ناول ایک گدھے کی سرگزشت کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر12: ناول
  • مصنف کا نام: کرشن چندر
  • سبق کا نام: ایک گدھے کی سر گزشت

ناول ایک گدھے کی سرگزشت کا خلاصہ:

”ایک گدھے کی سرگزشت“ کرشن چندر کا ناول ہے۔ جسے تمثیلی انداز میں لکھتے ہوئے مصنف نے معاشرے کے کئی تلخ حقائق کو بے نقاب کیا ہے۔ یہاں گدھا اپنی سرگزشت سناتا ہے کہ کیسے سید کرامت علی شاہ اس پر مہربان تھا۔ گدھا اپنے پڑھنے لکھنے کی کرامات کو سید کرامت علی شاہ کی مہربانی کہتا ہے۔

گدھے کی مالک کی نوکری جانے پر جب اس کے مالک نے اسے بھی گھر سے نکال دیا اور وجہ یہ بتائی کہ وہ اینٹیں زیادہ اٹھانے کی بجائے اخبار زیادہ پڑھتا ہے۔ تو گدھے نے سید کرامت کے گھر کا رخ کیا۔مگر فسادات کے باعث وہ پاکستان چلے گئے اور سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی پرقابض ہوئے۔

قبضے کے بعد جب وہاں کا نقشہ بدل دیا گیا، وہاں کتابوں کی جگہ پھل بھر دیے گئے، گدھے کو کتابوں اور عالموں فاضلوں کی یہ ناقدری پسند نہ آئی جس کی وجہ سے گدھے نے ترک وطن کا فیصلہ کیا۔گدھے کی ہجرت اسے رامو دھوبی کے پا س لے گئی جہاں اس کی زندگی رک سی گئی اور وہ گھر سے گھاٹ تک کا گدھا بن کر رہ گیا کیونکہ رامو کی زندگی کا یہی معمول تھا۔اس کی جیب اس کو عیاشی کی اجازت نہ دیتی تھی۔

گدھا جب میونسپل کارپوریشن کے دفتر میں افسر سے ملاقات کی غرض سے گیا تو افسر کو گدھے کی حیثیت و حقیقت جان کر آگ لگ گئی۔ اس نے گدھے کو بے عزت کر کے نکال دیا۔ یہاں تک کہ گدھے نے یہاں ہندوستانی ذہنیت کو بھانپتے ہوئے انگریزی زبان کا استعمال بھی کیا تھا۔ میونسپل دفتر میں آگ کے دوران کلرک کو رامو کی داستان سنانے پر اس کلرک نے بھی گدھے سے رشوت طلب کی اس کی عرضی بھجنے کے لئے۔

گدھے نے دفتری عملے کی کرپشن کو بے نقاب کیا۔ بلاآخر گدھا رامو کا قصہ لے کر منسٹر کی کوٹھی پر بھی گیا مگر اس کی بات نہ بنی۔آخر کو گدھا خراماں خراماں چرنے کے بہانے وزیراعظم ہاؤس کے سنتریوں کو چکما دے کر وہاں پہنچ گیا اور اس نے وزیراعظم سے بات چیت کی کہ ہر ہندوستانی کا حق ہونا چاہیے کہ جب وہ مرے تو اس کے بعد ریاست اس کے بیوی بچوں کے گزارے کا بندوست کرے۔ اسے آزادی کے بنیادی اصولوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔

وزیراعظم نے گدھے کی باتوں کو سراہا بھی۔گدھے نے رامو کا قصہ بھی وزیر اعظم کے گوش گزار کیا۔ وزیراعظم سے ایک عام سے گدھے کی ملاقات نے اس گدھے کو عام سے خاص بنا دیا۔شہرکے ہر طرح کے میڈیا نے اسے گھیر لیا وہ جاننے کے لئے بے چین تھے کہ اس کی وزیراعظم سے کیا بات چیت ہوئی۔

اگلے دن کی ہر طرح کی اخبار میں وہ خبروں کی زینت بنا۔میڈیا والوں نے اس سے طرح طرح کے سوال داغے۔گدھے کی یہ شہرت و پذیرائی دیکھ کرسیٹھ من سکھ لال نے اپنی بیٹی روپ وتی کا رشتہ اس سے طے کر دیا جو گدھے کے لئے بہت حیرانی کا باعث اور ناقابل یقین تھا۔جب روپ وتی کے شادی کے لئے ہاں کہنے پر گدھے نے اسے بتایا کہ میں گدھا ہوں تو روپ وتی نے کہا کہ شوہر تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر کہانی کے اختتام پر جب سیٹھ اور اس کی بیٹی کو گدھے کی وزیراعظم سے اصل ملاقات کے مدعے کا علم ہوا کہ وہ مقصد کسی بڑے پروجیکٹ یا پیسے کا حصول نہیں بلکہ خدمت خلق ہے تو انھوں نے گدھے کواتنا مارا کہ اگلے روز اخبار میں اس کے شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل ہونے کی خبر چھپی۔

سوالات:

سوال نمبر 1: گدھے نے سید کرامت علی شاہ کی کس مہربانی کا ذکر کیا ہے؟

گدھا اپنے پڑھنے لکھنے کی کرامات کو سید کرامت علی شاہ کی مہربانی کہتا ہے۔

سوال نمبر 2: گدھے نے ترک وطن کا ارادہ کیوں کیا؟

سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی پر قبضے کے بعد جب وہاں کا نقشہ بدلہ گیا تو وہاں کتابوں کی جگہ پھل بھر دیے گئے تو گدھے کو کتابوں اور عالموں فاضلوں کی یہ ناقدری پسند نہ آئی جس کی وجہ سے گدھے نے ترک وطن کا فیصلہ کیا۔

سوال نمبر 3: رامو دھوبی کے یہاں گدھے کے شب و روز کس طرح گزرے؟

رامو دھوبی کے یہاں گدھا ہر روز ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے اور وہاں سے گھاٹ اور گھاٹ سے گھر تک محدود ہو گیا۔اس کی زندگی ہر طرح کی خبروں، کتابوں وغیرہ سے کٹ کے رہ گئی۔

سوال نمبر 4: چیرمین نے گدھے کو لالہ سنت رام کیوں سمجھا اور کیا کہا؟

چیرمین نے گدھے کی ہوشیاری کی وجہ سے اسے لالہ سنت رام سمجھا اور کہا کہ کچھ لوگ باہر سے گدھے ہوتے ہیں اور کچھ اندر سے گدھے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 5: بڈھے کلرک اور گدھے کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟

گدھے نے بڈھے کلرک کو رامو دھوبی کا سارا قصہ بیان کیا جس پر بڈھے کلرک نے کہا کہ اگر تم مجھے دو روپے دو تو میں تمہاری شکایت لکھ کر بھجوا دیتا ہوں۔

سوال نمبر 6: پنڈت جواہر لال نہرو اور گدھے کے درمیان کس مسئلے پر گفتگو ہوئی؟

پنڈت جواہر لعل نہرو اور گدھے کے درمیان ہونے والی گفتگو کا متن یہ تھا کہ ہر ہندوستانی کا حق ہونا چاہیے کہ جب وہ مرے تو اس کے بعد ریاست اس کے بیوی بچوں کے گزارے کا بندوست کرے۔اسے آزادی کے بنیادی اصولوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔

سوال نمبر 7: شوہر کو ایسا ہی ہو نا چاہئے یہ جملہ روپ وتی نے کب اور کیوں کہا؟

جب روپ وتی کے شادی کے لئے ہاں کہنے پر گدھے نے اسے بتایا کہ میں گدھا ہوں تو روپ وتی نے یہ جملہ ادا کیا۔

سوال نمبر 8: گدھے کا انجام کیا ہوا؟

گدھے کو بری طرح سے پیٹا گیا اس کی کئی ہڈیاں اور پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اسے ہسپتال میں داخل کرنے کی نوبت آگئی۔

زبان و قواعد:

درج ذیل جملوں کی وضاحت کے ساتھ مصنف کے طنز و مزاح کی نشان دہی کیجیے۔

میں ہی ایک گدھا انہیں ملا مگر اس سے انھیں بحث نہ تھی وہ دراصل گفتگو کرنا چاہتے تھے۔

گدھا خود کو گدھا تو کہہ رہا ہےمگر آگے موجود انسانوں کی کم عقلی بھی بیان کر رہا ہے کہ انھیں بس میڈیا کے لئے چٹ پٹی خبریں چاہیں تھی میں ایک گدھا ہوں اس سے سروکار نہیں ہے۔

میں نے سوچا کہ جس شہر میں کتابوں اور عالموں فاضلوں کی یہ بے حرمتی ہوتی ہو وہاں رہنا ٹھیک نہیں۔

گدھے نے خود کو عالم فاضل کہا اور کتابوں کی بے حرمتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے شہر چھوڑنے کی ٹھانی۔گدھے کا خود کو یوں عالم کہنا کہانی میں لطف پیدا کرتا ہے۔

میں نے سوچا کہ ہندوستانی زبان میں بات کر لوں تو کہیں گدھا ہی نہ سمجھ لیا جاؤں۔

گدھے نے ہندوستانی معاشرے کی ذہنیت پر طنز کرتے ہوئے جب انگریزی کا لبادہ اوڑھا تو یہ جملہ کہا کہ جہاں ہندوستانی میں بات کرنے والے کو گدھا سمجھا جاتا تھا۔

وہ بولے کے کچھ لوگ باہر سے گدھے دیکھائی دیتے ہیں کچھ لوگ اندر سے گدھے ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ باہر سے اور کچھ اندر سے گدھے دکھائی دیتے ہیں کہ کچھ شکل سے ہی بے وقوف ہوتے ہیں جبکہ کچھ عقل کے گدھے ہوتے ہیں۔

میں نے کہا کہ دھوبی کا گدھا ہوں نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔

گدھے نے خود کو دھوبی کے کتے کے برابر کہتے ہوئے دھوبی کا گدھا نہ گھر کا گھاٹ کا کہا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔

من سکھ لال جی ہنسے لگے۔ بولے کے تم شکل صورت سے ہی گدھے لگتے ہو، نہیں بھائی صاحب میں نے کہا نہیں بھائی صاحب میں گدھا ہی ہوں یقین نہ ہو آئے تو میرے کان اینٹھ کر دیکھ لیجیے۔

گدھے کے بارہا کہنے پر کہ میں گدھا ہوں کسی کو یقین نہ آتا تھا۔تو اسے اپنے کان دکھا کر یقین دلانا پڑتا جیسا کہ اس نے من سکھ لال کو کہا۔

عملی کام: اس کہانی کا خلاصہ تحریر کیجئے۔
اوپردیا گیا خلاصہ ملا حظہ فرمائیے۔