سید سجاد ظہیر کی تنقید نگاری

0

سید سجاد ظہیر ترقی پسند ادب کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ناول اور افسانے بھی لکھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تنقید کی طرف بھی توجہ کی ہے۔ البتہ وہ پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے کیونکہ ان کی سیاسی مصروفیتوں نے انہیں بہت مصروف رکھا ہے۔ پھر بھی جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس میں عقل و شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ان کے خیالات بڑی سوچ بوجھ کا نتیجہ ہیں۔

تنقید میں انہوں نے ترقی پسند نقطۂ نظر کی پوری طرح وضاحت کی ہے۔ ہمیں ان کی تنقید میں مارکسی تنقید کی جھلکیاں نظرآتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ادبیات بلکہ دنیا بھر کے عوام اور خصوصاً سیاسیات، اقتصادیات اور معاشیات کا مطالعہ غور کیا ہے۔ اس کے اثرات ان کی تنقید میں بھی ملتے ہیں۔

سجاد ظہیر ادب اور زندگی کے ہی آہنگ ہونے کے قائل ہیں اور زندگی ان کے خیال میں معاشی معاشرتی حالات کے مدوجزر کا نام ہے۔ اسی وجہ سے ادب کا ان حالات سے متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ بلکہ ادب انہی حالات و کیفیات کے مدوجزر کا نام ہے لیکن ان میں تخیل و جذبات سے ضرور کام لیا جاتا ہے۔

ان خیالات میں شاعری کا سر چشمہ تجربہ ہے۔ اس کا بنیادی کام ہے تجربہ کا تخیلی خیالات سے لبریز بیان کرکے انسان کے احساسات کی حدود کو وسیع کرنا اور ان کی تعمیری محنت و کاوش کو دلچسپ بنانے کے لیے محنت کی جانب رغبت کرنا۔

ظاہر ہے کہ وہ ایسے تجربات کو شاعری سمجھتے ہیں جو تخیل و جذبات کی آمیزش کے ساتھ پیش کئے جائیں۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ حالات کو زیادہ بہتر بنائے کہ کلچر ترقی کر سکے۔

شاعری کے موضوعات کو وہ بہت وسیع سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں زندگی کے تمام بدلتے ہوئے حالات کو اس کا موضوع بننا چاہیے۔ ایک مضمون میں اشتراکی شاعروں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:

“آپ تو اشتراکی ہیں، آپ کے لیے سارا جہاں ہے، انقلاب کے بےشمار آثار ہیں۔سویت، روس کا ہر کارخانہ آپ کا ہے، وہاں کی لال فوج کے جانباز آپ کے ساتھی ہیں۔۔۔۔” غرضیکہ وہ اس قسم کے تمام موضوعات کو شاعری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

سجاد ظہیر ادب کے مقصد ہونے کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں اس مقصد کی نوعیت سماجی ہونی چاہیے۔ وہ صرف یہ کافی نہیں سمجھتے کہ شاعر قوم کو جگانے کا پیغام دے بلکہ ان کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو جگانے کا بہترین طریقہ بھی استعمال کرنا چاہیے۔ لکھتے ہیں “ایک شاعر کے لیے صرف اس بات کا احساس کافی نہیں کہ قوم خوابیدہ ہے اور اسے جگانا چاہیے۔ جگانے کا بہترین طریقہ کیا ہے یہ بھی اسے دیکھنا ہے۔ گویا آرٹ اور آرٹسٹ کے سامنے ایک واضح نصب العین ہونا چاہیے ض۔ اس کے صحتمند اور صحت بخش ادب وجود میں نہیں آسکتا۔

ان کے خیال میں ادیب کو صرف اپنی تحقیقات ہی کے ذریعے انقلاب کے پیغام نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کشمکش میں عملی حصہ لینا چاہئے۔ گویا وہ ادیب کو عوام میں مدغم کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ خیال بھی اشتراکی اثرات کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس قسم کے خیالات رکھنے کے باوجود وہ ادب کے فنی پہلوؤں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ “شاعر کا پہلا کام شاعری ہے، وعظ دینا نہیں۔ اشتراکیت و انقلاب کے اصول سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھنے کے لئے کتابیں موجود ہیں، اس کے لئے نظمیں ہم کو نہیں چاہئیں۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے ض۔ اگر وہ اپنا تمام سازوسامان، تمام رنگ وبو، تمام ترنم و موسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لائے گا، اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈاپن ہوگا، ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے میں قاصر ہوگا تو اچھے خیال کا وہی حشر ہوگا جو دانے کا بنجر زمین میں ہوتا ہے۔

اگر ایسا نہ ہو تو وہ شاعری شاعری ہی نہیں کہی جاسکتی۔ وہ ادبی روایات کو بھی بڑی عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اپنی دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے سجاد ظہیر تنقید کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کرسکے۔ ان کی تنقیدی تحریریں مقدار میں بھی بہت کم ہیں اور جو خیالات انہوں نے پیش کیے ہیں ان پر بھی کہیں تفصیل اور گہرائی کے ساتھ بحث نہیں کی ہے۔ پھر بھی ان میں عقل و شعور کا پتہ ضرور چلتا ہے۔ انہوں نے تنقید کے نقطۂ نظر سے اردو کو روشناس کیا ہے۔