نظم یادنگر کی تشریح، سوالات و جوابات

0
  • باب نمبر 11: حصہ نظم
  • صنف ادب:نظم
  • شاعر کا نام:شفیق فاطمہ شعری
  • نظم کا نام:یادنگر کی تشریح

اشعار کی تشریح:

میں اوس بن کے برس جاؤں تیرے سبزے پر
میں گیت بن کے تیری وادیوں میں کھو جاؤں
بس ایک بار بلالے مجھے وطن میرے
کہ تیری خاک کے دامن میں چھپ کے سو جاؤں

تشریح:

یہ اشعار’شفیق فاطمہ شعری‘ کی نظم “یاد نگر” سے لیے گئے ہیں۔شاعرہ کی یہ نظم وطن سے دوری اور جلا وطنی کے احساس کو بیان کرتی ہے۔اس بند میں شاعرہ اپنے وطن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اے میرے پیارے وطن میرا دل چاہتا ہے کہ میں شبنم بن کر تیرے سبزے پر بس جاؤں یا کوئی گیت بن کر تمھاری گلیوں میں کھو جاؤں کیوں کہ میرے وطن مجھے تمھاری یاد بہت ستا رہی ہے۔مجھے کسی بھی صورت اپنے پاس بلا کے خواہ اس کے لئے مجھے تمھاری مٹی تلے چھپ کے سونا ہی کیوں نہ پڑے۔ان اشعار میں وطن سے دوری کے گہرے کرب کو بیان کیا گیا ہے۔

شگفتہ گھاس میں یہ زرد زرد ننھے پھول
نہ جانے کس لیے پکڈنڈیوں کو تکتے ہیں
انھیں خبر ہی نہیں ان کو چننے والے آج
گھروں سے دور کسی کیمپ میں سسکتے ہیں

تشریح:

اس بند میں شاعرہ کہتی ہیں کہ اے وطن تجھ سے دود جانے واکے جا چکے ہیں مگر تمھاری وادیوں کی تروتازہ گھاس اور ننھے زرد پھول نا جانے کس کے منتظر نظر آتے ہیں اور وہ بار بار سر اٹھا کر پکڈنڈیوں کے راستے کسی کو کھوجتے ہیں۔لیکن انھیں کیا معلوم کے ان سے دور ان کے باسی تو گھروں سے محروم کہیں کیمپوں میں سسک رہے ہیں۔

کئی گھرانوں کی فریاد اس میں ڈوب گئی
اب اس کنویں پہ نہ آئے گی کوئی پنہاری
کسان کھیت نہ سینچیں گے ایسے پانی سے
ہری نہ ہوگی اسے پی کے کوئی پھلواری

تشریح:

اس بند میں شاعرہ نے اجڑے دیس کی مشترکہ فریاد جو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہاں کے کنوؤں سے نہ تو پانی بھرنے کوئی پنہاری آئے گی اور نہ ہی یہاں کے کسان کبھی اپنے کھیتوں کو سیراب کر پائیں گے۔ہریالی اب یہاں کی پھلوریوں سے منھ موڑ چکی ہے۔

یہیں ندی کے کنارے اسے دبایا تھا
مگر شبانوں کو وہ بارہا نظر آئی
ہٹی جو ریت تو چمکا وہ چاند سا ماتھا
چلی ہوا تو وہ ریشم سی زلف لہرائی

تشریح:

ان اشعار میں شاعرہ پرانے زخموں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اسے یہیں ندی کنارے کہیں دفن کیا گیا تھا مگر چرواہوں کو وہ یہیں کہیں بار بار دکھائی دیتی تھی۔جب کبھی ریت اس پر سے سرک کے ہٹی تو اس کی ہوا سے ہلتی ریشمی زلف لہراتی ہوئی دکھائی دی۔

میں تیرے پانو پڑوں،ہاتھ روک کے قاتل
اسے نہ مار جو تیری طرف ہمکتا ہے
یہ تیغ کو بھی کھلونا سمجھنے والا ہے
یہ لعل پھینک کے انگارہ چوس سکتا ہے

تشریح:

ان اشعار میں اس ہجرت یا جلا وطنی کے پس منظر میں ہونے والے ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہےکہ کس طرح سے قتل و غارت گری کی اندھیر نگری مچی تھی۔یہاں کے سادہ لوح لوگ تو قاتلوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے اور ان کے ہتھیاروں کو بھی کھلونا سمجھ رہے تھے مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بظاہر تو شعلے کی طرح دمکتا لعل پھینکتے ہیں مگر درحقیقت ان کا یہ لعل خون کا پیاسا ہےاور انسان کی جان لے لیتا ہے۔

کہا کسی نے کہ وہ جلد لوٹ آئیں گے
کہا کسی نے کہ امید اب بہت کم ہے
الہی ڈوبتے دل کو ذرا سہارا دے
مرے چراغ کی لو آج کتنی مدہم ہے

تشریح:

اس بند میں شاعرہ غم زدہ دل کی تسلی کا سامان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں کسی نے تو یہ تسلی دی کہ وہ لوٹ آئیں گیں نگر کسی نے کہا کہ ان کے لوٹنے کی امید بہت کم ہے۔تو اے پاک پروردگار تو ہی اس ڈوبتے ہوئے دل کو سہارا دے کہ میرے امیدوں کے چراغ کی لو مدہم ہو رہی ہے۔

نبولی نیم کی پکی، اب آئے گا ساون
مگر یہ گیت سے آہ کیسے یاد آیا
وہ اپنی ماں سے لپٹ کر نہ رو سکے گی کبھی
نہ سر پہ ہاتھ کبھی رکھ سکے گا ماں جایا

تشریح:

درختوں کی کونپلیں دیکھ کے رتوں کے بدلنے کا احساس ہوا۔کہ اب ساون کی رت آئے گی ۔مگر ان بدلتی رتوں کے ساتھ بچھڑ ے ہوئے اپنوں کی یادیں ڈنگ بن کر ڈسنے لگیں کہ نہ تو اپنی ماں سے لپٹ کر کبھی رو پاؤں گی اور نہ ہی کوئی بھائی اپنی بہنوں کے سر ہر ہاتھ پھیر کر اسے دعادے پائے گا۔

سنا ہے نیند میں وہ چونک چونک پڑتے ہیں
کہو کے داغ تھے جن پر، وہ ہاتھ جلتے ہیں
پڑوسیوں سے یہ کہہ دو وہ مشعلیں رکھ دیں
کہ ایک گاؤں کے گھر ساتھ ساتھ جلتے ہیں

تشریح:

اس تباہ حالی پر شاعرہ کہتی ہیں کہ قتل و غارت گری کرنے والے کسی پل سکون میں نہیں رہ پاتے بلکہ وہ سوتے میں نیند سے بھی جاگ اٹھتے ہیں کیوں کہ ان کے ہاتھوں پر بے گناہوں کا قتل ہے اور ان بے گناہوں کا خون ان کے ہاتھ جلاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ ان کو جنگ بندی کا کہتے ہوئے کہتی ہیں کہ اب انھیں بھی اپنے ہتھیار رکھ دینے چاہیے کیونکہ جس طرح ایک گھر جلے تو اس کے شعلے اردگرد کے گھروں کے کئے تبائی کا سبب بن سکتے ہیں ایسے ہی ایک ملک ،شہر کی تبائی اس کے پڑوسی کے لیے بھی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

الہی شام اب اس گاؤں میں نہ آنے پائے
کہ اس کے آتے ہی دکھائیں مل کے روتی ہیں
درندے اپنے بھٹوں میں دہلنے لگتے ہیں
ہوائیں کوہ سے ٹکرا کے جان کھوتی ہیں

تشریح:

ان اشعار میں شاعرہ اجڑے ہوئے دیس کی ویرانی سے خوفزدہ ہوکر وہاں شام نہ آنے کی دعائیں کرتی ہیں کہ شام میں خالی پن اور اداسی میں ویسے بھی اضافہ ہو جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لمحے درندے بھی یہاں کی اداسی اور خالی پن سے خوفزدہ ہیں۔ ہوائیں بھی خالی پن کی وجہ سے پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس پلٹ رہی ہیں۔

دیے کے واسطے ننھے پناہ گیر نہ رو
فلک پہ دیکھ وہ قندیل ماہ روشن ہے
اسی فضا میں میرے چاند تو بھی ابھرے گا
جو تو ہے ساتھ تو غربت کی راہ روشن ہے

تشریح:

ان اشعار میں شاعرہ جلا وطن پناہ گیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ دیے کے لئے مت روئے۔بلکہ دیے سے کہیں زیادہ خوبصورت روشنی تو آسمان پر موجود ہے اور ذرا دیر میں اسی فضا میں چاند بھی ابھر آئے گا۔یوں اس اندھیرے میں ایک دوسرے کا ساتھ ہی اصل روشنی ہے۔ان اشعار میں شاعرہ تسلی آمیز اور پر امید لہجے کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

طلائی گھاس سے وادی میں تھا طلاطم سا
ہوا میں نرم شعاؤں کی سرسراہٹ تھی
نیا تھا چشمہ مہر اور نیا تھا رنگ سپہر
ہر ایک گوشہ میں لیکن اجل کی آہٹ تھی

تشریح:

وادی میں ایک نئی زندگی کی روانی کا آغاز تو ہو گیا تھا۔لیکن اس میں ایک عجب چونکا دینے والی پر اسراریت موجود تھی۔ہوا ،شعاؤں غرض ہو چیز میں ایک سرسراہٹ تھی۔یہاں کا سورج،چشمہ اور رنگ تو نئے تھے مگر وادی کے ہر گوشے میں موت کی آہٹ اب بھی سنائی دیتی تھی۔

ہوا نے دیپ بجھایا ہی تھا کہ نکلا چاند
قلم کو تیز چلاؤ کہ یہ بھی ڈوب نہ جائے
خود اپنے دل کے اجالے کا اعتبار نہیں
کہ ایک بار یہ جائے تو پھر پلٹ کے نہ آئے

تشریح:

ان اشعار میں شاعرہ کہتی ہیں کہ امید کا یہ سورج کچھ لمحوں کی دین ہے جتنی جلدی ہو سکے اس سے فا ئدہ حاصل کرو۔اس امید کا روشن ہونا ایسا ہے کہ جیسے انسان کے اپنے دل کی بے اعتباری ہوتی ہے۔

یہ چاندنی کا اجالا،یہ نیم شب کا سکوں
سفید گنبد و در دودھ میں نہائے ہوئے
ستارو! کوئی کہانی کہو کہ رات کٹے
نہ یاد آئیں مجھے روز و شب بھلائے ہوئے

تشریح:

اس بند میں شاعرہ رات کی پرسکون چاندنی، چاند اور ستاروں سب کو اپنا مخاطب بنا کر ان سے کوئی کہانی سنانے کا کہتی ہیں کیونکہ رات کی تنہائی اور اس میں یادوں کو ملاپ بہت کرب ناک کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس کیے وہ چاہتی ہیں کہ کوئی ایسی کہانی سنائی جائے کہ انھیں ماضی کے روز و شب یاد نہ آسکیں۔

سوالات:

سوال نمبر 1:نظم (یادنگر) کا مرکزی خیال کیا ہے؟

اس نظم کا مرکزی خیال قتل و غارت گری کے سبب ہونے والی تباہ کاریاں اور ان کا شکار بننے والے لوگوں کی جلا وطنی اور کرب کی کیفیت کا بیان ہے۔

سوال نمبر 2:نظم کا عنوان “یاد نگر” نظم کے لئے کتنا موزوں ہے؟

نظم کا عنوان یاد نگر نظم کے مرکزی خیال سے بھر پور مطابقت رکھتا ہے کیونکہ اس نظم ماضی کی یادوں اور وطن کا بیان موجود ہے۔

سوال نمبر 3:”الہی شام اب اس گانو میں نہ آنے پائے” اس بند میں نظم کا کردارشام سے کیوں خوفزدہ معلوم ہوتا ہے؟

نظم کا کرادر شام گاؤں میں آنے سے اس لیے خوفزدہ ہے کہ یہ شام اور گاؤں کی ڈسنے والی تنہائی اسے کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔

سوال نمبر 4:نظم کے آخری مصرعے میں نظم کا کردار”بھلائے ہوئے روز و شب” کو کیوں نہیں یاد کرنا چاہتا؟

نظم کا کردار بھلائے ہوئے روز و شب اس لیے نہیں یاد کرنا چاہتا کیوں کہ وہ یادیں بہت تکلیف دہ ہیں اور وطن کی تباہی اور اس سے جدائی کا غم کرادر کو نڈھال کیے دے رہے ہیں۔

عملی کام:

نظم کے چوتھے اور پانچویں بند کی تشریح کیجئے۔

بند نمبر:04

یہیں ندی کے کنارے اسے دبایا تھا
مگر شبانوں کو وہ بارہا نظر آئی
ہٹی جو ریت تو چمکا وہ چاند سا ماتھا
چلی ہوا تو وہ ریشم سی زلف لہرائی

تشریح:

ان اشعار میں شاعرہ پرانے زخموں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اسے یہیں ندی کنارے کہیں دفن کیا گیا تھا مگر چرواہوں کو وہ یہیں کہیں بار بار دکھائی دیتی تھی۔جب کبھی ریت اس پر سے سرک کے ہٹی تو اس کی ہوا سے ہلتی ریشمی زلف لہراتی ہوئی دکھائی دی۔

بند نمبر:05

میں تیرے پانو پڑوں،ہاتھ روک کے قاتل
اسے نہ مار جو تیری طرف ہمکتا ہے
یہ تیغ کو بھی کھلونا سمجھنے والا ہے
یہ لعل پھینک کے انگارہ چوس سکتا ہے

تشریح:

ان اشعار میں اس ہجرت یا جلا وطنی کے پس منظر میں ہونے والے ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہےکہ کس طرح سے قتل و غارت گری کی اندھیر نگری مچی تھی۔یہاں کے سادہ لوح لوگ تو قاتلوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے اور ان کے ہتھیاروں کو بھی کھلونا سمجھ رہے تھے مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بظاہر تو شعلے کی طرح دمکتا لعل پھینکتے ہیں مگر درحقیقت ان کا یہ لعل خون کا پیاسا ہےاور انسان کی جان لے لیتا ہے۔