاہم ان کی توجہ حقیقت نگاری پر رہی۔عصمت چغتائی اور منٹو نے بھی بہت اچھے خاکے لکھے۔اعجاز حسین، شوکت تھانوی، شاہد احمد دہلوی بھی اہم خاکا نگار ہیں۔پاکستان میں بھی اس صنف نے خوب ترقی کی ہے۔طفیل احمد اور مشتاق احمد یوسفی کے لکھے ہوئے خاکے بہت جاذب نظر ہیں۔نثری اصناف میں خاکہ نگاری بہت مقبول ہے۔ یقین ہے کہ یہ صنف برابر ترقی کرتی رہے گی۔