اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی تشریح

0
  • باب نمبر 11:حصہ نظم
  • سبق کا نظم:غزل: اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
  • شاعر کا نام:آرزو لکھنوی

آرزو لکھنوی کی غزل کی تشریح:

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی

تشریح:

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب کسی محفل کا آغاز ہوتا ہے تو شب کے آغاز میں اس محفل کی رونقیں اور رعنائیاں پورے عروج پر ہوتی ہیں بالکل اسی طرح کہ جیسے جب کوئی شمع روشن کی جاتی ہے تو اس کے آغاز میں پروانے اس کے گرد گردش میں ہوتے ہیں۔ لیکن رات ڈھلنے کے ساتھ شمع بھی پکھلتی جاتی ہے اور پروانے بھی اس کے گرد چکر کاٹ کاٹ کر جان دے دیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی رات کے آغاز میں جو محفل اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے رات کے اختتام میں اس کی رونق ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے شمع کے اختتام پر اس کا حسن ختم ہو جاتا ہے تو اس کے چاہنے والے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے پانی، ڈوب چلا مے خانہ بھی

تشریح:

شاعر نے اس شعر میں ایک شراب پینے والے کی کیفیات کو بیان کیا ہے کہ شراب پینے والے پر موسم کا بہت اثر ہوتا ہے۔موسم کی بے کیفی دیکھ کر ایک پینے والے کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔اسے بہار کا موسم لطف دیتا ہے۔جب ایک مے پینے والے نے بد مزا موسم دیکھ کر اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالا پٹک دیا تو قدرت کو اس کی بے کیفی یا جھنجھلاہٹ پر ایسا رحم آیا کہ بادل اتنے ٹوٹ کر برسے کہ مہ خانہ بھی ڈوب چلا۔

ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسب مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے رقص میں ہے پروانہ بھی

تشریح:

شاعرنے اس شعر میں دل لگانے اور محبت کی کیفیت کو رقص سے تعبیر کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق اور محبوب کی کیفیت عشق ایک پروانے اور شمع جیسی ہے۔جیسے ایک شمع لو جلائے اپنے محبوب یعنی پروانے کو جلانے کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی اس کا دیوانہ پروانہ بھی اس کے گرد رقص کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یہی کیفیت ایک عاشق اور محبوب کی بھی ہوتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں ہر دم تیار اور محو رقص ہوتے ہیں۔

دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں بستی کیا ویرانہ ہے
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی

تشریح:

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک عاشق صادق کے لئے اس کے محبوب سے بڑھ کے کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے جنون کے آگے بستی ہو یا ویرانہ دونوں ایک سی اہمیت رکھتے ہیں۔اگر وہ مجنوں جیسا کوئی دیوانہ ہو تو وہ کسی بگولے کو دیکھ لے تو اسے دیکھ کر بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ اس کی لیلی کا کارواں جا رہا ہے۔

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے عاشق اور محبوب کے درمیان موجود محبت کی بنیاد کو دکھایا ہے اور ان کی محبت کو ایک شمع اور پروانے کی محبت سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسے ایک شمع جب روشن ہوتی ہے تو اس کی روشنی اس کے محبوب یعنی پروانے کو اس کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔بالکل ایسے ہی ایک حسین محبوب کا حسن بھی ایک عاشق کو دعوت نظارہ پیش کرتے ہوئے اپنی جانب مائل کرتا ہے اور عاشق محبوب کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 1: دبستان لکھنو کے پانچ شعراء کے نام لکھیے۔

خواجہ حیدر علی آتش، شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی، شیخ امام بخش ناسخ،میر انیس اور مرزا دبیر۔

سوال نمبر 2:آرزو لکھنوی کی غزل کے امتیازات کیا ہیں؟

آرزو لکھنوی نے غزل کے رنگ کو نکھارتے ہوئے اسے سہل پسندی کی جانب مائل کیا۔ غزل کو نئی، سادہ اور آسان زبان دی۔ انھوں نے اپنے ہم عصر شعراء کے مقابلے میں اپنی غزل میں کم فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال کیا۔

سوال نمبر 3: صنعت تضاد کسے کہتے ہیں؟ اس غزل کے کن مصرعوں میں اس صنعت کو برتا گیاہے؟

صنعت تضاد سے مراد وہ صنعت ہوتی ہے کہ کلام میں دو ایسے کلمے لائے جائیں جو معنو ی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوں مثلاً : رات اور دن وغیرہ۔ شاعرانہ کلام میں ان الفاظ کا استعمال اس طور پر کیا جائے کہ کلام کے حسن میں کمی کی بجائے اضافی ہو۔
اس غزل کے پہلے ،چوتھے اور پانچویں مصرعے میں صنعت تضاد کو برتا گیا ہے۔

عملی کام:

سوال: آرزو لکھنوی کی اس غزل سے دو ایسے اشعار کا انتخاب کیجیے جن میں عربی اور فارسی الفاظ سب سے کم استعمال کیے گئے ہوں۔

اس غزل کے دوسرے اور تیسرے شعر میں عربی اور فارسی کے سب سے کم الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔