افسانہ سکون کی نیند کا خلاصہ سوالات و جوابات

0
  • باب سوم: مختصر افسانہ
  • سبق کا نام:سکون کی نیند
  • مصنف کا نام:اقبال مجید

افسانہ سکون کی نیند کا خلاصہ:

اقبال مجید کے اس افسانے کا عنوان “سکون کی نیند” ہے۔ جس میں کہانی کا آغاز داستان گوئی کی صورت میں سنائے گئے ایک قصے سے ہوتا ہے۔ یہ کہانی ایسے ملک کی ہے جس کا نام ہوا تھا۔یہاں رہنے والے باسیوں کی تمام ضروریات ہواؤں کے ذریعے پوری ہو جاتی تھیں۔اسی ملک کے محل سے ملحق ایک سرنگ تھی جس میں آگ،پانی،مٹی اور ہوا ایک ساتھ قید تھے۔یہ عناصر ملک ہوا کے باسیوں کے لئے کسی عجوبہ سے کم نہ تھے۔

اس ملک کے بادشاہ نے اپنی موت کے وقت شہزادے کو وصیت کی کہ وہ کبھی اس سرنگ کو نہ کھولے مگر بادشاہ کی وفات کے بعد شہزادے کے دل میں اس سرنگ کا راز جاننے کی خواہش جاگی۔اس نے بے چین ہو کر سرنگ کا تالا کھول دیا۔سرنگ کی دوسری جانب ایک نئی دنیا آباد تھی ،جہاں دو طرح کے انسان بستے تھے ایک وہ جو جی رہے تھے اور دوسرے جو جیتے جی مر رہے تھے۔ اس سب کی وجہ یہ تھی کہ اس دیس میں ضرورتیں ہواؤں کی بجائے پیسے سے پوری ہوتی تھیں اور اس ملک میں وہی جی سکتا تھا جس کے پاس وافر پیسہ تھا۔

شہزادے نے یہ حال دیکھ کر ہواؤں کی دیوی کو بلایا اور اس ملک کی پریشانی بیان کی اور سب کو پیسے سے مالا مال کرنے کا حکم دیا۔دوسرے دن اس ملک کے تمام لوگ جب سو کر اٹھتے تو ان کے تکیوں تلے دو لاکھ روپے دھرے ہوتے۔ پہلے پہل تو ان نوٹوں کو نقلی سمجھا گیا مگر بعد میں سرکار کے اعلان پر سب نوٹ اصلی قرار دیے گئے۔اب اس ملک میں امیر ،امیر تر ہوتا گیا۔غریب لوگ امیر ہونے لگے تو امیروں کو اپنے کارخانے کے لیے مزدور میسر ہونا بند ہوگئے۔

چنانچہ ملک کے بڑے بڑے انجینئر وغیرہ کوڑی کے حساب ہوگئے۔ملک کی ضروریات کےلئے تجارت کے نام پر دیگر ملکوں سے سامان منگوایا جانے لگا جو حد سے زیادہ مہنگا تھا۔ اس سے حکومت بوکھلا گئی۔ملک کے کسان اپنی دولت باہر کے بینکوں میں جمع کرنے لگے اور فصل اگانے کو توہین سمجھنے لگے۔

یہ حالات دیکھ کر حکومت نے اعلیٰ دماغوں کو یکجا کر کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی۔کافی کوششوں اور تحقیق کے بعد پتا چلا کہ تکیہ کے نیچے پیسے اسی صورت پائے جاتے ہیں جب لوگ نیند لے کر اٹھتے ہیں۔یہ دیکھ کر حکومت نے سائنس دانوں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا اور اس کا حل یہ نکالا کہ ملک میں دولت کی اس بیہودہ تقسیم کو ختم کرنا ہے تاکہ لوگ پیسہ کمانے کی جانب مائل ہوں۔

بلاآخر حکومت نے ایک ایسی دوا ایجاد کراوائی جس کو انجکشن کے ذریعے شہریوں کو لگایا جانے لگا۔ دوا کے اثر سے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نے راتوں کو سونا چھوڑ دیا۔کچھی دنوں میں گنگال ہوگئی۔ سائنس دانوں کی مدد سے جب حکومت نے مفلس لوگوں کا ایک بڑا طبقہ تیار کر لیا تو اپنی کامیابی پر وہ سب بے حد خوش ہوئے۔یوں حکومتی طبقہ انجکشن سے عوام کو غریب بنانے لگا اور خود زیادہ سے زیادہ کمانے لگے۔

کچھ دنوں بعد ان امیروں پر انکشاف ہوا کہ جن لوگو ں کو انجکشن لگائے گئے ہیں دوا نے ان کے خون میں ایسے اثرات پیدا کر دیئے ہیں کہ اگر وہ کسی کو کاٹ لیں تو وہ انسان بنا تڑپے ختم ہو سکتا ہے۔یہ سن کر امیر طبقہ بہت پریشان ہوا۔وہ بھی اس موت سے بچنے کے لئے خود کو بھی اس دوا کا انجکشن لگا نے پر مجبور ہوگئے۔برسوں بعد جب شہزادہ اس ملک سے گزرا تو یہاں کے باسی اپنا سب کچھ دے کر بدلے میں چند پل کی سکون کی نیند سونے کے لئے ترس رہے تھے۔یوں افسانہ نگار نے بہت خوبصورتی سے بے پناہ دولت کے انجام کو پیش کیا ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 1: شہزادے نے ملک ہوا میں کیا دیکھا؟

شہزادے نے ملک ہوا میں دیکھا کہ سرنگ کے کھلنے سے ایک نئی دنیا سامنے آئی۔جس میں ایک وہ لوگ تھے جو جی رہے تھے اور دوسرے جو جیتے جی مر رہے تھے۔ان لوگوں کا جینا آسان تھا جن کے پاس وافر مقدار میں پیسہ موجود تھا۔

سوال نمبر 2: شہزادے نے ہوا کی دیوی سے کیا سفارش کی؟

شہزادے نے ہوا کی دیوی سےسفارش کی کہ وہ اس ملک کی پریشان حال جنتا کی مدد کرے اور ان سب کو پیسے سے مالا مال کر دے۔تا کہ سب آرام سکون سے رہ سکیں۔

سوال نمبر 3: دو دو لا کھ روپیہ ملنے کے بعد لوگوں کے طرزِ زندگی میں کیا فرق پیدا ہوا؟

دودو لاکھ روپیہ ملنے کے بعد لوگ خوشی سے نحال ہوگئے۔جو پہلے کروڑ پتی تھے وہ ارب پتی بن گئے کسان طبقہ فصل اگانے کو اپنی توہین سمجھنے لگا۔مزدوروں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ملک کے تمام لوگ ایک ساتھ ایک جتنے امیر ہونے لگے۔

سوال نمبر 4:سائنس دانوں نے کیا دوا ایجاد کی اور کیوں؟

سائنس دانوں نے ایسی دوا ایجاد کی جس کے لگنے سے آدمی کو مہینوں نیند نہ آتی تھی۔ اس دوا کو ایجاد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جگایا جا سکے۔ تاکہ ان کو مفت کے دو لاکھ نہ ملیں۔اور وہ پیسے کو کما کر حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر 5:لوگوں پر نیند کے انجکشن کا کیا اثر ہوا؟

نیند کے انجکشن سے لوگوں کی نیند غائب ہو گئی۔ دوا نے ان کے خون میں ایسے اثرات پیدا کر دیے کہ اگر وہ کسی کو کاٹ لیں تو وہ انسان بنا تڑپے ختم ہو جایا کرتا تھا۔

سوال نمبر 6:دولت مندوں نے آخر میں خدا سے کیا دعا مانگی؟

دولت مند یہ دعا مانگنے لگے کہ اے خدا تو ہم سے ہمارا سب کچھ لے لے۔اور اس کے بدلے ہمیں دو پل سکون سے سو لینے کی نیند دے دے۔

عملی کام:

آزادی کے بعد لکھے جانے والے کم سے کم پانچ افسانے پڑھیں اور یہ بتائیں کہ ان میں کس قسم کے مسائل بیان کئے گئے ہیں؟

  • انتظار حسین کا افسانہ “شہر افسوس” تقسیم کے بعد لکھا گیا افسانہ ہے۔اس کا بنیادی موضوع ہجرت ہے۔افسانے میں جس مسئلے کو موضوع بنا کر پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت کی وجہ سے چھوڑی ہوئی بستیاں کس طرح واویلا کرتی ہیں۔نئی جگہ جہاں جاکر بسا جائے وہاں کا ماحول اور حالات اپنی منشا کے مطابق نہ پا کر جو کرب جنم لیتا ہے اسے بیان کیا گیا ہے۔
  • انتظار حسین کا افسانہ “اجودھیا” بھی موضوع کے اعتبار سے آزادی کے فوراً بعد پیدا ہونے والی کشمکش کی غمازی کرتا ہے۔نئے حالات،نیا ماحول،آدمی می صدیوں پرانی آباؤ اجداد کی جائے پیدائش چھوڑنا، سٹیشن پر لوگوں کا ہجوم،قتل و غارت گیری وغیرہ کو بیان کرتا ہے۔ماضی کی یادوں سے نڈھال حال سے بے زار اور مستقبل سے مایوس آدمی کی کیفیت “اجودھیا” افسانہ میں مجسم صورت میں موجود ہے۔
  • اسی طرح ہاجرہ مسرور کا افسانہ “امت مرحوم” تقسیم کے بعد لکھا گیا افسانہ ہے۔افسانے میں ان زندہ دلوں کا تذکرہ بیان کیا گیا ہے جو مہاجر کیمپوں کو پکنک پوائنٹ سمجھتے تھے۔اور وہ ڈاکٹر بھی جنہیں مہاجرین کی کاہلی کا شکوہ ہے۔
  • تقسیم کے بعد لکھے گئے افسانوں میں سعادت حسن منٹو کا افسانہ “کھول دو” نہایت اہم ہے۔اس میں ایک ایسے واقعے کی تہہ میں اترنے کی کوشش کی گئی ہے جس کو دیگر لوگ محض ایک منظر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔پاکستان داخل ہونے والی سکینہ جسے رضا کار نوجوان محافظ بن کر لے جاتے ہیں۔مگر اس کو زندہ لاش کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں۔منٹو نے اس افسانے کے پس منظر میں انسان کے اندر چھپے وحشی کو بے نقاب کیا ہے۔ساتھ ہی تقسیم کے وقت ہونے والے مظالم کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
  • قدرت اللہ شہاب کا طویل افسانہ “یا خدا” بھی تقسیم کے بعد لکھا گیا افسانہ ہے۔جس میں کہانی کو مناظر میں دکھایا گیا ہے۔قیام پاکستان کے وقت کا مشرقی پنجاب، لاہور کے مہاجر کیمپ اور کراچی۔ افسانے کے پہلے حصے میں افسانوی کردار دلشاد کے ساتھ سکھوں کے کئے گئے مظالم کو بیان کیا گیا ہے۔دوسرے منظر میں مہاجر کیمپوں میں ہونے والی بربریت کو بیان کیا گیا ہے۔جہاں زندہ انسانوں کی بجائے مر جانے والوں کو کمبل نصیب ہوئے اور دوسری جانب مرد کس طرح یہاں سے عورتوں کو گاڑیوں میں بھر کر لے جاتے اور اپنا کام نکال کر چوڑ جاتے۔ تیسرا منظر وسیع القلب شہر کراچی کا ہے یہاں کہانی کی یہی عورتیں باقاعدہ جسم فروشی کا کاروبار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔اس افسانے میں قدرت اللہ شہاب نے عورت کی ٹریجڈی اور بکھرے خوابوں کو دکھا یا ہے۔