خوجی ایک مطالعہ

0
  • باب دوم: تنقیدی مضمون
  • سبق کا نام:خوجی ایک مطالعہ
  • صنف: تنقیدی مضمون
  • مصنف کا نام : احتشام حسین

تعارف سبق:

اس سبق میں تنقیدی مضمون کی صنف کا تعارف کراتے ہوئے”احتشام حسین”کے تنقیدی مضمون”خوجی-ایک مطالعہ کو پیش کیا گیا ہے۔یہ مضمون احتشام حسین کی کتاب”اعتبار نظر ” سے ماخوذ ہے۔اس مضمون میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول “فسانہ آزاد”کے مشہور مزاحیہ کردار “خوجی”کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

تعارف مصنف:

احتشام حسین 1912 میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں ماہل میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنی تعلیم اعظم گڑھ اور الہ آباد ہی سے حاصل کی۔1936 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔1938 میں لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں استاد مقرر ہوئے۔جبکہ 1961 میں الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کا عہدہ سنبھالا۔1972 میں الہ آباد میں انتقال ہوا۔

احتشام حسین کی ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ 1932 کے قریب جاری ہوا۔ابتدائی طور پرافسانہ نگاری اور ڈراما نویسی کے ساتھ غزلیں اور نظمیں بھی لکھتے تھے۔انھوں نے علم زبان سے متعلق جان بیمز کی کتاب کا اردو ترجمہ”ہندوستانی لسانیات کا خاکہ”کے نام سے کیا۔ان کا افسانوی مجموعہ “ویرانے” اور سفر نامہ”ساحل اور سمندر” کے نام سے شائع ہوا ۔احتشام حسین کا اصل میدان تنقید ٹھہرا۔وہ آغاز سے ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اشتراکیت پر یقین رکھتے تھے۔ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے “تنقیدی جائزے”، “روایت اور بغاوت” ،”ادب اور سماج”،”تنقیدی اور عملی تنقید”،”ذوق ادب اور شعور”،”افکار و مسائل”اور ” اعتبارِ نظر” شامل ہیں۔

خلاصہ سبق:

خوجی ” رتن ناتھ سرشار” کے ناول ” فسانہ آزاد”کا ایک مزاحیہ کردار ہے۔خوجی ایک مطالعہ کے ذریعے احتشام حسین نے اس کردار کا جائزہ پیش کیا ہے۔خوجی کا کردار لکھنو جی زوال پذیر تہذیب کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔خوجی جیسے کردار شیکسپیئر،سروینیٹز کے ہاں بھی موجود ہیں جبکہ ہندوستانی تہذیب میں سرشار کے ہاں یہ کردار خوجی تو منشی سجاد کے ہاں حاجی بغلول کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔

ناول میں خوجی کا کردار اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے توجہ اور پسندیدگی کا باعث بنتا ہے۔مگر خوجی کے احمقانہ پن میں بھی مصنف نے بہت سی معاشرتی صداقتوں کو ظاہر کیا ہے اپنی تیز زبانی اور پسند نا پسند کی وجہ سے یہ کردار بہت جلد قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتا ہے۔اس کی پسندیدہ چیزیں افیون اور گنا ہیں جبکہ پانی،کمہار اور ازعفران سے اسے نفرت ہے۔خوجی کا کردار تو ہندوستانی خوبیوں کا مظہر ہےجبکہ تہذیب وہ خالصتاً اسلامی اپناتا ہے۔

یعنی وہ سڑک کنارے کبابیے سے کباب خرید کر کھا لیتا ہے لیکن ہوٹل میں جاکر کھانے کو ناجائز خیال کرتا ہے کہ وہاں شراب اور حلال و حرام کے معاملات ہوسکتے ہیں۔خوجی کے کردار کا یہ نقطہ نظر دراصل لکھنو کی مٹتی ہوئی تہذیب کی نمائندگی کر رہا ہے۔ناول میں خوجی کے ساتھ ہی کہانی کا ایک اہم کردار آزاد بھی موجود ہے جو مصنف کے مطابق سرشار نے خوجی کے کردار کو ہی دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔فرق محض اتنا ہے کہ آزاد کے کردار میں بلندی فکر اور ربط موجود ہےجبکہ خوجی کا کردار بے سلیقگی کا شکار ہے۔

احتشام حسین کے مطابق اگر آزاد کو بگاڑ دیا جائے تو خوجی بن جائے گا اور خوجی کو سنوارا جائے تو وہ آزاد کے قریب پہنچ سکتا ہے۔خوجی کے کردار کی یہ خوبی ہے کہ وہ آزاد کا ایک بگڑا ہوا خاکہ ہونے کے باوجود قاری سے اپنی ہستی منوا لیتا ہے۔خوجی کے کردار میں دنیا دار آدمی کا تدبر بھی موجود ہے اور احساس برتری کا تاثر بھی پایا جا تا ہے۔خوجی کی وہ خصوصیت جو اسے زوال آمادہ تمدن کا خاص کردار بناتی ہے اس کا جذبہ وفاداری ہے۔وہ نواب صاحب کے وفادار ہونے کا ثبوت ان کی مشکل میں ان کی مدد کرنے کی ٹھان کر دیتا ہے۔

ناول میں موجود ہر کردار نے خوجی کی تصویر اپنے مذاق کے مطابق کھینچی۔جس سے خوجی مجسم شامت،پستہ قامت،کوتاہ گردن،تنگ پیشانی،خباثت اور شرارت کی نشانی دکھائی دیتا ہے۔مختصراخوجی ہندوستان میں ہو یا روس،ترکی اور پولینڈ میں وہ اپنی خصوصیات اپنے ساتھ لیے پھرتا ہےاور اپنی تہذیب کا علمبردار ہے۔

سوالات

سوال نمبر 1:خوجی کا حلیہ بیان کیجئے۔

حلیے کے اعتبار سے خوجی ایک مجسم شامت،پستہ قامت،کوتاہ گردن،تنگ پیشانی،خباثت اور شرارت کی نشانی لیے ہوئے ہے۔

سوال نمبر 2:خوجی کو مغرور ثابت کرنے کےلیے کیا دلیلیں پیش کی گئی ہیں؟

خوجی کو مغرور ثابت کرنے کے لیے جو دلیلیں ہیں ان میں خوجی کی اکڑ ہے جس سے اسے کافی نقصان بھی پہنچا ہے۔وہ اپنا نام کم سے کم مفتی خواجہ بدیع صاحب علیہ الرحمتہ والغفران بتاتا ہے۔ہار جانے کے بعد ہار نہیں مانتا اور مار کھانے کے بعد اپنی قرولی کو ضرور یاد کرتا ہے۔یہ تمام خصوصیات خوجی کو ایک مغرور انسان کے روپ میں دکھاتی ہیں۔

سوال نمبر 3:خوجی کے جذبہ وفاداری کے بارے میں مصنف کی کیا رائے ہے؟

خوجی کا جذبہ وفاداری ہی اس کے کردار کی وہ خصوصیت ہے جو اسے زوال آمادہ جاگیردارانہ تمدن کا خاص کردار بناتی ہے۔خوجی نواب صاحب کا نمک خوار ہونے کی حیثیت سے ان کی محبت کا دم بھرتا ہے۔ان کے لیے اپنی جان کو ہر طرح کی مصیبت میں ڈالنے کے لیے آمادہ دکھائی دیتا ہےاور صرف نواب صاحب ہی نہیں جب آزاد کے ساتھ اس کی وفاداری اور محبت کی آزمائش کا وقت آتا ہے تو وہ خود کو آزاد کا بھی خیر خواہ ثابت کرتا ہے۔

سوال نمبر 4:خوجی اور آزاد کے کرداروں میں کیا مطابقت ہے؟

خوجی اور آزاد کا کردار ایک دوسرے سے باہم متصل نظر آتے ہیں۔دونوں مل کر زندگی کی تصویر بناتے ہیں ۔ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سرشار نے ایک ہی کردار کے دو ٹکڑے کردیے ہیں۔آزاد اور خوجی کے کردار میں یہ مطابقت ہے کہ دونوں عاشق مزاج ہیں اور دونوں کے عشق میں ایک عجیب طرح کی ناہمواری ہے ۔ظرافت اور بذلہ سنجی دونوں کےہاں ہے لیکن سطح کا فرق ہے۔اس طرح یہ نظر آنے لگتا ہے کہ خوجی اور آزاد دونوں مل کر ایک مکمل تصویر بناتے ہیں۔علیحدہ علیحدہ ان میں کوئی مکمل نہیں ہے خوجی کی سیرت آزاد کی محبت میں ہی نمایا ں ہوسکتی ہے۔