رس کا نظریه

0

سنسکرت ادب مین ڈرامے کو سب سے اونچا مقام حاصل رہا ہے۔ہندوستان میں تنقید کی روایت کا آغاز سنسکرت کے رس کے نظریے سے ہوتا ہے۔یہ نظریہ بھرت منی نے پیش کیا تھا۔بھرت منی کا کہنا تھا کہ کرداروں کے عمل اور مکالمات کی اثر انگیزی کا تعلق جذبات کی پیشکش اور مختلف طرح کی بھاؤ کی تعریف سے پیدا ہوتا ہے۔

سنسکرت ناقدین نے رس کے نظریے کو ڈرامے یا شاعری میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ انسان جب کوئی تخلیق پڑھتا ہے تو وہ مختلف طرح کے احساسات اور جذبات سے متاثر ہوتا ہے۔سنسکرت تنقید کی ابتدا بھرت کے ‘ناٹیہ شاستر‘ سے ہوتی ہے۔تنقیدی نقطہ نظر سے بھرت نے رس کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ سنسکرت جمالیات کی بنیاد بن گیا۔

رس کا نظریہ مصنف کے نقطہ نظر سے فن پر غور کرنے کے بجائے کاری کے نقطہ نظر سے فن پر غور کرتا ہے۔سنسکرت جمالیات نے انسان کے بنیادی جذبات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔جس طرح انسان کے خواص کو پانچ حصوں میں خواص خمسہ میں تقسیم کیا گیا ہے اسی طرح انسان کے پورے جذباتی نظام کو سنسکرت جمالیات نے’نو رس‘ کی شکل میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر فن پارہ اپنے پڑھنے والے کو کسی نہ کسی طرح متاثر ضرور کرتا ہے اسی کے مطابق اس کی تاثیر اور اس کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔

بھرت نے رس کی آٹھ قسمیں بتائی ہیں۔بعض علماء ان کی تعداد گیارہ بتاتے ہیں لیکن زیادہ لوگوں کا اتفاق نو پر ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  •  شرنگار رس
  • ہاسیہ رس
  • کرن رس
  • رودر رس
  • ویر رس
  • بھیانک رس
  • ویبھتس رس
  • ادبھت رس
  • شانت رس
  •  شررنگار رس:-اس رس کو عشق اور رومان کے معنی میں لیا جاتا ہے۔اس رس کی ظاہری و باطنی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ان تمام داخلی و خارجی خصوصیات کو شرنگار رس میں پیش کیا جاتا ہے جن کا تعلق عشق محبت سے ہوتا ہے۔
  •  ہاسیہ رس:-یہ رس مزاح سے متعلق ہے اور ہنسنے ہنسانے کا کام کرتا ہے۔اس رس کا بنیادی مقصد مزاح پیدا کرکے تفریح کا سامان مہیا کرنا ہوتا ہے۔اس رس کی مثالیں اکبر الہ آبادی اور پطرس بخاری کے یہاں ملتی ہیں۔
  •  کرن رس:-یہ رس دکھ اور درد کی عکاسی کرتا ہے۔یہ جذبہ انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے۔جب انسان پر اچانک مصیبتوں اور پریشانیوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے تب کرن رس کا احساس ہوتا ہے۔مایوسی،دکھ،درد، غم، مصیب اور پریشانی جیسے احساسات وجذبات اس رس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
  •  رودر رس:-ہی رس غصے کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس قسم کے جذبے سے کی وجہیں پیدا ہوتی ہیں اور لوگ غصے میں کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔اس کا استعمال زیادہ تر ڈراموں میں ہوتا ہے۔اس جذبے کو پیش کرنے والا کردار کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے،غصے سے اس کی آنکھیں لال ہوجاتی ہیں، ماتھے پر پسینہ آتا ہے اور لوگ لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کو رودر رس کہا جاتا ہے۔
  • ویر رس:-اس رس کے ذریعے جوش، ہمت، جذبے اور بہادری جیسی خصوصیات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
  • بھیانک رس:-اس جذبے کو خوف سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔سنسکرت کے دانشوروں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے اس ہرن کی مثال دی ہے جو اپنا تعاقب کرتے ہویے شکاریوں کو دیکھ کر پوری رفتار سے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے کہ کہیں کوئی تیر اس کو زخمی نہ کردے۔
  • ویبھتس رس:-یہ رس مایوسی سے تعلق رکھتا ہے۔اس قسم کے رس سے مایوسی کے جذبے کو جنم ملتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ دوبارہ اس چیز کی خواہش نہیں رکھتا۔
  • ادبھت رس:-نقادوں اور ادیبوں نے اس جذبے کو خیرانگی کے نام سے بھی منسوب کیا ہے۔اس جذبے کا ظاہری اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا ہے جیسے ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور کبھی ایسی حالت میں آنکھوں سے آنسوں بھی جاری ہو جاتے ہیں اسی کیفیت کو حیرانگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
  • شانت رس:-اس جذبے کا تعلق سکون قلب سے ہے۔یعنی یہ رس انسان کے اطمینان و سکون کے جزبے کو ظاہر کرتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ‘رس کے نظریے’ سے سنسکرت کے دانشوروں نے یہ بتانے کی کوشش کی کے انہی نو رسوں سے انسان کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بھی سنسکرت میں نظریے ملتے ہیں ہیں ہیں جن میں ‘دھونی کا نظریہ‘ اور ‘النکار‘ کے نظریے کو اہمیت حاصل ہے۔اس طرح سنسکرت شعریات و نظریات میں رس کے نظریے کے ساتھ ساتھ دھونی اور النکار کے تصورات بھی قابل ذکر رہے ہیں اور انہی کے اصولوں کے مطابق فن پارے کا تجزیہ یا تنقیدی نظر یہ پیش کیا جاتا رہا ہے۔

‌‌