نظم طباطبائی کی نظم گور غریباں کی تشریح

0
  • باب۱۱:حصہ نظم
  • صنف ادب:نظم
  • نظم کا نام:گور غریباں
  • شاعر کا نام:علی حیدر نظم طباطبائی
وداعِ روزِ روشن ہے گجر شامِ غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم گھر کی طرف کس شوق سے اُٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے

تشریح:

یہ شعری بند علی حیدر نظم طباطبائی کی نظم “گور غریباں” سے لیا گیا ہے۔اس بند میں شاعر نے شام کے منظر کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دن کے بیتنے کے بعد جیسے ہی شام کی ڈھلی تو گھنٹی کی آواز سن کر دن بھر کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور محنت کش اپنے کھیتوں سے گھروں کی طرف لوٹنے لگے۔ان کسانوں کے جانور بھی خوشی خوشی گھروں کو قافلوں کی صورت میں لوٹ رہے تھے۔سورج کے چھپ جانے سے ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔اس تنہائی میں اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹنے والے پرندوں اور میرے علاوہ کوئی موجود نہ تھا۔

اندھیرا چھا گیا دُنیا نظر سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اُٹھا کر آ نکھ اُدھر اِک ہوُ کا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جرس کی دور سے آواز آ تی ہے کہیں پیہم

تشریح:

اس بند میں شاعر نے شام چھا جانے کے منظر کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ شام چھا نے سے ہر جانب اندھیرا چھا گیا ساری دنیا نظروں سے اوجھل ہونے لگی اور ہر جانب گہرا سناٹا چھا گیا۔ مگر اس ہو کتمے عالم میں چھائے ہوئے سناٹے میں بھی کہیں سے مکھیوں کی بھنبھناہٹ بھرویں(صبح کے وقت گایا جانے والا راگ) کے راگ کی طرح سنائی دے رہی تھی اور دور کہیں سے گھنٹی کی آواز آ رہی تھی۔

کبھی اک گنبدِ کہنہ پہ بومِ خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکووؑں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دُنیا سے الگ اک گوشہؑ عزلت میں ہوں پنہاں
کوئی پھر کیوں قدم اِس کنجِ تنہائی میں دھرتا ہے

تشریح:

شام کے اس منظر میں جب شاعر کی نظر ایک پرانی اور ویران عمارت کے گنبد پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس عمارت کے گنبد پر ایک آوارہ الو بیٹھا آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے خدا سے شکوہ کناں ہے کہ شام کا یہ پہر میری تنہائی کا گوشہ ہوتا ہے۔جس میں میں چھپا بیٹھا ہوں۔مگر میری اس تنہائی میں کوئی خلل ڈالنے کیوں آ جاتا ہے۔

نہ دیکھیں حال ان لوگوں کا ذلت کی نگاہوں سے
بھرا ہے جن کے سر میں غزہ نوابی و خوانی
یہ ان کا کاسہ سر کہہ رہا ہے کج کلاہوں سے
عجب ناداں ہیں وہ جن کو ہے عجب تاج سلطانی

تشریح:

اس شعر میں شاعر نے نصیحت آموز انداز میں بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو آج عبرت کا نشاں بنے ہوئے ہیں ان کو ذلت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ جن لوگوں کو اپنی نوابی اور تخت و تاج کا غرور تھا ان کی بکھری ہوئی کھوپڑیاں آج ان کے حالات کا پتا دے رہی ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جن کو اپنے تخت و تاج اور سلطانی پر بہت مان تھا۔ان اشعار میں شاعر یہ درس دینا چاہتا ہے کہ موت برحق ہے اور شاہ ہو یا فقیر ہر ایک کو آنی ہی ہے۔

خدا جانے تھے اِن لوگوں میں کیا کیا جوہرِ قابل
خدا معلوم رکھتے ہوں گے یہ ذہنِ رسا کیسے
خدا ہی کو خبر ہے کیسے کیسے ہوں گے صاحب حل
خدا معلوم ہونگے بازوئے زور آزما کیسے

تشریح:

شاعر نے اس بند میں فانی دنیا کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ دنیا کیسے کسیے قابل لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ کیسے جوہر شناس اور ذہین لوگ اس دنیا میں موجود تھے۔کوئی صاحب دل تھا تو کوئی صاحب زور مگر اب وہ سب کے سب تمام لوگ قبر میں موجود ہیں۔یعنی موت بر حق ہے کوئی چاہے کتنا ذہین یا کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو آئے گی۔

نہ دیکھ اِن اُستخواں ہاےؑ شکستہ کو حقارت سے
یہ ہے گورِ غریباں اک نظر حسرت سے کرتا جا
نکلتا ہے یہ مطلب لوحِ تربت کی عبارت سے
جو اِس رستے گزرتا ہے تو ٹھنڈی سانس بھرتا جا

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جب تمہارا گزر کبھی ایسی جگہ سے ہو جہاں مرے ہوئے لوگ مدفون ہیں تو ان کی ہڈیوں کو یا ان کی قبروں کو حقارت کی نظر سے ہر گز نہ دیکھو۔بلکہ ان کے انجام پر غور کرتے ہوئے ان کی قبروں پر لگی تختیوں کو غور سے دیکھو تو تمھیں اس سے معلوم ہوگا کہ یہ تم سے کہہ رہی ہیں کہ اس راستے سے گزرنے والے ہم پر بھی نظر ڈال کے جا۔کیوں کہ کل کو ہر ایک نے لوٹ کر آنا تو اسی جانب ہے۔

حقیقت غور سے دیکھی جو اِن سب مرنے والوں کی
تو ایسا ہی نظر آنے لگاانجامِ کار اپنا
اِنہیں کی طرح جیسے مل گئے ہیں خاک میں ہم بھی
یونہی پرسانِ حال آ نکلا ہے اک دوستدار اپنا

تشریح:

اس بند میں شاعر نے موت کی حقیقت پر غور کرنے کو کہا ہے کہ جب اس حقیقت پر غور کیا جاتا ہے تو مرنے والے کی طرح اپنا انجام بھی دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔کہ ایک دن اسی طرح ہم بھی قبر میں موجود ہوں گے جب ہم خاک میں مل چکے ہوں گے تو ایسے ہی کوئی ہمارا جاننے والا بھی اس طرف آ نکلے گا اور دو گھڑی وقت نکال کر ہمارے انجام پر غور کر رہا ہو گا۔

یہ اس سے ایک دہقانِ کہن سال آ کے کہتا ہے
کہ ہاں ہاں خوب ہم واقف ہیں دیکھا ہے اِسے اکثر
پھر اِسکے بعد دِل ہی دِل میں کچھ غم کھا کے کہتا ہے
کہ اب تک پھرتا ہے آ نکھوں میں پھرنا اِسکا سبزے پر

تشریح:

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ گزر جانے والوں کی باقی رہ جانے والی باتیں محض ان کی یادیں ہوتی ہیں جن کو پیچھے رہ جانے والے یاد کرتے ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ دوست کو دیکھ کر ایسے ہی کوئی بوڑھا کسان کہتا ہے کہ ہم تو اس شخص سے اچھی طرح واقف تھے۔یہ ہمارے سامنے اس سبزے پر چلا بھرتا کرتا تھا اور یہ مناظر آج تک آنکھوں کے آگے تروتاز ہیں۔

وہ اُس کا نور کے تڑکے اِدھر گلکشت کو آنا
وہ پو پھٹنے سے پہلے آ کے پھرنا سبزہ زاروں میں
وہ کچھ کم دِن رہے اِسکا لبِ جو کی طرف جانا
وہ اُسکامسکرانا دیکھ کر شور آبشاروں میں

تشریح:

اس بند میں شاعر مرحوم شخص کی یادوں کو کسان کی زبانی بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ سورج جے طلوع ہونے سے بھی پہلے اس کا باغ کی سیر کے لئے آنا اور دن کے طلوع ہونے سے قبل ہی لوٹ جانا اب تک یاد ہے۔کچھ دن قبل ہی کی بات ہے کہ وہ نہر کے کنارے ٹہل رہا تھا اور آبشاروں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا یہ مناظر آج بھی نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔

غرض کیا کیا کہوں اک روز کا یہ ذکر ہے صاحب
کہ اِس میداں میں پھرتے صبح دم اِس کو نہیں دیکھا
ہوا پھر دوسرا دِن اور نظر سے وہ رہا غائب
خیاباں میں اِسے پایا نہ دریا پر کہیں دیکھا

تشریح:

اس بند میں شاعر کسان کی زبانی ہی کہتا ہے کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ وہ جو روزانہ وہاں آتا تھا میں نے صبح کے وقت اسے میدان میں پھرتے ہوئے موجود نہ پایا۔پھر دوسرے روز بھی اسے میدان میں یا دریا کے کنارے نہ پایا۔دو دن سے وہ میری نظروں کے سامنے سے غیر موجود رہا۔

پر اِسکے تیسرے دِن دیکھتا کیا ہوں جنازے کو
لئے آتے ہیں سب پڑھتے ہوےؑ کلمہ شہادت کا
تمہیں پڑھنا تو آتا ہوگا آو پاس سے دیکھو
یہ اِسکی قبر ہے اور یہ کتابہ سنگِ تربت کا

تشریح:

اس بند میں شاعر کسان کی زبانی ہی کہتا ہے کہ تیسرے روز میں نے کیا دیکھا کہ لوگ ایک جنازے کو لیے ہوئے آ رہے ہیں اور سب کلمہ شہادت پڑھ رہے ہیں۔ وہ مجھے بھی کہتے ہیں کہ تمھیں کلمہ تو پڑھنا آتا ہو گا آؤ تم بھی پڑھو اور یہ اس کی قبر ہے اس پر موجود کتبہ پڑھو۔ یعنی کہ شاعر نے زندگی کی بے ثباتی کو بیان کیا ہے۔

خدا بخشے اسےبس دوست کا رہتا تھا وہ جویا
تو نکلا دوست اک آخر خدا وندِ کریم اس کا
اب اس کے نیک و بد کا ذکر کرنا ہی نہیں اچھا
کہ روشن ہے خدا پر عالمِ امید و بیم اِسکا

تشریح:

یہ بند نظم کا آخری بند ہے جس میں شاعر نے کسان کی زبانی اس مرنے والے کے متعلق کہا کہ مرحوم کو خدا بخشے وہ ایک اچھا شخص تھا۔ وہ ہر وقت دوستوں کی تلاش میں رہنے والا انسان تھا مگر اس کا دوست دونوں جہانوں کا رب یعنی خدا نکلا۔اب اس کی اچھائیوں یا برائیوں کا ذکر کرنا تو بے سود ہے کیوں کہ وہ جس رب کے پاس پہنچ چکا ہے وہ غیب کا علم رکھنے والا ہے اور سب کچھ بہتر جانتا ہے۔

سوالات:

سوال نمبر 1:”گور غریباں”کے اشعارکسں انگریزی نظم کا ترجمہ ہیں؟

گور غریباں کے اشعار انگریزی زبان کے شاعر “تھامس گرے” کی مشہور نظمelegy written in a کا منظوم ترجمہ ہیں۔country church yard.

سوال نمبر 2: زمین میں کیسے کیسے لوگ دفن ہیں؟

زمین میں ہر طرح کے اہل علم و دانش،امیر،غریب، اعلیٰ و ادنی غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ دفن ہیں۔

سوال نمبر 3: لوحِ تربت کسے کہتے ہیں؟

قبر کے سرہانے پتھر،لکڑی یا دھات سے بنا ایک قطبہ نسب کیا جاتا ہے۔جس پر مرحوم شخص کا نام،تاریخ پیدائش اور وفات وغیرہ درج کی جاتی ہے اس کو لوح تربت کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر 4:کہن سال دہقاں کیا کہتا ہے؟

کہن سال دہقاں ایک عمر رسیدہ کسان ہے جو شاعر کو ایک شخص کی موت کے مطلق بتا رہا ہے کہ وہ فوت ہونے والے شخص سے اچھی طرح واقف تھا ابھی کچھ روز قبل تک وہ اس کی نظروں کے سامنے باغ کی سیر اور نہر کنارے چہل قدمی کے لئے آتا تھا مگر دو روز اس کے نہ آنے کے بعد تیسرے روز ایک جنازہ آتے دیکھا۔مگر اب اس کے مطلق اچھی یا بری کوئی بات کرنے کا کوئی مقصد باقی نہیں کیونکہ جہاں وہ جا چکا ہے وہ اللہ کی ذات ہے جو غیب اور حاضر سب پر قادر ہے۔