امداد امام اثر کے تنقیدی نظریات

0

سید امداد امام نام اور اثر تخلص کرتے تھے۔ 17اگست 1849 کو ضلع پٹنہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔امداد اثر کے والد کانام سید وحید الدین خان تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی سید محمد محسن بنارسی سے حاصل کی۔ امداد اثر اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے جید عالم تھے۔ عقیدتا وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

امداد امام اثر کم و پیش حالیؔ اور شبلیؔ کے زمانے کے ایک نقاد ہیں جو براہ راست تو سر سید کی تحریک کے زیراثر تشکیل پائے ہوئے تنقیدی نظریات سے متاثر نہیں ہوئے لیکن بعض خیالات کے اظہار میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان ہی خیالات کو دہرا رہے ہیں جن کو حالیؔ اس سے قبل پیش کر چکے ہیں۔

انہوں نے تنقید پر ایک مستقل کتاب چھوڑی ہے جس میں اصولوں کی بحث کم اور عملی تنقید کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ یہ کتاب “کاشف الحقائق” کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی دو جلدیں ہیں۔ اس کتاب میں اردو زبان اور شاعری پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میں امداد امام اثر نے اردو کے مختلف شاعروں کے کلام پر تبصرہ بھی کیا ہے۔

وحید الدین سلیم کی طرح امداد امام اثر نے کسی مستقل کتاب یا مضمون کی صورت میں اپنے تنقیدی نظریات کو پیش نہیں کیا۔ لیکن “کاشف الحقائق” میں جہاں انہوں نے مختلف اصنافِ سخن پر نظر ڈالی ہے وہاں شعر و ادب کے متعلق ان کے خیالات کا پتہ چل جاتا ہے۔

امداد امام اثر شاعری کو ملکی خصوصیات کا حامل اور مقامی روایات کا علمبردار خیال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کا اپنے گردوپیش کے حالات اور چیزوں سے متاثر ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو شاعری فارسی کی تابع رہی ہے۔ ان کے خیال میں تقاضائے ملکی یہی تھا کہ اردو شاعری سنسکرت کی شاعری کا انداز پیدا کرتی ہے۔ چناچہ ‘کاشف الحقائق’ میں اردو شاعری کا جائزہ ہندوستان اور ایران دونوں ملکوں کے سماجی پس منظر میں لیا ہے۔

وہ ہر قوم اور ہر ملک کے لیے شاعری کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری روح کو خوشی بخشتی ہے، شاعری میں وہ خیال اور صورت دونوں کو اہمیت دیتے ہیں صرف لفظی بازی ان کے نزدیک شاعری نہیں۔ ان کے خیال میں شاعری امور ذہنی اور واردات قلبی کا بیان ہے۔ ‘کاشف الحقائق’ میں ہر شاعر کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ شاعری کی انہوں نے دو قسمیں بتائی ہیں ایک داخلی، جس میں شاعر صرف اپنے جذبات و احساسات کی تصویر پیش کرتا ہے۔ دوسری خارجی، جس میں شاعر کائنات کی مختلف چیزوں کے نقشے بناتا ہے۔ ان دونوں کے لئے اظہار کی مختلف صورتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خیال اور صورت کی ہم آہنگی کا شعور بھی ان کے یہاں موجود ہے۔

ان کے خیال میں شاعری کے اندر سادگی اور سلاست کی خصوصیات ہونی چاہیئیں۔ مبالغہ آرائی ان کو پسند نہیں، امور قلبی اور واردات ذہنیہ سے انہوں نے جو مطلب لیا ہے اور ان کے اظہار کے جس طریقے کی طرف توجہ دلائی ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حالی کے یہاں اصلیت اور جوش کا تصور ہے ہے، امام اثر اس کے قائل ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ حالی کے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ تصنع اور بناوٹ کو وہ شاعری کے لئے سم قاتل سمجھتے ہیں۔

امداد امام اثر فن تنقید اور اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ انہوں نے “کاشف الحقائق” ہی میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ “وہ فن جسے انگریزی میں ‘کریٹی سیزم’ کہتے ہیں فارسی اور اردو میں مروج نہیں ہے، یہ وہ فن ہے جو سخن سنجوں کی کیفیت کلام سے بحث کرتا ہے۔”

عملی تنقید میں وہ ان اصولوں کو ضرور پیش نظر رکھتے ہیں جن کو انہوں نے بنایا ہے۔ چنانچہ بعض جگہ وہ اس کا اظہار بھی کرتے چلتے ہیں۔ دردؔ کے بارے میں لکھتے ہیں “خواجہ صاحب کی غزل سرائی تمام تر اس صنفِ شاعری کے تقاضوں کے مطابق پائی جاتی ہے”

یا ذوقؔ کے بارے میں لکھتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں “کوئی شک نہیں کہ ذوقؔ ایک ممتاز شاعر گزرے ہیں لیکن ان کی غزل سرائی غزل کے تقاضوں کے مطابق پورے طور پر نہ تھی”

غرض یہ کہ تنقید کرتے وقت اصول ان کے پیش نظر ضرور رہتے ہیں اور وہ ان سے انحراف نہیں کرتے۔ کہیں کہیں انہوں نے تقابلی تنقید کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔امداد امام اثر نے بعض جگہ اپنی تنقید میں ایسا لہجہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کی تنقید، تنقید نہیں رہتی بلکہ مدح سرائی بن جاتی ہے۔ یہاں ان کی تنقید میں تاثراتی تنقید کی جھلک پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً سوداؔ کے قصیدوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے ایک جگہ یہ انداز اختیار کیا ہے: “یہ وہ اشعار ہیں کہ ہر ملک کے اہل مذاق کو ان کا پسند آنا ایک امر مجبوری ہے، کیا طرز بیان ہے، کیا بندش مضامین ہے، کیا اخلاقی سخن ہے، کیا مرقع سازی ہے، مرحبا صد مرحبا! اے سوداؔ کن لفظوں سے تیری تعریف کروں”

اس کو تنقید نہیں کہا جا سکتا صرف جذبات ہیں۔ ان میں محض تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس میں سوائے لفاظی کے اور کچھ نہیں۔ اس لفاظی کا سلسلہ اکثر جگہ ان کی تنقید میں ملتا ہے۔

امداد امام اثر کی تنقید میں خامیاں بھی ہیں وہ بڑی حد تک تاثراتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں وہ رحجانات ملتے ہیں جو اردو تنقید میں سرسید کے زیر اثر آئے تھے۔ انہوں نے اردو شاعری پر تنقیدی زاویہ نظر سے اس وقت ایک کتاب لکھی جب تنقید کا رجحان عام نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے اردو شاعری کی تمام اصناف سخن کے لئے چند اصول وضع کیے اور پھر ان کی روشنی میں اردو شاعری کے کلام کو دیکھا اس لئے اردو تنقید میں ان کا بھی ایک خاص مرتبہ ہے۔

آخر میں ان کی تمام تصانیف کو پیش کیا جاتا ہے۔
مرآۃ الحکمہ، فسانہ ہمت(ناول)، کتاب الاثمار، کیمیائے زراعت، فوائد دارین، مصباح الظلم، کتاب الجواب معروف بہ مناظر المصائب، معیار الحق، ہدیۂ قیصریہ، رسالہ تعاون، دیوان اثر وغیرہ۔