حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کی زندگی

0

حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کی زندگی

اس سبق میں حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مطلق بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی پیدائش عرب کے شہر مکہ میں قریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل ہوئی۔آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ آپ کی عمر مبارک چھے سال تھی کہ آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا بھی انتقال ہو گیا۔آٹھ سال کے تھے کہ دادا کا انتقال ہوا یوں آپ کی کفالت آپ صلی و علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب نے کی۔

بڑے ہو کر آپ صلی و علیہ وسلم کی توجہ تجارت کی طرف ہوئی۔آپ صلی و علیہ وسلم بہت محنت اور دیانتداری سے کاروباری معاملات طے کرتے تھے۔جبکہ آپ صلی و علیہ وسلم نہ کبھی جھوٹ بولتے نہ کسی کو دھوکا دیتے، نہ لین دین میں ٹال مٹول کرتے اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتے تھے۔جو وعدہ کرتے اس کو پورا کرتے خواہ تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صادق اور امین کے لقب سے جانا جاتا اگر کہیں جھگڑا ہوتا تو اس کے فیصلے کے لیے لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔

خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر میں عرب کے سب قبائل حصہ لینا چاہتے تھے۔یوں کسی جھگڑے سے بچنے کے لیے سب قبائل کے سپرد مختلف کام کر دیے گئے۔ مگر حجر اسود نصب کرنے میں مشکل آن پڑی کہ سبھی قبائل چاہتے تھے کہ اس کی تنصیب وہ کریں۔ کئی روز تک یہ جھگڑا رہا آخر طے کیا گیا کہ جو صبح سویرے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا وہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ اگلے روز کعبے میں سب سے پہلے داخل ہونے والے حضرت محمد صلی و علیہ وسلم تھے۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے حجراسود کی تنصیب کا فیصلہ یوں کیا کہ اس پتھر کو ایک بڑی چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑنے کو کہا گیا۔ یوں اس پتھر کو خانہ کعبہ کے قریب لا کر دیوار میں نصب کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی آپ صلی و علیہ وسلم نے لوگوں کو باہمی طور پر مل جل کر کام کرنے کا طریقہ سکھایا۔اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کام سے فارغ ہو کر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں چپ چاپ عبادت میں مشغول رہتے۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے جب پہلی بار انسانوں کو خدا کا پیغام سنایا تواس وقت آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔آپ صلی و علیہ وسلم نے خدا کے پیغام کے ذریعے انسانوں کوبرائیوں کو چھوڑنے اور اچھے کام کرنے کی تعلیم دی۔حضرت محمد صلی و علیہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت بہت خراب تھی۔ ان لوگوں کی زندگی لوٹ مار میں گزرتی اور پورا عرب قبائل میں بٹا ہوا تھا۔جو معمولی سے معمولی بات پہ لڑائی کرنے لگ جاتے ان لڑائیوں میں صلح کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ لمبے عرصے کے لیے چلا کرتی تھیں۔

آپ صلی و علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ان کی تعلیمات سے قبائل کی آپسی دشمنیاں ختم ہوئیں۔ اور ہر طرف مساوات کا درس پہنچا۔ لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ جہاں عورت قتل ہوتی وہاں اس کی حثیت لونڈی کی سی تھی۔آپ صلی و علیہ وسلم کی تعلیمات کے اثر سے نہ صرف جھگڑے ختم ہوئے بلکہ عورت کو بھی سماج میں باوقار درجہ ملا۔آپ صلی و علیہ وسلم نے لوگوں کو برائیوں سے روکا اور ایک خدا کی تعلیمات کا درس دیا۔جس سے مکہ کے سرداروں کو اپنی سرداری خطرے میں دکھائی دینے لگی۔انھوں نے اسلام کی تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے آپ کو طرح طرح کے لالچ دیے۔جب حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے تو آپ صلی و علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔

“اگر یہ لوگ میرے دھمکیاں دیں۔ تکالیف پہنچائی۔ وہ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں گندگی پھینکتے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتے ان پر آوازیں وغیرہ کسی جاتیں۔ لیکن آپ صلی و علیہ وسلم حق کے راستے پہ ڈٹے رہے۔

اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں آپ صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کی مصبیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ طائف کے لوگوں نے آپ صل و علیہ وسلم کو دھمکیاں دیں۔ تکالیف پہنچائی۔ وہ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں گندگی پھینکتے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتے ان پر آوازیں وغیرہ کسی جاتیں۔ لیکن آپ صلی و علیہ وسلم حق کے راستے پہ ڈٹے رہے۔622 عیسوی میں آپ صلی و علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے۔

اس وقت آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر 53 سال تھی۔یہاں کے لوگوں نے اشاعت اسلام۔میں آپ صلی و علیہ وسلم کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہاں پر آپ صلی و علیہ وسلم نے خود مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ آپ صلی و علیہ وسلم کا چھوٹا سا حجرہ مبارک تھا۔آپ کسی بڑے دربار یا محل میں نہ رہتے تھے۔ دس سال کے اندر اندر سالم پورے عرب میں پھیل گیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اپنا ذاتی کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ بیماروں کی تیمارداری اور مزاج پرسی کرتے۔ بچوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ 63 برس کی عمر میں آپ صلی و علیہ وسلم کا وصال ہوا اور آپ صلی و علیہ وسلم مسجدِ نبوی کے ہجرے میں مدفون ہیں۔

سوچیے اور بتایئے:

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کی پیدائش کہاں ہوئی؟

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کی پیدائش عرب کے شہر مکہ میں قریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل ہوئی۔

آپ صلی و علیہ وسلم کو امین اور صادق کیوں کہا جاتا ہے؟

آپ صلی و علیہ وسلم بہت محنت اور دیانتداری سے کاروباری معاملات طے کرتے تھے۔جبکہ آپ صلی و علیہ وسلم نہ کبھی جھوٹ بولتے نہ کسی کو دھوکا دیتے، نہ لین دین میں ٹال مٹول کرتے اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتے تھے۔جو وعدہ کرتے اس کو پورا کرتے خواہ تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صادق اور امین کے لقب سے جانا جاتا تھا۔

حجر اسود کسے کہتے ہیں؟

حجر اسود جنت سے لایا گیا ایک پتھر ہے جسے خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا گیا ہے۔ حج کے اراکین میں سے ایک رکن حجر اسود کو بوسہ دینا بھی ہے۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ کس طرح سمجھایا؟

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے حجراسود کی تنصیب کا فیصلہ یوں کیا کہ اس پتھر کو ایک بڑی چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑنے کو کہا گیا۔ یوں اس پتھر کو خانہ کعبہ کے قریب لا کر دیوار میں نصب کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی آپ صلی و علیہ وسلم نے لوگوں کو باہمی طور پر مل جل کر کام کرنے کا طریقہ سکھایا۔

آپ صلی و علیہ وسلم عبادت کرنے اور غور و فکر کرنے کہاں جاتے تھے؟

آپ صلی و علیہ وسلم عبادت کرنے اور غور و فکر کرنے غار حرا تشریف لے جاتے تھے۔

جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا کیا نام ہے؟

اس کتاب کا نام قرآن مجید ہے۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے جب پہلی بار انسانوں کو خدا کا پیغام سنایا تو آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر کیا تھی؟

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے جب پہلی بار انسانوں کو خدا کا پیغام سنایا تواس وقت آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔

آپ صلی و علیہ وسلم نے خدا کے پیغام کے ذریعے انسانوں کو کیا تعلیم دی؟

آپ صلی و علیہ وسلم نے خدا کے پیغام کے ذریعے انسانوں کوبرائیوں کو چھوڑنے اور اچھے کام کرنے کی تعلیم دی۔

اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں آپ صلی و علیہ وسلم کو کیا کیا مصبیتیں برداشت کرنی پڑیں؟

اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں آپ صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کی مصبیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ طائف کے لوگوں نے آپ صل و علیہ وسلم کو دھمکیاں دیں۔ تکالیف پہنچائی۔ وہ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں گندگی پھینکتے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتے ان پر آوازیں وغیرہ کسی جاتیں۔ لیکن آپ صلی و علیہ وسلم حق کے راستے پہ ڈٹے رہے۔

دنیا میں سب سے پہلے کس مذہب نے سماج میں عورتوں کو باعزت مقام عطا کیا؟

دنیا میں سب سے پہلے مذہب اسلام نے سماج میں عورتوں کو باعزت مقام عطا کیا۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں سے خالی جگہ کو بھریے۔

بچے ،غارحرا ،داخل ، انتقال ،فیصلے ،حجرِ اسود ، پیغمبر ،تعلیمات۔

  • کچھ مہینے پہلے آپ صلی و علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
  • اگر کہیں جھگڑا ہوجاتا تو لوگ فیصلے کے لیے آپ صلی و علیہ وسلم کے پاس آتے۔
  • لیکن حجرِ اسود کو نصب کرنے کے سلسلے میں ایک مشکل آن پڑی۔
  • آخر طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبے میں داخل ہو وہ اس کا فیصلہ کرے۔
  • اور وہاں غار حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اعر غور وفکر فرماتے۔
  • جس زمانے میں حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کیا،عرب کی حالت بہت خراب تھی۔
  • ان کے اثر اور تعلیمات سے قبیلوں کی دشمنیاں ختم ہو گئیں۔
  • ایک بار آپ صلی و علیہ وسلم نے فرمایا: ” بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں”.

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

تجارت قبیلہ قریش کے لوگ تجارت کرتے تھے۔
قبیلہ حضور صلی و علیہ وسلم کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا۔
صلح حضور صلی و علیہ وسلم نے دو قبائل کے درمیان صلح کروائی۔
مساوات اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔
ہجرت حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
اضافہ ہماری ملکی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
تیمارداری ہمیں مریض کی تیمارداری کرنی چاہیے۔
مزاج پرسی یم آپ کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے ہیں۔

لکھیے:

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کے والد ،والدہ ،چچا اور دادا کا نام لکھیے؟

آپ صلی و علیہ وسلم کے والد کا نام حضرت عبداللہ ، والدہ کا نام حضرت آمنہ، چچا کا نام حضرت ابو طالب جبکہ دادا کا نام حضرت عبدالمطلب تھا۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے کہاں تشریف لے گئے؟

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

جب حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے تو آپ صلی و علیہ وسلم نے کیا فرمایا ؟

جب حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے تو آپ صلی و علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔
“اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چاند ، تب بھی میں اللہ کے کام سے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔۔۔۔۔۔ یا تو اس کام کو انجام دوں گا یا اپنی جان قربان کروں گا۔”

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی؟

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت بہت خراب تھی۔ان لوگوں کی زندگی لوٹ مار میں گزرتی اور پورا عرب قبائل میں بٹا ہوا تھا۔جو معمولی سے معمولی بات پہ لڑائی کرنے لگ جاتے ان لڑائیوں میں صلح کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ لمبے عرصے کے لیے چلا کرتی تھیں۔ آپ صلی و علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کی زندگی پر ایک مضمون لکھیے۔

آپ صلی و علیہ وسلم کی پیدائش عرب کے شہر مکہ میں قریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل ہوئی۔آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ آپ کی عمر مبارک چھے سال تھی کہ آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا بھی انتقال ہو گیا۔آٹھ سال کے تھے کہ دادا کا انتقال ہوا یوں آپ کی کفالت آپ صلی و علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب نے کی۔بڑے ہو کر آپ صلی و علیہ وسلم کی توجہ تجارت کی طرف ہوئی۔

آپ صلی و علیہ وسلم بہت محنت اور دیانتداری سے کاروباری معاملات طے کرتے تھے۔جبکہ آپ صلی و علیہ وسلم نہ کبھی جھوٹ بولتے نہ کسی کو دھوکا دیتے، نہ لین دین میں ٹال مٹول کرتے اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتے تھے۔جو وعدہ کرتے اس کو پورا کرتے خواہ تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صادق اور امین کے لقب سے جانا جاتا اگر کہیں جھگڑا ہوتا تو اس کے فیصلے کے لیے لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔

خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر میں عرب کے سب قبائل حصہ لینا چاہتے تھے۔یوں کسی جھگڑے سے بچنے کے لیے سب قبائل کے سپرد مختلف کام کر دیے گئے۔ مگر حجر اسود نصب کرنے میں مشکل آن پڑی کہ سبھی قبائل چاہتے تھے کہ اس کی تنصیب وہ کریں۔ کئی روز تک یہ جھگڑا رہا آخر طے کیا گیا کہ جو صبح سویرے سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو گا وہی اس کا فیصلہ کرے گا۔ اگلے روز کعبے میں سب سے پہلے داخل ہونے والے حضرت محمد صلی و علیہ وسلم تھے۔حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے حجراسود کی تنصیب کا فیصلہ یوں کیا کہ اس پتھر کو ایک بڑی چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو اس چادر کا ایک ایک کونہ پکڑنے کو کہا گیا۔

یوں اس پتھر کو خانہ کعبہ کے قریب لا کر دیوار میں نصب کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی آپ صلی و علیہ وسلم نے لوگوں کو باہمی طور پر مل جل کر کام کرنے کا طریقہ سکھایا۔اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کام سے فارغ ہو کر غار حرا میں تشریف لے جاتے اور وہاں چپ چاپ عبادت میں مشغول رہتے۔حضرت محمد صلی و علیہ وسلم نے جب پہلی بار انسانوں کو خدا کا پیغام سنایا تواس وقت آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔آپ صلی و علیہ وسلم نے خدا کے پیغام کے ذریعے انسانوں کوبرائیوں کو چھوڑنے اور اچھے کام کرنے کی تعلیم دی۔

حضرت محمد صلی و علیہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت بہت خراب تھی۔ ان لوگوں کی زندگی لوٹ مار میں گزرتی اور پورا عرب قبائل میں بٹا ہوا تھا۔جو معمولی سے معمولی بات پہ لڑائی کرنے لگ جاتے ان لڑائیوں میں صلح کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ لمبے عرصے کے لیے چلا کرتی تھیں۔ آپ صلی و علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔ان کی تعلیمات سے قبائل کی آپسی دشمنیاں ختم ہوئیں۔ اور ہر طرف مساوات کا درس پہنچا۔ لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔

جہاں عورت قتل ہوتی وہاں اس کی حثیت لونڈی کی سی تھی۔آپ صلی و علیہ وسلم کی تعلیمات کے اثر سے نہ صرف جھگڑے ختم ہوئے بلکہ عورت کو بھی سماج میں باوقار درجہ ملا۔آپ صلی و علیہ وسلم نے لوگوں کو برائیوں سے روکا اور ایک خدا کی تعلیمات کا درس دیا۔جس سے مکہ کے سرداروں کو اپنی سرداری خطرے میں دکھائی دینے لگی۔انھوں نے اسلام کی تبلیغ سے باز رکھنے کے لیے آپ کو طرح طرح کے لالچ دیے۔جب حضرت محمد صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے تو آپ صلی و علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔
“اگر یہ لوگ میرے دھمکیاں دیں۔ تکالیف پہنچائی۔ وہ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں گندگی پھینکتے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتے ان پر آوازیں وغیرہ کسی جاتیں۔ لیکن آپ صلی و علیہ وسلم حق کے راستے پہ ڈٹے رہے۔

اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں آپ صلی و علیہ وسلم کو طرح طرح کی مصبیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ طائف کے لوگوں نے آپ صل و علیہ وسلم کو دھمکیاں دیں۔ تکالیف پہنچائی۔ وہ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں گندگی پھینکتے۔ آپ صلی و علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتے ان پر آوازیں وغیرہ کسی جاتیں۔ لیکن آپ صلی و علیہ وسلم حق کے راستے پہ ڈٹے رہے۔622 عیسوی میں آپ صلی و علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے۔

اس وقت آپ صلی و علیہ وسلم کی عمر 53 سال تھی۔یہاں کے لوگوں نے اشاعت اسلام۔میں آپ صلی و علیہ وسلم کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہاں پر آپ صلی و علیہ وسلم نے خود مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس کے ساتھ آپ صلی و علیہ وسلم کا چھوٹا سا حجرہ مبارک تھا۔آپ کسی بڑے دربار یا محل میں نہ رہتے تھے۔ دس سال کے اندر اندر سالم پورے عرب میں پھیل گیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اپنا ذاتی کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ بیماروں کی تیمارداری اور مزاج پرسی کرتے۔ بچوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ 63 برس کی عمر میں آپ صلی و علیہ وسلم کا وصال ہوا اور آپ صلی و علیہ وسلم مسجدِ نبوی کے ہجرے میں مدفون ہیں۔

غور کرنے کی بات:

لاتے ،دوہتے، لگاتے ،اٹھاتے ،ڈالتے اور کرتے وغیرہ ایسے الفاظ ہیں۔ جن سے کسی کام کا کرنا یا ہونا معلوم ہوتا ہے۔ یہ الفاظ لانا، دوہنا، لگانا ، اٹھانا ، ڈالنا اور کرنا سے بنے ہیں۔ ایسے الفاظ فعل کہلاتے ہیں۔ آپ دس ایسے الفاظ لکھیے جو فعل کہلاتے ہوں۔

کھانا ،چکھنا ،دوڑنا ،اٹھنا ،بیٹھنا، پڑھنا ، لکھنا ، سینا ، دھونا ،کھیلنا ، بھاگنا وغیرہ۔