جگت موہن لال رواں رباعیاں ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 13: رباعی
  • شاعر کا نام: جگت موہن لال رواں
  • نظم کا نام: رباعیاں

رباعی نمبر 01:

کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا چیز تھی جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
اک موج فنا تھی،زندگانی کیا تھی

تشریح:

شاعر ان اشعار میں زندگی کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھیں کیا بتایا جائے کہ فانی زندگی کیا ہے۔انسان کی فانی زندگی میں ایک دور اس کے بچپن کا آتا ہے اور ایک دور جوانی کا آتا ہے۔بچپن اس قدر حسین ہوتا ہے کہ اس میں گل جیسی مہک موجود ہوتی ہے۔یہ مہک بھی اگرچہ عارضی ہوتی ہے مگر کچھ عرصہ تک قائم رہتی ہے۔مگر دوسری جانب جوانی ہوا کے جھونکوں کی طرح ہوتی ہے کہ کب یہ جھونکا آیا اور جوانی کا دور ختم ہوا۔جبکہ زندگی کی حقیقت تو یہی ہے کہ اک لہر سی آتی ہے اور زندگی کو بہا لے جاتی ہے۔یہی زندگی کی اصل حقیقت بھی ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 01:رباعی کی تعریف بیان کیجیے۔اس صنف کو رباعی کے علاوہ اور کیا کہا جاتا ہے؟

رباعی نظم کی ایک قسم ہے جس میں شعر چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چار مصرعوں کی ہر نظم رباعی نہیں کہلا سکتی بلکہ اس کو ایک خاص بحر یعنی بحر ہزج میں لکھا جاتا ہے۔ رباعی کے 24 اوزان مقرر ہیں۔ان کے علاوہ کسی اور وزن میں رباعی نہیں لکھی جاسکتی ہے۔رباعی میں شاعر ہر طرح کے مضامین کو بیان کر سکتا ہے۔
رباعی کو دوبیتی اور ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر 02:اس رباعی میں شاعر کیا بات کہنا چاہتا ہے؟

اس رباعی میں شاعر نے زندگی کو بچپن اور جوانی کے ترازو میں تولا ہے۔بچپن کو پھولوں کی مہک سے جبکہ جوانی کو ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا ہے۔

رباعی نمبر 02:

دنیا سو سو طرح سے بہلاتی ہے
سامانِ خوشی سے روح گھبراتی ہے
اب فکر فنا نے کھول دی ہیں آنکھیں
کلفت ہر بات میں نظر آتی ہے

ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ دنیا ہمیں کئی طرح سے بھلانے کی کوشش کرتی ہے۔مگر جو انسان زندگی کی حقیقت جان چکا ہوتا ہےاس کے لیے زندگی کے یہ سب بھلاوے بے معنی ہو جاتے ہیں۔زندگی اس کے لیے جو خوشی کے سامان کرتی ہے وہ ان سے خوش ہونے کی بجائے گھبراتا ہے۔کیونکہ فنا یعنی آخرت کی فکر اس انسان کی آنکھیں کھول چکی ہے اور اسے زندگی کی ہر چیز میں بے زاری محسوس ہونے لگتی ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 01:دنیا کی خوشی سے روح کیوں گھبرا رہی ہے؟

زندگی اور موت کی حقیقت کھل جانے کے بعد انسان کو زندگی کی ہر معنی بے خوشی لگنے لگ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کی روح دنیا کی خوشیوں سے خوش ہونے کی بجائے گھبراتی ہے۔

سوال نمبر 02:”کھول دی ہیں آنکھیں”سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

آنکھیں کھلنے سے شاعر کی مراد ہے کہ دنیا کی حقیقت اس پر آشکار ہوگئی ہے۔جس نے اس کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

رباعی نمبر03:

یہ کیا ہے کہ حیات جاودانی کیا ہے
پہلے دیکھو جہان فانی کیا ہے
اس فکر میں ہو کہ موت کیا شے ہے رواں
یہ بھی سمجھے کہ زندگانی کیا ہے

تشریح

شاعر زندگی کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہتا ہے کہ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرو اور دیکھو کہ فانی جہاں کیا ہے اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کیا ہے۔تم اسی فکر میں چلے جا رہے ہو کہ موت کیا شے ہے مگر اس پر بھی غور کرو کہ زندگی کیا شے ہے۔

سوالات:

سوال نمبر01:حیات جاودانی سے شاعر کی مراد کیا ہے؟

حیات جاودانی سے شاعر کی مراد ہمیشہ رہنے والی زندگی کے ہیں۔ ہمیشہ کی زندگی دنیاوی نہیں بلکہ آخرت کی زندگی ہے۔

سوال نمبر02:اس رباعی میں شاعر نےکیا بات کہنا چاہی ہے؟

اس رباعی میں شاعر نے زندگی کی حقیقت پر غور کرنے کو کہا ہے۔