سر سید کے تنقیدی خیالات

0

شعر و ادب کے بارے میں اپنے نظریات کو ربط و تسلسل کے ساتھ کسی ایک جگہ پیش کرنے کا سر سید کو موقع نہ مل سکا اس لیے باضابطہ تنقید نگاروں میں ان کا شمار نہیں لیکن وہ ہمارے پہلے بزرگ ادیب ہیں جنہوں نے شعر اور نثر کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا،اس کی خامیوں اور خرابیوں کی طرف اشارہ کیا،ان کے دور کرنے کی تدبیریں بتائیں اور اہل قلم کو ان پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی۔حالی جو اردو میں باقاعدہ تنقید کے بانی سمجھے جاتے ہیں کہ بلاشبہ افکارسرسید کے خوشہ چیں ہیں۔جو باتیں سرسید مصروفیت کے سبب صرف اشاروں میں کہہ سکے حالی نے ان کی تفصیل بیان کر دی۔

سر سید کے تنقیدی خیالات اپنے عہد کی پیداوار ہیں۔یہ زمانہ ١٨٥٧ ء کے بعد کا تھا جب انقلاب کی کوشش ناکام ہوچکی تھی اور ہندوستانیوں کے سروں پر مصائب کے بادل منڈلا رہے تھے۔مسلمانوں کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔سرسید انہیں بیدار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ایسے حالات میں زمانے کا تقاضا یہی تھا کہ ادب تفریح کا ذریعہ نہ رہے بلکہ قوم کو بیدار کرنے کا وسیلہ بن جائے۔

سرسید نے اپنے ادبی سرمائے پر تنقیدی نظر ڈالی تو اس نتیجے پر پہنچے کے شاعری اور نثر دونوں نقائص سے پر ہیں۔شاعری میں عشقیہ مضامین کی بھرمار ہے جس سے پڑھنے والوں کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے اور مبالغہ آرائی اتنی زیادہ ہے کہ شعر اپنا اثر کھو بیٹھتا ہے۔نثر میں بھی عبارت آرائی اور قافیہ پیمائی کا ایسا رواج ہو گیا ہے کہ افکار و خیالات کو عام فہم انداز میں پیش کرنا آسان نہیں۔

سرسید خود نثر نگار تھے اس لئے نثر کی اصلاح کی طرف وہ بذات خود متوجہ ہوئے اور ایسا کارنامہ انجام دیا کہ جدید اردو نثر کے معمار اول کہلائے۔شروع میں انہوں نے شاعری بھی کی تھی مگر ان کی طبیعت کو اس سے مناسبت نہ تھی۔اس لیے جلد ہی اس کوچہ سے نکل آئے لیکن شاعری کے سلسلے میں انہوں نے کئی مفید مشورے دیے اور کئی شاعروں کی رہبری کی۔

ان کی خواہش تھی کہ اردو شاعری سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کی خدمت انجام دے۔انہوں نے عشقیہ شاعری کی مذمت کی، جھوٹ اور مبالغے کے نقصان سے شاعروں کو آگاہ کیا اور نیچرل شاعری کی پرزور حمایت کی۔نیچرل شاعری سے مراد یہ ھے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ نیچرل یعنی فطرت کے مطابق ہو تاکہ سننے والا کہ اٹھے کے ہاں یہ بات بلکل اسی طرح ہو سکتی تھی۔اس کے علاوہ اندازبیان بھی فطری ہو۔

لاہور میں محمد حسین آزاد نے ایک نئے انداز کے مشاعرے کی بنیاد رکھی۔اس مشاعرے کو سر سید کے خواب کی تعبیر سمجھنا چاہیے۔ممکن ہے اس کی بنیاد سرسید کے ایما پر ہی ڈالی گئی ہو۔اس مشاعرے کے لیے جو نظمیں لکھی گئی انہیں نیچرل شاعری کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے محمدحسین آزاد کو لکھا:
“میری نہایت قدیم تمنا اس مجلسِ مشاعرہ سے بر آئی ہے۔میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں”

آزاد کی مثنوی ‘خواب امن‘ موصول ہوئی تو سرسید نے ان الفاظ میں اس کی پذیرائی کی:
“آپ کی مثنوی خواب امن پہنچی بہت دل خوش ہوا۔درحقیقت شاعری اور زور سخن وری کی داد دی ہے۔عباس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہو گا اتنا ہی مزہ دے گا۔اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ ضرور ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لیکر اردو زبان میں ادا کیے جائیں”

حالی کی مثنوی‘حب وطن‘ اور مثنوی ‘مناظرہ رحم و انصاف‘ کو انہوں نے اپنے ادب کا ایک کارنامہ قرار دیا اور ان کی داد ان الفاظ میں دی:

“ان کی سادگی الفاظ،صفائی بیان،عمدگی خیال ہمارے دلوں کو بےاختیار کھینچتی ہے۔بیان میں، زبان میں، آمد میں، الفاظ کی ترکیب میں، سادگی و صفائی میں، ایسی عمدگی ہے کہ دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہمارے باعثِ افتخار شاعروں کو ابھی نیچر کے میدان میں پہنچنے کے لیے آگے قدم اٹھانا ہے۔ اور اپنے اشعار کو نیچر پوئٹری کے ہمسر کرنے میں بہت کچھ کرنا ہے”

ان مثنویوں کو سرسید نے نیچرل شاعری کی طرف پہلا قدم خیال کیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو اردو شاعری بہت جلد انگریزی شاعری کے ہم پلہ ہو جائے گی ہمارے یہاں بھی ملٹن اور شیکسپیئر جیسے بلند پایا شاعر پیدا ہوں گے۔مولانا حالی کی ‘مسدس مدوجزر اسلام’ شائع ہوئی تو سر سید کی مراد بر آئی اور ان کی یہ خواہش پوری ہوگی کہ اردو میں کوئی ایسا شاعر پیدا ہو جو قوم کو بیدار کرنے کے لیے نظم لکھے۔سرسید اسے اپنے لئے توشائہ آخرت خیال کرتے تھے۔کہتے تھے حشر کے دن خدا پوچھے گا کہ اپنی بخشش کیلئے کیا لایا ہے تو کہوں گا حالی کو مسدس لکھنے پر آمادہ کیا ،بس اسی کے صلے میں عفوودرگزر کا طالب ہوں۔

غرض یہ کہ شاعری کے سلسلے میں سرسید کوئی عملی قدم تو نہ اٹھا سکے کیونکہ وہ خود شاعر نہ تھے۔لیکن انہوں نے شاعری کی اصلاح کے لیے متعدد مشورے دیئے۔انہوں نے جھوٹ اور مبالغے کے خلاف آواز اٹھائی، شاعروں کو نیچرل شاعری کی طرف مائل کیا۔اور انگریزی شاعری کے مضامین کو اردو میں منتقل کرنے کی صلاح دی۔حالی سرسید کے خیالات سے متاثر ہوئے اور ان کے مشوروں کو اپنے تنقیدی افکار کی بنیاد بنایا۔

اردو نثر کے فروغ میں سرسید نے کار نمایاں انجام دیا۔وہ خود صاحب قلم تھے۔ نثرنگاری کے سلسلے میں ان کا کام مشوروں تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے اردو نثر کے بارے میں جو تجاویز پیش کیں پہلے خود ان پر عمل کیا۔انھوں نے اردو میں علمی نثر کی بنیاد ڈالی اور بہت جلد اردو کو اس قابل کردیا کہ اس میں ہر طرح کے مضامین باآسانی پیش کیے جا سکیں۔

اردو نثر کی خرابیوں سے سرسید بخوبی واقف تھے، اردو میں عبارت آرائی کا دستور تھا،مقفیٰ اور مسجیٰ عبارت لکھنے کا چلن تھا۔اس لئے ممکن نہ تھا کہ ہر طرح کے مضامین باآسانی ادا کیے جاسکیں۔اس کے برخلاف سرسید نے بے تکلف اور قلم برداشتہ عبارت لکھنے کا راستہ دکھایا،مدلل اور مربوط طریقے سے بات کہنے کا انداز سکھایا۔انہوں نے خود بہت کچھ لکھا اور دوسروں کو لکھنے کی تربیت دی۔ان کی کوشش سے بہت جلد اہل قلم کی ایک ایسی فوج تیار ہوگی جس نے اردو نثر کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔

تہذیب الاخلاق جاری کرکے سرسید نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔اس کا جاری ہونا تھا کہ سارے ملک میں کہرام سا مچ گیا۔اس کا سبب یہ کہ سرسید ہندوستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کے خواہش مند تھے۔مسلمانوں کی بڑی تعداد اس اصلاح کے سخت خلاف تھی۔سرسید کا کوئی مضمون شائع ہوتا تو ان کے مخالفین اس کا فوری جواب دیتے۔

سرسید پھر اس کے جواب میں مضمون لکھتے اور یہ سلسلہ جاری رہتا۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی مضامین قلم برداشتہ ہی لکھے جا سکتے ہیں۔یہ قلمی جنگ جاری رہی اور اس نے اردو نثر کو توانائی بخشی۔سرسید ہمیشہ کہتے آئے تھے کہ دل سے نکلی ہوئی بات فوراً دل میں اتر جاتی ہے۔انہوں نے بات کہنے کا یہ انداز اختیار کیا تو دوسروں نے بھی اس کی پیروی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو نثر کی دنیا ہی بدل گئی۔آج جو زبان ہم بولتے اور لکھتے ہیں اور جسے جدید اردونثر کہنا چاہیے اس کا پہلا معمار یہی مرد بزرگ تھا!۔