نظم پھول مالا کی تشریح ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 14: نظم
  • شاعر کانام:برج نرائن چکبست
  • نظم کا نام:پھول مالا

نظم پھول مالا کی تشریح

روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہرگز

اس نظم میں شاعر اپنی قوم کی بیٹیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ مردوں کے غلط راستے پر ہر گز نہ چلیں۔ایسا کرنا ان کے لیے اپنی تعلیم میں داغ لگانے کے مترادف ہوگا۔یعنی وہ اپنی تعلیم و تربیت کو خود ہی ناکارہ بنائیں گی۔

نام رکھا ہے نمایش کا ترقی و رِفارم
تم اِس انداز کے دھوکے میں نہ آنا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ آج کے دور میں ہم نے نمود و نمائش کو دوسرا نام اصلاح اور ترقی کا دے دیا ہے مگر درحقیقت یہ ایک دھوکا ہے اور تم اس دھوکے میں ہر گز مت آنا۔

رنگ ہے جن میں مگر بوئے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز

شاعر اس دھوکے اور ترقی کو آج کے دور کے مصنوعی پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دھوکا ایسا ہی جیسے بنا خوشبو کے پھول ہوتے ہیں کہ ان کا رنگ روپ تو بہت خوبصورت ہوتا ہے مگر ان میں خوشبو نہیں ہوتی ہے۔اس لیے تم کبھی ایسے پھولوں سے اپنی زندگی یا گھر نہ سجانا کیونکہ ان میں وفا نہیں ہے۔

نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ اگر تمھیں یورپ کی نقل کرنی ہے تو یہ ایسی نامناسب بات نہیں، ٹھیک ہے تم ان کی تہذیب کو جزوی طور پر اپنا سکتے ہو نقل کر سکتے ہو مگر اس چکر میں کبھی اپنی قوم کی غیرت اور وقار کو ہر گز خاک میں مت ملانا۔

خود جو کرتے ہیں زمانے کی روش کو بدنام
ساتھ دیتا نہیں ایسوں کا زمانا ہرگز

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم خود غلط اخلاقیات کو اپناتے ہیں، غلط راستے پر چلتے ہیں اور بعد میں اس کا دوش ہم زمانے کو دے دیتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے ہم نہیں ہیں۔دراصل زمانے کی اس روش کو خراب کرنے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ایسا کرنے والوں کا زمانہ بھی کبھی ساتھ نہیں دیتا ہے۔

خود پرستی کو لقب دیتے ہیں آزادی کا
ایسے اخلاق پہ ایمان نہ لانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے خود پرست ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے سامنے دوسرے کی اہمیت کو صفر گردانتے ہیں اور پھر اس خودپرستی کو وہ آزادی کا نام دے دیتے ہیں۔ان کے اچھے اخلاق پر بھی کبھی یقین نہ کرنا کہ اس میں بھی ان کا ہی مفاد پوشیدہ ہوگا۔

رنگ و روغن تمھیں یورپ کا مبارک، لیکن
قوم کا نقش نہ چہرے سے مٹانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ اگر تم یورپ کی دوش پر چل نکلی ہو تو اس کا رنگ و روغن پہننا اوڑھنا اور سب کچھ تمھیں مبارک ہو۔لیکن کبھی اپنی قوم کا نقش اپنے چہرے سے نہ ہٹانا یعنی کبھی اپنی اصلیت کو مت بھولنا۔

جو بناتے ہیں نمایش کا کھلونا تم کو
اُن کی خاطر سے یہ ذلت نہ اٹھانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ یورپی معاشرت نمود و نمائش کا دوسرا نام ہے اور وہ تمھیں بھی اپنی نمائش کا کھلونا بنائیں گے مگر تم کبھی ان کے ہاتھوں کا کھلونا مت بننا اور نہ ہی یہ ذلت اٹھانا۔

رُخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردۂ شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ اگر تم یورپ کی تقلید کرتے ہوئے اپنے پردے کو ختم کر کے بے پردگی کی جانب چل نکلی ہو تو یہاں تک ہی کافی ہے۔مگر اپنے اصل پردے یعنی پردۂ شرم و حیا کو کبھی اپنے دل سے مت نکالنا۔

تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اس کا نہیں قاروں کا خزانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ تم عورت ہو اور عورت کا خاصا اس کی حیا ہے۔ اگر قدرت کی جانب سے تمھیں شرم و حیا ودیت کی گئی ہے تو اب اس حیا کو گنوانا ہر گز نہیں کیونکہ اگر اس کو پانے کے لئے تم قارون کا خزانہ بھی لوٹا دو تو بھی اس کی قیمت نہ چکا پاؤ گی۔

دل تمھارا ہے وفاؤں کی پرستش کے لیے
اس محبت کے شوالے کو نہ ڈھانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ تمھارے دل کی سرشت میں وفا ہے۔اس لیے محبت کے شوالے یعنی گڑھ کو کبھی مارنا یا ختم نہ کرنا۔

پوجنے کے لیے مندر جو ہے آزادی کا
اس کو تفریح کا مرکز نہ بنانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ تم اگر یورپ کی تہذیب کے دل دادہ ہوگئے ہو اور تمھیں آزادی میسر ہے تو اس آزادی کا ایک مناسب حد تک استعمال ہی کافی ہے۔اس لیے اس کو کبھی بھی اپنی تفریح کا مرکز مت بنا لینا۔

نقد اخلاق کا ہم نل کی طرح ہار چکے
تم ہو دیننت یہ دولت نہ لٹانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ پہلے ہی ہم اپنی اخلاقی اقدار کو ایسے بہا چکے ہیں کہ جیسے یہ کوئی فالتو کی چیز ہو، مگر اب اخلاقیات کے خزانے کو تو لٹا دیا ہے مگر اپنے مذہب کی لازماً حفاظت کرنا اور اس بے پایاں دولت کو ہر گز مت لٹانا۔

خاک میں دفن ہیں مذہب کے پرانے پاکھنڈ
تم یہ سوتے ہوئے فتنے نہ جگانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ مذہب کی بہت سی پرانی اور غلط روایات کو اب خاک میں دفن کیا جا چکا ہے۔تو جو غلط باتیں یا چیزیں مدفون ہوچکی ہیں ان کو دفن ہی رہنے دینا۔ان فتنوں کو دوبارہ سے کبھی مت جگانا۔

اپنے بچوں کی خبر قوم کے مَردوں کو نہیں
یہ ہیں معصوم انھیں بھول نہ جانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ قوم کے مرد تو اپنے بچوں سے بھی غافل ہوچکے ہیں۔مگر بچے تو پھول کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔لہذا تم ان معصوم سے پھول بچوں کو ہرگز مت بھول جانا۔

ان کی تعلیم کا مکتب ہے تمھارا زانو
پاس مردوں کے نہیں ان کا ٹھکانا ہرگز

شاعر کہتا ہے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ایک عورت کے سپرد ہوتی ہے۔تم جیسے چاہو گی ان کی تعلیم کر پاؤ گی، مردوں کے پاس تو ان کی اس تعلیم وتربیب کا اس طرح سے وقت نہیں ہوتا ہے۔انھوں نے بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔

کاغذی پھول ولایت کے دکھا کر ان کو
دیس کے باغ سے نفرت نہ دلانا ہرگز

اس لیے جب تم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے لگو تو ان کو وطن سے محبت کا بھی درس دینا۔ان کو ولایت کے کاغذی پھولوں کی خوبصورتی سے متاثر کرنے کے چکر میں کبھی اپنے وطن سے نفرت نہ کروا بھیٹنا۔

ان کی تربیت ہر گز ایسی نہ کرنا کہ تم ان کو یورپ کی تہذیب سے اس قدر متاثر کروا دو کہ اپنی قوم اور تہذیب کو کبھی وہ دل سے اپنا ہی نہ سکیں۔ اس لیے اس کو کسی دوسری قوم کا کوئی راگ یا بات اس طرح سے مت بتانا کہ اپنی قوم کا راگ یا محبت اس کے دل میں پنپ ہی نہ سکے۔

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ بچے ہی آنے والے کل کا اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔قوم کے اس سرمائے کی پرورش تمھاری گود میں ہورہی ہوگی اس لیے اس فرض کو کبھی بھلانا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوتاہی برتنی ہے۔

گو بزرگوں میں تمھارے نہ ہو اس وقت کا رنگ
ان ضعیفوں کو نہ ہنس ہنس کے رُلانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ تم نے تو یورپ کی تہذیب کو اپنا لیا ہے اور جدید رنگ میں رنگ چکے ہو مگر تمھارے بزرگ اگرچہ اپنے اگلے رنگ میں ہی رنگے ہیں۔اس لیے تم نت نئی حرکتیں کرکے ان کو ہر گز رلانا یا ہنسانا مت۔

ہو گا ‘ پرلے’ جو گرا آنکھ سے ان کی آنسو
بچپنے سے نہ یہ طوفان اٹھانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ اگر تمھاری کسی غلط حرکت کی وجہ سے تمھارے بزرگوں کی آنکھوں سے اگر ایک بھی آنسو گرا تو یاد رکھو کہ یہ قیامت کی گھڑی ہوگی۔اس لیے تم محتاط رہنا اور اپنے بچپنے سے ہرگز یہ نوبت مت لانا۔

ہم تمھیں بھول گئے، اس کی سزا پاتے ہیں
تم ذرا اپنے تئیں بھول نہ جانا ہرگز

شاعر کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ہم سے ہی تمھاری تربیت میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو جس کی سزا ہم اب بھی پارہے ہیں۔لیکن اب تم یہ غلطی مت دہرانا اور یہ سب کچھ جو تمھاری میراث ہے اس کو مت بھولنا۔

کس کے دل میں ہے وفا، کس کی زباں میں تاثیر
نہ سنا ہے، نہ سنو گی یہ فسانا ہرگز!

شاعر کہتا ہے کہ اپنی تہذیب سے جڑنا ہی بہتر ہے۔تمھارے لیے کس کے دل میں وفا ہے اور کس کی زبان زیادہ اثر انگیز ہے یہ ایک ایسا فسانہ ہے کہ جس کو تم نہیں جانتی ہو اور نہ ہی کبھی جان پاؤ گی۔

سوالات:

سوال نمبر01:’داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز’ شاعر نے یہ کیوں کہا ہے؟

شاعر نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ یورپ کی تقلید میں اپنی تعلیم وترتیب کو مت بھولنا۔یعنی ان کے راستے پر چلنا اپنی تعلیم و تربیت میں داغ لگانے کے مترادف ہوگا۔

سوال نمبر02:یورپ کی نقل کرنے کو کیوں منع کیا گیا ہے؟

یورپ کی نقل کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یورپ کی تقلید میں ہم اپنی اخلاقیات،تہذیب اور روایات کو بھلا نہ بیٹھیں۔اپنی روایات سے دوری کی وجہ سے یورپ کی تقلید سے منع کیا گیا ہے۔

سوال نمبر03:دل سے پردہ شرم اٹھانے کا کیا مطلب ہے؟

دل سے پردہ شرم اٹھانے سے مراد ہے کہ اپنے دل سے بھی اپنی شرم و حیا کو نکال پھینکنا۔یعنی شرم سے بالکل بے بہرہ ہوجانا۔

سوال نمبر04:اس نظم میں شاعر نےکیا بات کہنا چاہی ہے؟

اس نظم میں شاعر نے اپنی قوم اور نسل سے مخاطب ہوکر ان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ترقی کے نام پر یورپ کی تہذیب و ثقافت کو اپنا کر اس کو قائم نہیں رکھ سکتے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کو اپنانا ہوگا۔ جب ہی آنے والی نسلوں کے اخلاقی اقدار کو ہم بلند کر سکیں گے۔

زبان وقواعد:

جس طرح اسم کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔اسم معرفہ اسم نکرہ اسی طرح ضمیر جو اسم کی جگہ بولا جاتا ہے جیسے وہ،تم،میں،اس کا،انھوں نے وغیرہ کی کئی قسمیں قواعد کی زبان میں بیان کی جاتی ہیں۔ اس نظم میں ضمیر کی قسمیں پہچانیے جس سے پتا چل سکے کہ ضمیر متکلم،حاضر اور غائب کہاں کہاں استعمال ہوئے ہیں۔

اس نظم میں تم،خود،جو،تمھیں،تمھارا،ہم،یہ وغیرہ جیسے ضمائر استعمال ہوئے ہیں۔ جس میں ‘خود’ اور ‘جو’ ضمیر متکلم غائب جبکہ باقی ضمائر متکلم حاضر ہیں۔

روش خام،پردہ شرم، نغمہ قوم، غیرت قومی جیسے اضافی مرکبات کی وضاحت کیجیے۔

روش خام سے مراد ہے غلط راستہ یا غلط راستے کا انتخاب، پردہ شرم سے مراد شرم کا پردہ یا لحاظ کے ہیں۔ نغمہ قوم کسی قوم کا گیت نغمہ یا اس قوم کا منشور ہیں۔ غیرت قومی سے مراد کسی قوم کا شرم،وقار اور اس کی غیرت ہے۔

نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

پرستش رانیہ پرستش کی حد تک اس کو چاہتی ہے۔
شوالے ہمیں کبھی محبت کے شوالے کو نہیں گرانا چاہیے۔
پاکھنڈ آج کے دور میں کچھ لوگوں نے رسم ورواج کو پاکھنڈ بنا لیا ہے۔
تاثیر قاری صاحب کی آواز بہت پر تاثیر تھی۔
مکتب مکتب سے بچوں کے پڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
زانو وہ زانوں کے بل اس کے سامنے جھک گیا۔