روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے تشریح

0

اشعار کی تشریح:

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کوپردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ ،جفا دیکھ
بےتاب نہ ہو،معرکۂ بیم و رجا دیکھ

تشریح:

یہ اشعار علامہ اقبال کی نظم”روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے” سے لیے گئے ہیں۔اس نظم میں شاعر نے آدم کی زمین پر آمد اور زمین کو اس کا پر جوش استقبال کرتے دکھایا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اے آدم اپنی آنکھوں کو کھول کر اپنے اردگرد کائنات خدا کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا کے مناظر کو دیکھو۔زمین ،آسمان اور اردگرد کے دیگر تمام مناظر میں قدرت کے کئی راز پوشیدہ ہیں۔انسان کو ان رازوں اور کائنات کے انہی اسرار کی کھوج کے لئے زمین پر بھجیا ہے۔اب انسان کو کسی فکر یا اندیشے میں گھرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ امید کا دامن تھام کر خوف و اندیشوں سے معرکہ آرا ہونا ہے۔

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل،یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا،یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

تشریح:

اس بند میں شاعر نے زمین کی صدا انسان تک پہنچائی ہے کہ اس زمین پر موجود تمام چیزوں کو انسان کے قابو میں دے دیا گیا ہے۔زمین پر موجود بادل، ہوائیں، پہاڑ،دریا،سمندر غرض سب کچھ انسان کے قبضہ قدرت میں ہے اور اسے ہی اس سب کو تسخیر کرنا ہے۔ان سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ کل تک تو انسان کی خدمت کےلیے آسمانوں پر فرشتے معمور تھے مگر اب انسان کو اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنا ہےاور زمین پر موجودہر چیز کو اپنے تابع کرنا ہے۔

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کو اپنی طاقت اور اس طاقت کو بہتر طور پر استعمال کرنے کا مصرف پہچاننا ہے۔جب وہ اپنی طاقت کو پہچان جا ئے گا تو یہ زمانہ اس کی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھنے لگ جائے گا۔کائنات اس کے اشاروں پر چلنے لگ جائے گی ۔آسمان کے ستارے بھی اسے سلام پیش کریں گے۔انسان کی عقل بے پناہ ہے اس کو بس اس کو صیح استعمال کرنا ہے۔جس کے بعد اس کے دعائیں بھی پر اثر ہو جائیں گی۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ

تشریح:

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سورج جیسی روشنی عطا کی یہ روشنی اس کی عقل و معرفت کی صورت میں ہے۔وہ اپنی اس عقل سے کائنات کو روشن کر سکتا اور جلا بخش سکتا ہے۔قدرت کی طرف سے اسے جو جہان بخشا گیا ہے وہیں تک اس کی منزل نہیں بلکہ اسے اس سے آگے کے جہاں بھی تسخیر کرنے ہیں آسمانوں پر اس کے لئے فردوس اس کے منتظر ہیں۔جب وہ اس کے لئے مسلسل کوشش اور عمل کو جاری رکھے گا تو اس کے کئی صلے پائے گا۔

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ انسان میں زندگی کے کئی ساز پوشیدہ ہیں جس کا ہر راز ازل سے جڑا ہے۔انسان کی سرشت میں جذبہ محبت رکھا گیا ہے۔وہ اس کائنات کے اسرار کی کھوج میں ہمیشہ سے ہے۔اللہ کی جانب سے اسے محنت مشقت اور بہادری کے جواہر عطا کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات کہلا یا ہے۔اس کی رضا کے پیش نظر اب تم اس کائنات کی جستجو میں لگے رہو۔

سوالات:

سوال نمبر 1:روح ارضی آدم کا استقبال کیوں کرتی ہے؟

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بطور اشرف المخلوقات انسان کو تخلیق کیا اور پھر اسے زمین کی تسخیر کے لیے اپنا نائب مقرر کر کے جنت سے یہاں بھیجا تاکہ وہ زمین کے پوشیدہ رازوں کو جانے یہی وجہ ہے کہ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔

سوال نمبر 2: تعمیر خودی کا کیا مطلب ہے؟

تعمیر خودی کا مطلب اپنی ذات کی تلاش اور اس کی تعمیر ہے۔ تعمیر خودی دراصل اقبال کی شاعری کا ایک خاص وصف یعنی ان کا فلسفہ خودی ہے۔یعنی اپنے آپ کو اپنی ذات کو پہچاننا اور اپنی ذات کی تعمیر کرنا۔

سوال نمبر3:اس نظم کا بنیادی خیال کیا ہے؟

اس نظم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ زمین انسان کے لئے تسخیر کی گئی اور پھر اس کو جنت سے نکال کر زمین کی جانب روانہ کیا گیا تا کہ وہ اس کو تسخیر کرے اور اس میں موجود پوشیدہ رازوں کو پا لے۔فرشتوں نے انسان کی عظمت کے سامنے سر سجدہ نگوں کیا۔یوں عظمت انسان ہی اس نظم کا بنیادی خیال ہے۔

سوال نمبر 4:اقبال کی شاعری کا امتیاز کیا ہے؟

اقبال کی شاعری کا بنیادی امتیاز ان کا فلسفہ خودی اور بے خودی ہیں۔یہ اقبال کی شاعری کا بنیادی فلسفہ ہونے کے ساتھ ان کی شاعری کی روح بھی ہیں۔اس کے علاوہ اقبال کا تصورِ عشق،زمان ومکاں،عمل اور تصوف وغیرہ ان کی شاعری کے نمایاں امتیازات ہیں۔

سوال نمبر 5:ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوں اسے کیا کہتے ہیں؟

ایسی نظم جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوں”مخمس” کہلاتی ہے۔

عملی کام:

متضاد لکھیے۔

فلک زمین
خورشید ماہ
ازل ابد
محبت نفرت
ارضی سماوی

اس نظم کے پانچ مرکب الفاظ کی نشاندہی کیجیے۔

دو یا دو سے زیادہ الفاظ کے مجموعے کو مرکب کہتے ہیں۔اس نظم میں موجود مرکب الفاظ درج ذیل ہیں۔
راکب تقدیر، خون جگر، تعمیر خودی،روح ارضی،آئینہ آیام وغیرہ۔