یہ شب یہ خیال و خواب تیرے تشریح

0
  • باب نمبر11:حصہ نظم
  • سبق کا نام: غزل: یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
  • شاعر کا نام:ناصر کا ظمی

اشعار کی تشریح:

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے

تشریح:

یہ شعر ناصر کاظمی کی غزل کا مطلع ہے۔اس شعر میں شاعر نے اپنی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ رات میں اکثر یادیں اور خواب و خیال انسان کو ڈستے ہیں ایسے ہی کچھ خیال اور یادیں شاعر کو بھی ستاتی ہیں۔ناصر کاظمی کی یہ نظم چونکہ ہجرت کا پس منظر لیے ہوئے ہے اس لیے یہ خواب ان کی پرانی رتوں کے بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔ان خیالات کا تاثر بھی اتنا خوش گوار تھا کہ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے منھ اندھیرے میں پھول کھلے ہوں۔

شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی ہیں تمام رنگ میرے

تشریح:

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک شعلہ جو کئی رنگوں کا امتزاج لیے ہوئے ہوتا ہے۔اس شعلے کا ایک رنگ تمہارا ہو سکتا ہے لیکن اس میں موجود باقی تمام رنگ میرے ہیں۔ شاعر کے پاس یہ رنگ اس کی یادوں کی صورت میں یعنی اس کے پاس اپنی بھولی یادوں کے اتنے انبار ہیں کہ وہ اک شعلے کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس شعلے میں ہر رنگ شاعر کی کسی رنگ برنگی یاد کی جھلک ہے۔

آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے اپنی ماضی کی یادوں کو ایک تلخ رنگ سے یاد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کی یادیں بھلائے نہیں بھولتی۔مییں بھی ماضی کے بہت سے خوش گوار اور ناخوشگوار دنوں کی یادوں کو اپنی آنکھوں میں چھپائے پھرتا ہوں۔اور یہ یادیں اب ایک بجھے ہوئے بے رنگ سویرے (صبح) کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

دیتے ہیں سراغ فصل گل کا
شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے امید کے دیپ جلاتے ہوئے آنے والے خوش گوار دنوں کی جھلک دکھائی ہے۔ہر غم کے ساتھ خوشی اور ہر مشکل کے ساتھ آسانی پوشیدہ ہوتی ہے ایسے ہی برے دنوں کے ساتھ اچھے دن بھی پیوستہ ہوتے ہیں۔شاعر کہہ رہا ہے کہ موسم بہار کی آمد بھی اسی پیغام کا اعلان ہوتی ہے کہ اب خزاں کے دن مزید باقی نہیں رہیں گے۔خزاں کے آنے سے جو باغ میں ویرانی چھائی تھی اور پودوں کی شاخوں پر جو گوشے موجود ہیں وہ سب یہ پیغام دے رہے ہیں کہ بہت جلد بہار کی صورت میں وہ باغ کو ہرا بھرا کر دیں گے۔

منزل نہ ملی تو قافلوں نے
رستے میں جما لیے ہیں ڈیرے

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے تقسیم کے بعد کی بے سروسامانی کے حالات کو بیان کیا ہے کہ جب ہجرت کی صورت میں لاکھوں لوگ بہت سی امیدوں کا دامن تھامے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئی دنیا اور زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے آئے لیکن لوگ جس منزل کی امید لے کر قافلوں کی صورت میں آئے تھے جب مناسب انتظامات اور موافق حالات نہ پائے تو بے انہوں نے بے منزل قافلوں کی طرح رستوں میں ہی ڈیرے جما لیے۔اور بے منزل زندگی کا آغاز کرنے لگے۔

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

تشریح:-

اس شعر میں شاعر نے ہجرت کے تجربے میں اٹھائی جانے والی تکالیف کو ہی بیان کیا ہے اور کہتے ہیں کہ لوگ منزل کی امید میں اپنے گھروں اور بستیوں کو چھوڑ کر منھ اندھیرے نکلے تھے۔انھیں امید تھی کہ وہ اپنے گھر اور بستیاں چھوڑ کر نئے گھروں اور بستیوں میں بسنے چلے جا رہے ہیں۔ مگر خلاف توقع شام کو انھیں جو منزل نصیب ہوئی وہ جنگل تھی۔یعنی بھرے پرے گھر چھوڑ کر جنگل میں بسیرا نصیب ہوا۔

روداد سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے

تشریح:

یہ شعر غزل کا مقطع ہے جس میں شاعر نے اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے ہجرت کی تمام تکالیف اور یادوں کو تکلیف دہ قرار دیا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ میرے سفر کی روداد کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ اس سفر کی یادیں اتنی تکلیف دہ ہیں کہ اگر ان جو دھرایا گیا تو پھر میرے آنسوؤں کا تھمنا ناممکن ہوجائے گا۔

سوالات:

سوال نمبر 1:مطلعے میں صبح سویرے کھلنے والے کن پھولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟

مطلعے کے مطابق صبح سویرے کھلنے والے پھولوں سے مراد خوش گواریت ہے۔جس طرح صبح سویرے کھلنے والے پھول خوشگوار تاثر بکھیرتے ہیں اسی طرح رات میں آنے والے خواب و خیال اور یادیں بھی صبح کھلنے والے پھولوں جیسی خوشگواریت سمیٹے ہوئے تھیں۔ اور یہاں صبح سویرے کھلنے والے پھول وہ خوشگوار یادیں ہیں۔

سوال نمبر 2:یادوں کے بجھے ہوئے سویروں سے کیا مراد ہے؟

یادوں کے بجھے ہوئے سویروں سے مراد وہ یادیں ہیں جو ہجرت کے تجربے کے طور پر بہت سے لوگ اپنا گھر اور سب کچھ چھوڑتے ہوئے ساتھ سمیٹ کر لائے تھے۔مگر یہ یادیں اتنی افسردگی سمیٹیں ہوئے ہیں کہ شاعر نے انہیں یادوں کے بجھے ہو ئے سویرے کہا ہے۔

سوال نمبر 3:راستے میں ڈیرے جما لینے سے کیا مطلب ہے؟

راستے میں ڈیرے جما لینے کا مطلب ہے کہ تقسیم کی صورت میں جب بہت سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک نئی جگہ بسنے آئے تو یہاں پر توقعات کے بر عکس حالات پا کر لوگ بے سروسامانی کی حالت میں رہنے لگے۔اسے شاعر نے راستے میں ڈیرے جما لینے سے تعبیر کیا ہے۔

عملی کام:

سوال: ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہجرت کے تجربے کے بارے میں ایک مختصر نوٹ لکھیے۔

ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں دو الگ وطن،انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے۔جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے لوگ ہجرت کرنے لگے۔بہت سے مسلمان ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت کرکے آنے لگے جبکہ دوسری جانب پاکستا ن سے بھی لوگوں کی اکثریت اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان کی جانب ہجرت کر کے گئے۔اس ہجرت کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی ،اپنے قیمتی ساز و سامان،جائداد ، گھر بار اور کاروبار سے ہاتھ دھوئے۔

یہ ہجرت اس وقت کے لوگوں خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان دونوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنی۔جس نے لوگوں کو ایک گہرے کرب سے دوچار کیا۔ہجرت کا یہ کرب بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے ہاں کرب کا ایک گہرا تجربہ بن کر ان کی تخلیقات کی صورت میں سامنے آیا۔بہت سے لوگوں کے ہاں یہ تجربہ ایک نہ ختم ہونے والے درد کی صورت اختیار کر گیا۔

اس تجربے کی ایک مثال شاعر ناصر کاظمی کے ہاں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ہجرت کے تجربے نے ناصر کو اتنا متاثر کیا کہ وہ ان کی جان کا روگ بن گیا۔ بربادی اور تباہی کے مناظر، قافلوں کا لوٹ لیا جانا، قتل و غارت گری اور اس کے ساتھ اپنوں سے بچھڑنے کے غم نے ناصر کو بہت بڑا شاعر بنا دیا۔ ہجرت اور اسکے نتیجے میں پیش آنے والے ہولناک فسادات ظلمتیں جسطرح ناصر کی شاعری میں نظر آتی ہیں انکی مثال نہیں ملتی۔