افسانہ عقل بڑی یا بھینس کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

کتاب”دھنک” برائے بارہویں جماعت۔

  • سبق نمبر01:افسانہ (لوک کہانی)
  • سبق کا نام:عقل بڑی یا بھینس

افسانہ عقل بڑی یا بھینس کا خلاصہ:

‘عقل بڑی یا بھینس’ ایک لوک کہانی ہے۔ایک گھنے جنگل کے کنارے نہایت صاف و شفاف تالاب ہوا کرتا تھا۔جہاں جنگل کے تمام چرند پرند پانی پینے آتے تھے۔ایک بھینس بھی وہاں آنے لگی جس کی وجہ سے تالاب کا پانی گندلا ہو جایا کرتا تھا۔گندے پانی کی وجہ سے پرندے اس میں سے باآسانی شکار نہیں کرسکتے تھے۔وہاں موجود ایک بگلے اور سارس نے نہایت عاجزی سے اسے کہا کہ اس کی وجہ سے پانی گدلا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ باآسانی سے شکار نہیں کر پاتے۔یہ سن کر بھینس ان پر آگ بگولا ہوگئی۔

کہنے لگی کہ گستاخ یہ کیا کم ہے کہ میں تم جیسے لوگوں کو تالاب سے مچھلیاں پکڑ لینے دیتی ہوں۔بگلا بھینس کا غصے بھرا جواب سن کر خاموش نہ رہ سکا اور اس نے بھینس کو کہا کہ ‘اس تالاب پر تو جنگل کے تمام چرند و پرند کا یکساں حق ہے۔البتہ آپ خدا جانے کہاں سے آ ٹپکی ہیں’۔ بھینس خود کو تالاب کی مہارانی سمجھنے لگی اوربہت غرور سے کہتی کہ میں جیسے چاہوں گی نہاؤں گی۔

بگلے اور بھینس کے درمیان بہت تکرار ہوئی۔ بگلے نے بھینس کو سبق سکھا نے کا سوچا۔سارس نے اسے منع کیا کہ بھینس زیادہ طاقتور ہے تو بگلا کہنے لگا کہ طاقت سب کچھ نہیں ہوتی عقل سے طاقت ور دشمن کو زیر کرنا بھی ممکن ہے۔

ایک روز تالاب کنارے ایک بارات آ کر رکی۔جس سے بگلے کو بھینس سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔بگلے نے تالاب کنارے آئی بارات کے دولہے کا ہار اس وقت چرا لیا جب دولہے نے نہانے کے لیے اپنے کپڑے تالاب کنارے اتار کر رکھے۔ بگلا وہ ہار چرا کر اڑا اور اسے لے جاکر بھینس کے سینگ میں ڈال دیا۔باراتیوں نے جب ہار کی تلاش شروع کی اور اسے بھینس کے سینگ میں دیکھا تو سب بھینس کو مارنے لگے۔

یوں بگلے نے بھینس کو سبق سکھا دیا۔ یوں بگلے نے بھینس سے اس کی بد تمیزی کا بدلہ بھی لے لیا۔ جس کے بعد بگلے نے بھینس کو احساس دلایا کہ طاقت اور عقل میں کتنا فرق ہے اور طاقت پر گھمنڈ کرنا بہت غلط ہے۔ بھینس نے اپنے رویے کی معافی مانگی اور یوں بھینس اور بگلے دونوں میں دوستی ہوگئی جو آج تک چلی آرہی ہے۔

سوالات:

سوال نمبر01:بھینس نے سارس اور بگلے کو حقیر کیوں سمجھا؟

بھینس خود کو تالاب کی ملکہ سمجھنے لگی تھی دوسری جانب سارس اور بگلے نے بھینس کی منت سماجت بہت عاجزی و انکساری کے ساتھ کی۔یہی نہیں جب بھینس نے ان کی بات نہ مانی تو انھوں نے بھینس کی خوشامد کے ذریعے اسے زیر کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بھینس نے ان دونوں کو حقیر سمجھا۔

سوال نمبر02:بھینس نے سارس کی عاجزی اور انکساری کا جواب کس انداز میں دیا؟

بھینس نے سارس کی عاجزی و انکساری کا جواب غصے سے آگ بگولا ہو کر دیا۔کہنے لگی کہ گستاخ یہ کیا کم ہے کہ میں تم جیسے لوگوں کو تالاب سے مچھلیاں پکڑ لینے دیتی ہوں۔

سوال نمبر03:بگلا خاموش کیوں نہ رہا اور اس نے بھینس سے کیا کہا؟

بگلا بھینس کا غصے بھرا جواب سن کر خاموش نہ رہ سکا اور اس نے بھینس کو کہا کہ ‘اس تالاب پر تو جنگل کے تمام چرند و پرند کا یکساں حق ہے۔البتہ آپ خدا جانے کہاں سے آ ٹپکی ہیں’

سوال نمبر04:بگلے نے بھینس سے کس طرح بدلہ لیا؟

بگلے نے تالاب کنارے آئی بارات کے دولہے کا ہار اس وقت چرا لیا جب دولہے نے نہانے کے لیے اپنے کپڑے تالاب کنارے اتار کر رکھے۔ بگلا وہ ہار چرا کر اڑا اور اسے لے جاکر بھینس کے سینگ میں ڈال دیا۔باراتیوں نے جب ہار کی تلاش شروع کی اور اسے بھینس کے سینگ میں دیکھا تو سب بھینس کو مارنے لگے۔یوں بگلے نے بھینس کو سبق سکھا دیا اور اس سے اس کی بد تمیزی کا بدلہ بھی لے لیا۔

سوال نمبر05:اس کہانی کا مرکزی خیال کیا ہے؟

کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہر کسی کو خود کو بڑا یا عقل کل نہیں اور دوسروں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔چھوٹے چرند پرند بھی حقیر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں بھی کئی خوبیاں رکھی ہیں۔اس میں جسامت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔مجموعی طور پر عقل بظاہر نظر نہ آنے والی شے ہے مگر یہ بھینس سے کئی گنا بڑی ہے۔ عقل کے ذریعے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی زیر کیا جاسکتا ہے۔