احتشام حسین کی تنقید نگاری

0

حالی کی ‘مقدمہ شعروشاعری’ سے اردو میں تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اور ان کے بعد اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ کی جانے لگی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختصر سے عرصے میں اردو تنقید کا ایک بیش قیمت ذخیرہ وجود میں آگیا۔یہ جن نقادوں کے قلم کا طفیل ہے ان میں ایک اہم نام احتشام حسین کا ہے۔اس لحاظ سے وہ حالی کے بہت نزدیک ہیں کہ حالی ادب میں افادیت کے علمبردار تھے۔احتشام حسین ساری زندگی افادی ادب کے قائل اور ترقی پسند تحریک کے حامی رہے اور اس پر زور دیتے رہے کہ شعر و ادب کا مقصد زندگی کو سنوارنا اور بہتر بنانا ہے۔

پروفیسر احتشام حسین نے جب اردو تنقید کے میدان میں قدم رکھا تو اعلا درجے کی تنقید کے نمونے موجود نہ تھے۔ایک طرف وہ مضامین تھے جو عروض کی غلطیاں نکالنے اور زبان و بیان کی لغزشوں پر گرفت کرنے تک محدود تھے۔دوسری طرف تاثراتی تنقید کے چند نمونے تھے جن کی حیثیت مشاعروں کی واہ واہ سے زیادہ نہ تھی۔ترقی پسند تحریک بھی اس وقت وجود میں آ چکی تھی۔ لیکن ضرورت تھی ایک ایسے نقاد کی جو ادب اور سماج کے رشتے پر گہرائی اور تسلسل کے ساتھ غور کرے۔ یہ خدمت آخرکار احتشام حسین نے انجام دی۔

پروفیسر احتشام حسین کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ادب کے علاوہ جملہ سماجی علوم خاص طور پر تاریخ،سیاست، اقتصادیات اور عمرانیات وغیرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔مزاج میں سنجیدگی ہے، غور وفکر ان کی عادت ہے، ان سب سے مدد لیے بغیر وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچتے۔

لیکن جب کسی فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہایت مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک بار انہوں نے مارکسزم کے راستے کا انتخاب کر لیا تو ساری زندگی اس سے منہ نہیں موڑا۔ان پر کٹر پن اور شدت پسندی کے الزام لگے۔ کہا گیا کہ انہوں نے ایک اٹل عقیدے پر ساری توجہ صرف کردی اور باقی ہر حقیقت کو نظرانداز کردیا مگر سخت سے سخت اعتراضات بھی ان کے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکے۔

کارل مارکس نے اپنی کتاب ‘سرمایہ’ میں جو خیالات پیش کئے تھے احتشام حسین غوروفکر کے بعد انہیں پوری طرح قبول کر لیا اور یہ بات ان کے ذہن میں جاگزین ہو گئی ہیں آج کی دنیا دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف سرمایہ دار ہیں دوسری طرف غریب مزدور اور کسان۔ان میں پہلا طبقہ ظالم ہے اور دوسرا مظلوم۔ایسے میں ادب چپ نہیں رہ سکتا اور شاعروادیب غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔انہوں نے کہا:

“آج تمام شاعروں کا پہلا سماجی فریضہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوجائیں جو دنیا کو بدل دینا چاہتے ہیں انہیں اسی طرح آزادی نصیب ہوسکتی ہے”

گویا وہ شعر و ادب کو زندگی کا خدمت گزار دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کے نزدیک ادب خود کوئی مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد یعنی عوام کے لیے خوشحالی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جو شاعر و ادیب اسے جھٹلاتے ہیں، غیر جانبداری کے دعویدار ہیں اور اپنی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں وہ گمراہ ہیں اور غلط راستے پر چل رہے ہیں۔

یہ خیال احتشام حسین سے اس شاعری کی بھی تعریف کراتا ہے جس سے نعرہ بازی اور پراپیگنڈہ کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔مختصر یہ کہ احتشام حسین صرف اس ادب کو پسند کرتے ہیں جو عوام کی امنگوں کا ترجمان ہو،ان کے مقاصد کو پورا کرے اور ان کی زندگی کو خوشگوار بنائے۔جو ادب اس کسوٹی پر پورا نہ اترے اسے وہ سرمایہ داروں کا آلہ کار اور عوام کی جدوجہد کے خلاف ایک حربہ قرار دیتے ہیں۔ایک جگہ بہت صاف صاف کہا ہے:

“تخلیقی عمل کے سماجی ہونے کی کسوٹی یہ ہے کہ اس سے سماج کو فائدہ پہنچے. محنت کش طبقہ اپنی محنت کا پھل کھائے اور آزادی کی جدوجہد میں اس سے مدد ملے۔شاعری کے تخلیقی ہونے کی کسوٹی یہی ہوسکتی ہے کہ وہ کہاں تک آزادی اور اشتراکیت کی جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہے”

جب بھی شعروادب کی بات چلے گی ٹی ایس ایلیٹ کی یہ بات ضروری یاد ائے گی کے شعر کو سب سے پہلے شعر اور ادب کو سب سے پہلے پہلے ادب ہوناچاہیے۔یہ چیز بات کو دیکھنے کی ہے کہ اس سے عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہوتی ہے یا نہیں او راس سے محنت کشوں کی زندگی میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے یا نہیں۔شعر و ادب میں حسن اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب فنی تقاضوں کو پورا کیا جائے۔

ادب میں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک تو وہ بات جو کہی جارہی ہے، دوسرے وہ انداز جس میں وہ بات کہی جا رہی ہے۔اسی کو موضوع اور اسلوب یا مواد اور ہیئت کہتے ہیں۔اگر فنکار کی زیادہ توجہ پیغام یا خیال پر ہے رہے تو کہا جائے گا کہ توازن قائم نہ رہا اور مواد کو زیادہ اہمیت دے دی گئی۔

اسی طرح اگر اندازبیان پر سارا زور صرف کردیا جائے۔گویا ہیئت کا پلہ بھاری ہو تو یہ بھی عیب ہوگا۔پروفیسر احتشام حسین عالم ہیں اور اس مسئلہ کی باریکیوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔وہ اس راز سے خوب واقف ہیں کہ مواد اور ہیئت کا باہمی تعلق وہی ہے جو جان وتن کے درمیان ہوتا ہے۔دونوں کے درمیان توازن نہ ہو تو اعلی درجے کا ادب وجود میں نہیں آ سکتا۔شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ایک خیال کو جو کسی مادی تجربے پر مبنی ہوں شدت احساس کے ساتھ محفوظ فنی اظہار کے ساتھ پیش کرنا شاعری کہلاتا ہے۔”

احتشام حسین کسی فنپارے کو پرکھنے کے لیے ادبی اور جمالیاتی قدروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے اشتراکیت کو کتنا فائدہ پہنچا اور محنت کشوں کی حمایت میں جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں کتنی مدد ملی۔یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اصول تنقید کے معاملے میں احتشام حسین کا رویہ کتنا ہی سخت اور بےلچک سہی لیکن عملی تنقید میں یعنی جب وہ کسی فن پارے یا فنکار پر تنقید کرتے ہیں تو یہ شدت کسی حد تک کم ہوجاتی ہے اور افادیت کے علاوہ وہ ادب کے دوسرے پہلوؤں کو بھی نظر میں رکھتے ہیں۔

بہرحال اتنا تسلیم کرنا پڑے گا کہ عام طور پر ان کی تنقید یک رخی ہو جاتی ہے اور اردو ادب میں ان کی حیثیت ادب کے پارکھ سے زیادہ مارکسزم کے مبلغ کی قرار پاتی ہے۔اس تحریک کی حمایت انہوں نے بار بار کی ہے جس سے ان کے مضامین میں اکتا دینے والی یکسانیت پیدا ہو گئی ہے۔تمام ترقی پسند شاعروں کو وہ ایک ہی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اسلئے سب میں ایک سی خوبیاں پاتے ہیں۔ان میں سے کسی کی انفرادیت نمایاں نہیں ہوتی۔ لیکن یہ جواب تھا فن پرستوں کی انتہا پسندی کا جو اپنے عہد کے تقاضوں کو مسلسل نظر انداز کرتی آئی تھی۔

پروفیسر احتشام حسین کے تنقیدی مضامین کی ایک بڑی خوبی ان کا سلجھا ہوا، واضح، سنجیدہ انداز بیان ہے۔اس زمانے میں جب نثر کی رنگینی و رعنائی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھا،جب چلتی ہوئی جملوں کو لوگ تنقید کہتے تھے،انہوں نے خالص عملی نثر کو اپنی تنقید کے لئے اپنایا اور صاف ستھری غیر مبہم زبان میں اپنی بات کہی۔یہی وجہ ہے کہ احتشام حسین کا خیال ان کی نثر کے آئینے میں پوری طرح روشن ہو جاتا ہے۔جن لوگوں نے خوبصورت لفظوں اور چست فکروں کا سہارا لیا اور خیال کی تہ دامانی کو نثر کی رنگینی وہ رعنائی میں چپھا دینا چاہا وہ کامیاب نہ ہوسکے۔اس کے برعکس احتشام حسین دھیرے دھیرے اہل علم کے دلوں میں گھر کرنے اور انہیں اپنا ہم خیال بنا لینے میں کامیاب ہو گئے۔

سید احتشام حسین پر انتہا پسندی اور یکسانیت کا الزام غلط نہیں ہے۔دراصل غوروفکر کے بعد انہوں نے اپنی منزل متعین کر لی تھی اور اپنا راستہ چن لیا تھا جس پر وہ ثابت قدمی کے ساتھ آخر وقت تک چلتے رہے۔ان کے زمانے تک تنقید میں ذاتی پسند اور ناپسند ہی سب کچھ تھی انہوں نے اردو تنقید کو معروضیت سکھائی اور اسے مستحکم زمین پر کھڑا کردیا۔انہوں نے ادب اور زندگی کے اٹوٹ رشتے کو سمجھا اور دلیلوں کے ذریعے اس کی اہمیت کو منوایا۔

اہل علم کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش میں انہیں بہت زیادہ لکھنا پڑا۔ان کی کتابوں کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے لیکن ان کی تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لیے جن کتابوں کا مطالعہ ناگزیر ہے وہ ہیں: -ادب اور سماج، تنقیدی جائزے، ذوق ادب اور شعور، روایت اور بغاوت،تنقیدی حاشیے،تنقید اور عملی تنقید،افکار و مسائل،اعتبار نظر،عکس اور آئینے،اردو کی کہانی،اردو ساہتیہ کا اتہاس اور اردو ادب کی تنقیدی تاریخ۔

پروفیسر محمد حسن نے سید احتشام حسین کے تنقیدی کارنامے کو چند جملوں میں بیان کر دیا ہے۔انہی الفاظ پر ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔:

“بڑے ادیب اور نقاد کا کام یہ نہیں ہوتا کہ اس کی رائے اور اس رائے کے ہر لفظ پر الہام کا شبہ ہو اور وقت کی کوئی گردش اور ادب کی کوئی کروٹ بھی اسکی پیغمبرانہ بصیرت سے آگے قدم نہ بڑھا سکے۔اس کا کام تو صرف یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے دور کے ادبی شعور اور تنقیدی بصیرت کو جس حالت میں پایا تھا اس میں کچھ اضافہ کر جائے اور رخصت ہوتے ہوئے چراغوں کی روشنی تیز کردے تاکہ بعد میں آنے والے اسے اپنا چراغ جلا سکیں۔اپنے خیالات سے غوروفکر کی نئی لہریں پیدا کردے اور کاروان ادب کے نئے راہرووں کے لیے نئی منزلوں کا سراغ دے جائے۔احتشام حسین کی تنقید نے یہ اہم کام انجام دیا ہے اور اس طرح انجام دیا ہے کہ ان کے نقوش قدم مدتوں تک میں آنے والوں کے لیے راستے روشن کرتے رہیں گے”