ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے تنقیدی نظریات

0

اردو نقادوں میں ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری پہلے نقاد ہیں جو یورپ کی کئی زبانیں جانتے تھے،جن کو مشرق و مغرب دونوں ادبیات سے واقفیت تھی اور جنہوں نے حصولِ تعلیم کے سلسلے میں مغرب کا سفر کیا تھا۔ ان حالات نے ان کی تنقید پر گہرا اثر کیا ہے۔

مغرب نے ان پر یہ اثر کیا کہ وہ اپنی ملکی چیزوں کو کم مرتبہ سمجھنے کے بجائے ان کو بلند مرتبہ سمجھنے لگے۔ اسی خیال نے انہیں اس بات کے لیے مجبور کیا کہ وہ اپنے ملک کی چیزوں کو جانچیں اور مغرب کے مقابلے میں ان کو پیش کریں جس سے یہ حقیقت واضح ہو کہ ان کی تخلیقات کسی طرح مغربی تخلیقات سے کم نہیں۔ یہی وجہ کے بجنوری کی تنقید میں چند تقابلی پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہیں لیکن اس کی نوعیت تاثراتی نہیں، وہ سائنٹیفک ہے اس میں جذباتیت زیادہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے مقالے “محاسن کلام غالب” میں غالبؔ کا مقابلہ مشرق و مغرب کے مختلف شاعروں اور ادیبوں سے کیا ہے جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بجنوری ان سب سے غالبؔ کو بڑھا دینا چاہتے ہیں۔ وہ غالب کا مقابلہ گوئٹے سے کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہائن رشی سے غالب کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ صرف مظامین عشق و الفت بصورت قطعات افسردگی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ گوئٹے کی شاعری میں چونکہ تفکر ہے، اس لئے وہی غالب کا مد مقابل ہو سکتا ہے لیکن وہ یہیں پر بس نہیں کرتے بلکہ غالب کے مختلف خیالات کا مقابلہ ورڈسورتھ یا ویلر تک کی نظموں سے کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مرحوم کی سب سے مشہور تنقیدی تحریر غالب کے متعلق ہے جو “محاسن کلام غالب” کے نام سے چھپ چکی ہے۔اس کے علاوہ بھی انہوں نے کچھ مضامین لکھے ہیں جن کو یکجا کر کے “باقیات بجنوری” کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے. ان میں سے صرف گیتانجلی میں چند تنقیدی خیالات مل جاتے ہیں لیکن ان سب سے اہم تنقیدی تحریر محاسن کلام غالب ہے۔

غالب کو وہ ایک فلسفی شاعر سمجھتے ہیں اس لیے ان کا مقابلہ بڑے بڑے فلسفیوں سے بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ غالب کے ایک شعر کو کو ڈاروین، اسپینر، وابسن، ہیگل، سینڈل اور ہارٹمان کے خیالات کا نچوڑ دیتے بتا دیتے ہیں اور کہیں کہیں ان کے قلم سے اس قسم کے جملے نکلتے ہیں:

“غالب کا فلسفہ اسینوز، ہیگل، برکلے اور فشطے سے ملتا ہے۔” اس طرح وہ تفصیل سے تمام فلسفیوں کے خیالات پیش کر جاتے ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بجنوری نے تقابلی تنقید کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے اور بعض جگہ ان کی انتہا پسندی نے ان کو صحیح راستے سے ہٹا بھی دیا ہے اور ان میں کئی غلط باتیں بھی کہہ دی ہیں، لیکن اگر تھوڑی دیر کے لئے غلطیوں کو قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اس خصوصیت نے ان کی تنقید کو بڑی حد تک تجزیاتی ضرور بنا دیا ہے۔

تقابلی تنقید اردو میں اس سے قبل بھی موجود تھی لیکن اس سے اول تو عموماً فارسی اور عربی شاعروں سے مقابلہ کیا جاتا تھا اور دوسرے اس میں تفصیل کو دخل نہیں ہوتا تھا۔ بجنوری نے سب سے پہلے اس تقابلی تنقید کی بنیاد ڈالی جس میں تفصیل کی گہرائی کی خصوصیت ملتی ہے۔مغربی علوم سے وہ زیادہ متاثر تھے اس لئے انہوں نے اس کو اپنی تقابلی تنقید کے سلسلے میں خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔

تقابلی تنقید کے علاوہ ڈاکٹر بجنوری کی تنقید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ غالب کے متعلق کسی خیال کو ظاہر کرنے سے قبل کسی نہ کسی شاعر، فلسفی، تب تراش، یا مصور کے قول کو ضرور پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کاتب مکائیل، انجلیو، ہیومر، درجل غرض یہ کہ اس قسم کے بہت سے لوگوں کے اقوال کو انہوں نے پیش کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی علوم و فنون ڈاکٹر بجنوری کے ذہن پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے جن کے اہمیت کا ان کو احساس بھی تھا لیکن بعض جگہ یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ اقوال صرف پیش کرنے کی خاطر پیش کیے گئے ہیں ان کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

مغرب سے غیر معمولی اثرات قبول کرنے کے باوجود ڈاکٹر بجنوری کی ذہنیت مشرقی معلوم ہوتی ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے “وہ مغربی طور طریقوں کے ساتھ ساتھ رکھ رکھاؤ کے بھی بڑے حامل تھے۔”

چنانچہ ان کی تنقید میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ غالب کا مغربی شاعروں کے ساتھ ساتھ وہ مشرقی شاعروں سے بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ ابن رشیق، غیلان، دمشقی واصل بن عطاء، عمر بن عبید اور ابن دشیق کے نام قابل ذکر ہیں۔البتہ وہ ان کا ذکر کم کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت مشرقیت پسندی کا ایک ثبوت ہے کہ وہ اپنے پیشرو نقادوں کا ذکر عزت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مثلاً حالیؔ کے متعلق انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ “جیسے کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تھا مولانا حالی نے غالب کے کلام میں اس نئی دنیا کا پتہ لگایا ہے اور حقیقتاً حالیؔ مرزا غالب سے کچھ کم مستحق دار نہیں”

ڈاکٹر بجنوری نے اپنے نظریات تنقید پر کہیں علیحدہ بحث نہیں کی ہے “محاسن کلام غالب” ہی سے ان کے نظریات تنقید کا پتہ چلتا ہے۔ وہ شاعری کو عطیہ الہی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شعراء ‘تلمیذ الرحمن’ ہیں لیکن شاعری کے متعلق ان کا نظریہ قدامت پرست اور رجعت پسند نہیں۔وہ شاعری کو انکشاف حیات سمجھتے ہیں، وہ شاعری کو صرف جذبات نگاری تک محدود نہیں کرتے بلکہ اس میں گہرے مسائل سمونے کے قائل ہیں۔ غالب کی شاعری ان کے نزدیک اسی وجہ سے مستحق ہے۔ ان کے خیال میں مغرب کے اثرات نمایاں ہیں بعض بعض جگہ وہ بہک بھی گئے ہیں اور کلیم الدین احمد نے ٹھیک لکھا ہے کہ “وہ غالب کے اشعار میں اپنے معانی کو داخل کرتے تھے” لیکن ان خامیوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بجنوری کی تنقید مغرب کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے، ان کی ہر بات میں مغربیت نمایاں ہے۔

Leave a Comment