سفر نامہ جاپان کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سفر نامہ جاپان کا خلاصہ:

یہ باب “قرۃ العین حیدر” کے سفر نامے “ستمبر کا چاند” سے لیا گیا ہے۔جس میں مصنفہ نے جاپان اور وہاں کے رہائشیوں کے متعلق بتایا ہے۔ جاپانیوں کے مزاج کی خاص بات بیان کی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات ہو جانے پر بھی اپنے چہرے پر غصے کے آثار نہیں لاتے ہیں۔ان کی ایمانداری کے متعلق لکھتی ہیں کہ وہاں کوئی چوری نہیں کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہاں لوگ ایسے مکانوں میں رہتے ہیں جن کی دیواریں لکڑی کی جبکہ دروازے نہیں ہوتے ہیں۔

جاپانیوں کے گھرلکڑی کے ہوتے ہیں جن کی پتلی پتلی کاغذی دیواریں ہوتی ہیں۔ان کے دروازے سرے سے نہیں ہوتے ہیں وہی دیواریں ادھر ادھر کھسکا کر گھر بند کر لیا جاتا ہے۔ان کے گھر نفیس چیزوں سے سجے ہوتے ہیں۔یہاں فرنیچر کا رواج نہیں ہے بلکہ لوگ زمین پر قالین ڈال کر بیٹھتے ہیں۔

انھوں نے ٹوکیو کے ریلوے اسٹیشن اور وہاں کی ٹرینوں کی خوبصورتی کے مناظر کو بھی بیان کیا ہے۔ یہاں کی ساری ٹرینیں ائیر کنڈیشنڈ اور کارپٹڈ ہیں۔یہاں کا دیہی اور صنعتی علاقہ انگلستان کے صنعتی و دیہی علاقے سے بہت مشا بہہ ہے۔ یہاں کے بادلوں کے مناظر بہت دلفریب ہیں۔

جاپان کی جو خاصیت مصنفہ کے لئے دلچسپی کا باعث بنی وہ یہاں کی چائے تھی جس کے متعلق انھوں نے لوگوں سے بھی بہت سنا۔انھیں یہ چائے پینے جانے کا اتفاق ہوا جس کے تجربے کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے کہ اس چائے کی تعریف حد درجہ تھی مگر ذائقہ نادارد یوں معلوم ہوتا تھا کہ چائے نہیں گویا کوئی جوشاندہ ہو۔ اس سے قبل پیش کیا جانے والا لڈو بھی خاصا بے ذائقہ تھا۔ جبکہ اس چائے کو حد درجہ تعظیم کے ساتھ جھک کر پیش کیا جاتا تھا گویا کوئی روحانی عبادت ہو۔لہذا بہادری سے کام لیتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کیں انتہائی نفاست سے پیالہ ہاتھ میں اٹھا کر وہ کڑوا ملغوبہ جسے جاپانی ستم ظریفی سے چائے کہتے ہیں۔میں نے ہو الشافی کہہ کر پی ڈالا۔ اس ملک میں جاپانیوں کی اس چائے کی اتنی زیادہ دھوم ہے کہ سب نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔مگر ہم جسے ہاتھی سمجھ کر پینے گئے تھے وہ ہاتھی کی بجائے ہاتھی کی دم نکلی۔

سوالات:

سوال نمبر 01:مصنف نے جاپانیوں کے مزاج کی کیا خاص بات بیان کی ہے؟

مصنفہ نے جاپانیوں کے مزاج کی خاص بات بیان کی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات ہو جانے پر بھی اپنے چہرے پر غصے کے آثار نہیں لاتے ہیں۔

سوال نمبر 02:مصنف نے جاپانیوں کی ایمانداری کا کیا ذکر کیا ہے؟

مصنفہ نے جاپانیوں کی ایمانداری کا ذکر اس طور سے کیا ہے کہ وہاں کوئی چوری نہیں کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہاں لوگ ایسے مکانوں میں رہتے ہیں جن کی دیواریں لکڑی کی جبکہ دروازے نہیں ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 03: مصنفہ نے جاپان کا کیا منظر پیش کیا ہے؟

مصنفہ نے چاپانیوں کے مزاج کی خاصیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ایمانداری وہاں کا رہن سہن،طرز تعمیر اور جاپان کی خوبصورتی وہاں کی ٹرینوں، سڑکوں اور کھیتوں کے مناظر پیش کیے ہیں۔ یہاں کے دیہاتوں کا منظر انگلستان کے دیہاتوں سے مشابہ ہے۔

سوال نمبر04:جاپانیوں کے گھر کیسے ہوتے ہیں؟

جاپانیوں کے گھرلکڑی کے ہوتے ہیں جن کی پتلی پتلی کاغذی دیواریں ہوتی ہیں۔ان کے دروازے سرے سے نہیں ہوتے ہیں وہی دیواریں ادھر ادھر کھسکا کر گھر بند کر لیا جاتا ہے۔ان کے گھر نفیس چیزوں سے سجے ہوتے ہیں۔یہاں فرنیچر کا رواج نہیں ہے بلکہ لوگ زمین پر قالین ڈال کر بیٹھتے ہیں۔

سوال نمبر 05:جاپانی چائے کو اہمیت کیوں دیتے ہیں؟

جاپانیوں کے لیے چائے ایک ایسی رسم ہے جس کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے اور اس کی ایک رومانی، تہذیبی اور اخلاقی اہمیت ہے۔

سوال نمبر06: چائے سے قرۃالعین حیدر کی ضیافت کس طرح کی گئی؟

چائے سے قبل انھیں ایک لڈو پیش کیا گیا جو کہ بے حد بد ذائقہ تھا۔جس کے بعد دو لڑکیاں نمودار ہوکر ان کے سامنے آکر سجدہ ریز ہوئیں اور انھیں چائے پیش کی جو کہ ایک ہرے رنگ کا جوشاندہ سا معلوم ہورہا تھا۔جو کہ ذائقے میں بہت کڑوا تھا۔

زبان و قواعد:

نیچے لکھے ہوئے جملوں میں مصنف کے لطیف طنز کی وضاحت کیجئے۔

لڈوبےحد بد ذائقہ تھا،مگر معاملہ روحانیت اور تہذیب کی اعلیٰ ترین سمبلزم کا تھا-دم مارنے کی گنجائش نہ تھی۔ ابھی کلائمکس باقی تھی۔ وہی لڑکیاں دوبارہ نمودار ہوئیں۔ ہمارے سامنے آکر سجدہ میں گریں۔ ایک چینی کے پیالے میں ایک ہرے رنگ کا گاڑھا سا جوشاندہ سامنے رکھا۔

مصنفہ نے چائے کی تعریف کی ہے جو کہ انھیں جاپان میں پیش کی گئی۔ اس چائے کی تعریف حد درجہ تھی مگر ذائقہ نادارد یوں معلوم ہوتا تھا کہ چائے نہیں گویا کوئی جوشاندہ ہو۔ اس سے قبل پیش کیا جانے والا لڈو بھی خاصا بے ذائقہ تھا۔ جبکہ اس چائے کو حد درجہ تعظیم کے ساتھ جھک کر پیش کیا جاتا تھا گویا کوئی روحانی عبادت ہو۔

لہٰذا بہادری سے کام لیتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کیں انتہائی نفاست سے پیالہ ہاتھ میں اٹھا کر وہ کڑوا ملغوبہ جسے جاپانی ستم ظریفی سے چائے کہتے ہیں۔میں نے ہو الشافی کہہ کر پی ڈالا۔

جب چائے پیش کر دی گئی تو مصنفہ نے حد درجہ ہمت اور بہادری سے کام لیتے ہوئے کوئی دوا سمجھ کر اس کو پیا۔ جیسے ہمارے یہاں مریض کو کڑوی دوائی پلائی جاتی ہے۔ مگر یہاں یہ چائے کی صورت میں تھی۔

اس کڑوے کسیلے جوشاندے کےلیے اس قدر دھوم دھام، جب سے اس ملک میں آۓ تھے مار سب جاپانیوں نے مل کر ناک میں دم کر رکھا تھا۔ چائے کی رسم ایسی اور چائے کی رسم ویسی‌۔ بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دم کا۔

چاپانیوں کی جو چائے تھی مصنفہ نے اس کا نام باقاعدہ جوشاندہ رکھ دیا ہے کہ اس ملک میں اس کی اتنی زیادہ دھوم ہے کہ سب نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔مگر ہم جسے ہاتھی سمجھ کر پینے گئے تھے وہ ہاتھی کی بجائے ہاتھی کی دم نکلی۔

عملی کام :

نیچے لکھی ہوئی عبارت اور اس کے متعلق سوالات کے جوابات لکھیے۔

ڈاکٹر اے پی چند عبدلکلام کے سامنے شاندار مستقبل تھا۔ وہ چاہتے تو بیرون ملک جا کر مالی مشکلات اور بےروزگاری کے مسئلے پر قابو پا سکتے تھے۔ لیکن وطن عزیز سے سچی محبت اور ملک و قوم کی خدمت کے جذبے نے انھیں یہ قدم نہ اٹھانے دیا۔ڈاکٹر کلام نے 1957ء میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابسطہ ہو کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور یہاں پانچ سال تک اہم سائنسی تحقيقات میں مصروف رہے۔انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے فضائی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملک کو اہم مقام تک پہنچا دیا۔انہوں نے زندگی کا سارا وقت میزائلوں کی ترقی میں وقف کر دیا اور میزائل منصوبہ کے ساتھ ایٹمی تحقیق کے شعبوں میں بھی نمایاں کارکردگی کا ثبوت دیا۔اس بڑی کامیابی نے انھیں میزائل مین بنا دیا اور ان کا شمار دنیا کے دس بڑے میزائل سائنسدانوں میں ہونے لگا۔ وہ ہمیشہ نظریہ مقصد اور حدف کے اپنے مقصدی جملہ پر عمل پیرا رہے۔

ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے سامنے کیا شاندار مستقبل تھا؟

ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بیرون ملک جاکر اپنے مستقبل کو روشن کر سکتے تھے۔

ڈاکٹر کلام نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کس طرح کیا؟

ڈاکٹر کلام نے اپنی عملی زندگی کا آغاز “ڈفینس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن” سے وابستہ ہوکر کیا۔

ڈاکٹر کلام کو میزائل مین، کیوں کہا جاتا ہے؟

انھوں نے زندگی کا سارا وقت میزائلوں کی ترقی کے سلسے میں وقف کر دیا اور میزائل منصوبے کے ساتھ ایٹمی تحقیق کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے انھیں میزائل مین کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر کلام کا مقصدی جملہ کیا ہے؟

ڈاکٹر کلام کا مقصدی جملہ نظریہ،مقصد اور حدف ہے۔