زندگی سے ڈرتے ہو؟ کی تشریح

0
  • باب نمبر 11: حصہ نظم
  • صنف ادب:نظم
  • نظم کا نام:زندگی سے ڈرتے ہو؟
  • شاعر کا نام:ن۔م راشد
زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں

تشریح:

یہ بند ن۔م راشد کی نظم زندگی سے ڈرتے ہو؟ سے لیا گیا ہے اس نظم کے ذریعے شاعر نے زندگی کو انسان سے ہم کلام /مخاطب دکھا یا ہے۔ اس بند میں شاعر سوال کے انداز میں آدمی سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ کیا تم زندگی سے ڈرتے ہو۔اگر زندگی سے ڈر رہے ہو تو زندگی کا کیسا ڈر کیونکہ زندگی تو تم میں بھی رواں دواں ہے اور زندگی ہی میں بھی ہوں۔ لیکن کیا تم آدمی سے ڈرتے ہو تو آدمی سے بھی کیسا ڈر تم بھی آدمی ہو اور میں بھی آدمی ہوں۔

آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
”ان کہی” سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

تشریح:

اس بند میں شاعر نے آدمی کون ہے پر روشنی ڈالی ہے اور کہتا ہے کہ آدمی تو اللہ کی ایسی تخلیق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زبان و بیان کی قدرت سے نوازا ہے۔ تم ایک دوسرے سے مل کر اپنے غم،خوشی،دکھ، درد ہر طرح کے جذبات کا اظہار کر سکتے ہو۔یہ جو زندگی کے رنگ ہیں یہ سب تو اس آدمی کے سنگ سے ہی ہیں پھر اس زندگی اور آدمی سے کیسا ڈر ہے۔ شاعر انسان کے دل میں چھپے اصل خوف کو آشکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارا یہ ڈر آدمی یا زندگی سے نہیں ہے بلکہ یہ ڈر تو ایک ان کہی بات کا ہے۔ وہ ان کہی گھڑی یقیناََ موت ہے اور تمہارا اصل ڈر بھی موت سے ہی ہے۔تم گھڑی سے کیوں ڈر رہے ہو۔تمھیں اس گھڑی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ موت کا ایک دن طے ہے اوراس خوف میں تم اپنی باقی زندگی کیوں خراب کرتے ہو۔ابھی تمھیں موت سے خوف زدہ ہوکر اپنی زندگی کو مایوسی کا شکار ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے ”بے ریا” خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو ؟
روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو ؟

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ تم ڈرو مت کیونکہ پہلے بھی نمود و نمائش سے پاک زندگی کے ادوار گزرے ہیں جہاں لوگوں کو پریشانیوں کا بھی سامنا تھا۔ان لوگون کا آج کے لوگو ں سے مقابلہ نہیں ہے۔ مگر اب تم کل کے ڈر سے خوفزدہ کیوں ہو تمھارے لبوں نے آنے والے دنوں سے خوفزدہ ہوکر ہلنا کیوں بند کر دیا ہے۔اگر تمھارے لب ہلنے سے قاصر ہیں تو تمھارے ہاتھ تو جاگ رہے ہیں نا تمھارے ان ہاتھوں کی حرکت تمھاری منزل کا نشان سامنے آ سکتا ہے۔تمھارے یہی ہاتھ صبح کی آواز بن کر چاروں سو پھیل سکتے ہیں۔روشنی کی جانب بڑھنے کا تمھارے لیے یہی ذریعہ ہےاور یہی تمھاری زندگی کے لئے کامیابی کی دلیل ہیں۔اس لیے تمھیں اس روشنی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے !
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں ،ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں۔
تم ابھی سے ڈرتے ہو

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس شہر کی فصیلوں پر جو بھی سایہ تھا وہ ہٹ چکا ہے۔اس سایے کے ہٹتے ہی ایک سیاہ رات کا اختتام ہوا ہے اور ہر جانب خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔غلامی کا اندھیرا چھٹتے ہی خوشیوں کے جس دور کا آغاز ہوا ہے وہاں سے ایک نئی آواز کی گونج سنائی دے رہی ہے۔یہاں کے لوگوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔لیکن اس سب کے با وجود تم اب بھی ڈر رہے ہو۔تمھیں اب ڈرنے کی ضرورت باقی نہیں ہے کیونکہ اب ہم اور تم باقی ہیں۔

سوالات:

سوال نمبر 1:اس نظم میں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟

اس نظم میں شاعر نے انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے اسے زندگی کا مرکزی نقطہ قرار دیا ہے۔اسے احساس دلایا ہے کہ زندگی کو اس گھڑی کے خوف سے ڈر کر ضائع نہ کرے جس کے آنے کا اسے خود بھی معلوم نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور طور پر سمجھے۔

سوال نمبر 2:”جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو” شاعر نے یہ کیوں کہا ہے؟

اس مصرعے میں شاعر نے جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی کو موت کہا ہے یعنی موت آنے سے پہلے اس کے خوف میں مبتلا ہو کر زندگی کو ضائع کرنا دانشمندی نہیں ہے کیوں کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اسے جب آنا ہے وہ آئے گی اس چکر میں باقی زندگی کو برباد نہ کیا جائے۔

سوال نمبر 3:”آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ” کا مطلب کیا ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ انسان ہی وجہ تخلیق کائنات ہے اور اس زندگی کی اصل رونقیں بھی یقیناً اسی کے دم سے ہیں۔

عملی کام:

اس نظم سے آپ تین تراکیب منتخب کیجئے۔

اژدہام انساں، راہ شوق، شب زباں بندی، راہ خداوندی ، رشتہ ہائے آہن وغیرہ۔

اس نظم کے چند ہم قافیہ الفاظ کو جمع کیجئے۔

زباں،بیاں ان کہی، آگہی آرزو مندی، خداوندی پاک،خاک وغیرہ۔

اس نظم سے چند ایسے مصرعوں کو یکجا کیجئے جن میں ردیفوں کا استعمال ہوا ہو۔

دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
چاک ہو گیا آخر،خاک ہوگیاآخر
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو