فراق گورکھپوری کی تنقید نگاری

0

رگھوپتی سہائے نام، فراق تخلص ١٨٩۶ء گورکھ پور میں پیدا ہوئے ابتدائ تعلیم گھر پر ہوئ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد ایک تعلیم یافتہ شخص تھے۔ وکالت کا پیشہ تھا اور شعر و شاعری میں بھی خاصا شغف تھا۔ عبرت تلخص کرتے تھے اس طرح اس کا اثر فراق پر بھی پڑا پر والد کی شاعری سے کہیں آگے فراق کی آواز اردو شاعری میں بیسیوی صدی کی ایک منفرد آواز بن کر ابھری جس نے چند ہی سال میں قبول عام حاصل کر لیا۔

فراق نے اپنی شاعری کا محور روشِ عام سے ہٹ کر چنا اور اسے اپنی شاعری کے ذریعے فروغ دینے کی بھر پور کوشش کی جس کوشش نے غزل گوئی کو ایک نیا موڑ عطا کیا
فراق کا نام اردو شاعری مین رہتی دنیا تک یاد کیا جائے گا
فراق کا ١٩٨٢ء میں دہلی میں انتقال ہوا۔۔

فراق کا فن تنقید

فراق اس اعتبار سے بھی منفرد و ممتاز شخصیت ہیں جو بیک وقت شاعر اور نقاد دونوں شمار کیے جاتے ہیں فرمان فتح پوری اپنی کتاب (جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری) میں فراق کے متعلق لکھتے ہیں ؛ کہ “حالی اور فراق کے سوا کوئ بھی بیک وقت اپنے عہد کا ممتاز شاعر اور ممتاز ناقد نہ بن سکا”۔۔
فراق کو تنقید کا شغف کیسے پیدا ہوا یہ ان کے زمانے کے ممتاز تنقید نگاروں سے تعلقات استوار ہونے کی وجہ سے تھا کہ فراق کا ذوق تنقید چمکا ابتداء میں مجنون گورکھ پوری سے اچھے تعلقات قائم ہوئے جس کی وجہ سے فراق تنقیدی مضامین لکھتے رہے۔ اس کے بعد نیاز فتح پوری سے تعارف ہوا اور قربت بڑھی تو ذوق تنقید اور بھی نکھر آیا پھر کیا تھا؟ کوئی سات، آٹھ برس میں سات، آٹھ سوصفحات پر مشتمل مضامین اکھٹے ہو گئے۔


فراق کی تنقید تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں انگریزی تنقید کا فراق پر کافی اثر ہے۔ اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ” اندازے “کے پیش لفظ میں فراق کہتے ہیں۔ “مجھے اردو شعر کو اس طرح سمجھنے اور سمجھانے میں بڑا لطف آتا ہے، جس طرح یوروپین نقاد، یوروپین شعرا کو سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ادب کی مشرقیت اجا گر ہو سکتی ہے اور آفاقیت بھی۔ میری رائے میں نقاد کو یہ کرنا چاہئے کہ تنقید پڑھنے والے میں بیک وقت لالچ اور آسود گی پیدا کر دے۔ اسی کے ساتھ ساتھ حیات کے مسائل، کائنات اور انسانی کلچر کے اجزاء و عناصر کو اپنی تنقید میں سمو دے”۔۔

“اردو کی عشقیہ شاعری” فراق کی اردو شاعری پر ایک تنقیدی کتاب ہے جس میں انہوں نے اپنے تنقیدی میلانات کا اظہار خیال کیا ہے اور اپنی تنقیدی رائے پیش کی ہے۔

حاشیے” بھی فراق کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جہاں انہوں نے اپنی ذہنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تنقیدی تفکرات کا اظہار خیال کیا ہے۔۔

“اردو غزل گوئی” جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ فراق نے اس (تنقیدی کتاب) میں کس قدر غزل گوئی پر عمدہ تبصرہ کیا ہوگا اور کس انداز، طرز ادا اور لب و لہجہ کو استعمال کیا ہوگا اس کا اندازہ کتاب پڑھ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ فراق خود کو غزل گوئی کے میدان کا شہسوار سمجھتے تھے اور اب واقعی سمجھے بھی جاتے ہیں۔۔

ایک شعر میں فخریہ طور پر اس کا اظہار کرتے ہیں کہ

ختم ہے مجھ پہ غزل گوئی ِ عہد حاضر

دینے والے نے وہ اندازِ سخن مجھ کو دیا

فراق کا فن شاعری

شاعری میں فراق کی پسند سب کو چھوڑ کر غزل تھی اور اسی کو اپنا محبوب مشغلہ بھی بنائے رکھا جس کے سبب فراق نے اردو غزل کو لا زوال شہرت بخشی غزل کی محبوبیت اتنی غالب تھی کہ غزل کے بارے میں یہاں تک کہہ گیے ؛ “غزل شاعری نہیں عطر شاعری ہے” فراق کا یہ بیان کسی حد تک ممکن بھی ہے کہ غزل جس میں ہم اپنے جذبات و احساسات، تخیلات و تفکرات اور اپنے وارداتِ قلبی کے رجحانات اور اپنے ذہنی شعور کی تکنیک بروئے کار لا کر پیش کرتے ہیں تو وہ کسی حد تک شاعری کی جان بھی ضرور ہوگی اور کچھ ایسے ہی امتیازات غزل اردو شاعری میں رکھتی ہے اسی لیے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے فراق کہتے ہیں؛ کہ “غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے” اور یہ بات بلکل حقیقت ہے کہ غزل میں جتنے موضوع سموئے جائیں کم پڑ جائیں گویا غزل اردو شاعری کا ایک بحر بے کنار ہے جس کی وسعت و گہرائ میں اتر پانا ممکن نہیں

پر پھر بھی فراق نے غزل میں نت نئے موضوعات شامل کیے اور وسعت الفاظ کو ایک انوکھی جگہ دی اور اپنی شاعری کو ایسا ہمہ گیر بنایا کہ ان کی ذات بھی ہمہ شخصیت کی حامل ہو گیی جس سے آج بھی غزل کی دنیا میں فراق کا نام ایک خوبصورت امتزاج کا مالک ہے

فراق غزل کی خوبصورتی میں اور چار چاند لگاتے ہوئے غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؛ کہ “غزل مختلف پھولوں کی مالا ہے” جب کہ یہی غزل بعض کے نزدیک نیم وحشی صنف سخن ہے تو کسی کے نزدیک اس کی اصلاح تمام اصناف سخن میں بہت ضروری ہے آل احمد سرور نے بھی غزل کی گردن پہ چھری رکھنے سے گریز نہیں کیا جب کہ شمس الرحمن فاروقی “تحفۃ السرور”میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں؛ کہ “آل احمد سرور اس وقت اردو کے سب سے بڑے نقاد اور دانشور ہیں” غزل کے متعلق سرور صاحب کہتے ہیں؛ کہ غزل بڑی کافر صنف ہے اور جمیل جالبی نے بھی اس پہ اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے غزل کو بڑی ظالم صنف سخن سے یاد کیا اور عظمت اللہ خاں تو یہاں تک کہہ گیے کہ “غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینی چاہیے” پر یہ سب کا اپنا اپنا خیال ہے جب کہ رشید احمد صدیقی کہتے ہیں؛ کہ “غزل میرے نزدیک سب سے محبوب تر ہے” اور غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہتے ہیں اور فراق اسے کہیں مختلف پھولوں کی مالا تو کہیں عطر شاعری سے تعبیر کرتے ہیں

بہت سے نقاد اور شاعروں نے بھی فراق کو شاعری کا اہم ستون تسلیم کیا ہے۔ مرزا واجد حسین یگانہ جو غالب کو اپنے سامنے کچھ نہیں رکھتے اور کہتے تھے؛ کہ “میں ٹھوکر مارتا ہوں ایسی عزت کو جو غالب پرستی کے صدقے ملے” وہ بھی فراق کو اردو غزل میں ایک مہتم بالشان غزل گو شاعر تسلیم کرتے ہیں جب کہ یگانہ کی شاعری بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جب کسی مشاعرے میں یگانہ کہ آمد ہوتی تو پورا مجمع لوگوں سے پُر ہو جاتا یگانہ غزل میں فراق کو اہم ستون سمجھ کر کہتے ہیں؛ کہ “دنیا سے جاتے ہوئے غزل کو میں فراق کے ذمہ کیے جا رہا ہوں

فراق کی ابتدائ شاعری کا جائزہ لیا جائے تو سب کا یہ ماننا تھا کہ فراق کی شاعری کچھ دیر کے لیے ہے بس جس کے بعد اس کا نام و نشاں اور اس کے ساتھ ہی اس کا دور شاعری بھی ختم ہو جائے گا مگر فراق کی شاعری کا سوز و گداز، اس کی چاشنی اور دلکش طرز ادا اور ان کے وسیع مطالعات و مشاہدات دیکھ کر سب یہ کہنے پر مجبور ہو گیے کہ “یہ دور فراق کا دور ہے” محمد حسن عسکری اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ کہ “دس سال کے عرصے میں فراق کی شاعری اور تنقید نے اردو پڑھنے والوں کی طبیعت اور ان کے ذوق بلکہ طرز احساس کو بدل کر رکھ دیا ہے” اور یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ فراق کی شاعری اپنے اچھوتے اسلوب بیاں اور حسن و عشق کی پُرکاری سے لبریز نظر آتی ہے ایک جگہ محمد حسن عسکری نے فراق کو ایک مکمل ادارے کی حیثیت دے کر ان کی شان کو دوبالا کرتے ہوئے لکھا ہے ؛ کہ “فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر لی ہے”

اور عسکری کے اس قول کی صداقت کو سمجھنے کے لیے فراق کی مکمل شاعری جو ہزارہا صفحات میں موتیوں کی طرح بکھری ہوئ ہے گہرا مطالعہ کرکے طرز ادا کا اندازا لگا کر سمجھی جا سکتی ہے۔۔۔

علم و ادب میں فراق کو ھندی و سنسکرت اور انگریزی ادب سے خاصا دلچسپی تھی کہ الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم ۔اے کیا اور بعد کو اسی میں انگریزی ڈپارٹمینت کے پروفیسر بھی رہے اور ١٩۵٨ء کو ریٹائر ہوئے۔


فراق نے اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی ادبیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ سنسکرت ادبیات سے براہ راست فیضیاب نہ ہوئے ہوں لیکن سنسکرت کی ادبی روایات سے ان کی واقفیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ممکن ہے کہ ان روایات تک وہ ہندی شاعروں کبیر، جائسی، تلسی، میرا اور سورداس کے غایر مطالعہ کے ذریعے پہونچے ہوں۔ انگریزی ادب کا استاد ہونے کے ناطے انہوں نے کلاسیکی اور جدید سبھی انگریزی ادبی دبستانوں سے اکتساب فیض کیا ہے ڈاکٹر محمد حسن کا کہنا ہے کہ فراق کولرج اور ورڈزورتھ کے نظام اقدار سے بہت دور نہیں”

فراق نے اردو شاعری میں بے بہا کارنامے چھوڑے ہیں جن میں ان کے بہت سے شعری مجموعے ان کی یاد تازہ کرتے ہیں پچھلی رات، چراغاں، گل نغمہ، نغمہ ساز، شعلہ ساز، شعرستان، غزلستان اور روح کائنات وغیرہ نہایت مقبول شعری مجموعے ہیں ایک جگہ محمد حسن عسکری فراق کی شاعری کے بارے میں اپنا تاثر دیتے ہوئے لکھتے ہیں؛ کہ “شاعر تو شاعر عام پڑھنے والوں کے شعور میں فراق کی شاعری رچتی چلی جا رہی ہے ” عہد فراق شاعری کے لحاظ اپنے تمام مشمولات میں ایک ممتاز عہد ہے اسی لیے کلیم الدین احمد فراق کی غزل گوئی کو اردو شاعری کا ایک اہم حصہ سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں؛ کہ “میں فراق کو اردو غزل کا ایک اہم ستون تسلیم کرتا ہوں” فراق کی ہمہ گیر شخصیت ہر دور کے شاعر کے نزدیک مسلم ہے۔۔۔

فراق کی شاعری میں ایک خصوصیت بہت اہم پائ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے عام طور سے شاعری میں اپنے اساتذہ کی شاعری کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنا الگ راستہ اپنایا اور یہی خصوصیت ان کے قبول عام کا سبب بنی اگر فراق کی شاعری کو دیکھیں تو سرعت شعر بیانی میں مصحفی کے گرویدہ نظر آتے ہیں جو فوری طور پر بہت کچھ لکھ دیتے ہیں اور پھر نظر ثانی کی فرصت مشغولیت کی وجہ سے ہاتھ نہیں آتی جو کلام کی غیر معتدلیت کی طرف لیے جاتا ہے

فراق نے اپنی غزل کا اصل محور عورت کو رکھا ہے جس کے نشیب و فراز اور خد وخال خوبیاں نت نئے انداز اور پُر لطف طریقے سے بیان کرتے ہیں۔۔

وہ تمام روئے نگار ہے، وہ تمام بوس و کنار ہے

وہ ہے چہرہ چہرہ جودیکھئے، وہ جو چومیے تو دہن دہن

اشعار میں ہیں عارض و کاکل کے وہ جلوے

ہاں دیکھ کبھی تو مری غزلوں کی شبِ ماہ

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

فراق سے ایسے ہی بڑی بڑی ہستیاں متاثر نہیں ہوئیں بلکہ ان کے فکری تخیل اور بلند قامت ہمہ گیر عقل و خرد کو دیکھ کر ہی ہر فرد ان سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اسی لیے محمد حسن نے فراق کو “اردو ادب کا جانسن“کہا جس طرح جانسن اپنے زمانے میں انگریزی ادب کا منفرد اور عدیم المثل شاعر رہا ہے یہی حال فراق کا بھی ہے کہ اپنے عہد کے شعراء میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ محمد حسن نے فراق کو “اردو شاعری کا آسکر وائلڈ” کہا ہے

جمالیات پرستی، جسمانیت میں روحانیت کی تلاش اور حسن مذہب و عشق بنا لینا،فراق کو اگر ایک طرف آ سکر وائلڈ سے ملا تو دوسری طرف قدیم ہندی ادب کی روایات کا فیض ہے۔
ڈاکٹر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون “فراق کا طرز احساس” میں اسی بات کو یوں کہا ہے۔ “فراق ہندوستانی ہیں اور اردو شاعری کی روایت کے با شعور وارث، اس لئے فراق کے کلام میں یہ رچاؤ ایک طرف ہندو آرٹ سے آیا جس میں پیکر تراشی مادی کثافت سے روحانی لطافت پیدا کرنے کی کوشش روایت کا جز بن چکی ہے اور دوسری طرف اردو کے شعری ورثے سے جسمیں داخلیت، سپردگی اور لہجے کی نرمی کو درجہ امتیاز حاصل ہے”۔۔۔

فراق کی غزل گوئی کے علاوہ ان کی نظم گوئ کا بھی اب بادیُ النظر سے مطالعہ کرتے ہیں کہ فراق نے غزل کے ذریعے بہت کچھ کہ ڈالا پر پھر بھی کچھ چیزیں ایسی تھیں جس میں فراق کو نظم کا سہارا لینا پڑا اور غزل کی طرح اس میں بھی شہرت حاصل کی۔

“تلاش حیات” فراق کی یہ نظم بتاتی ہے کہ وطن میں آزادی کے بعد کیسا خوشگوار موسم رچا بسا تھا اور مادر وطن پر کیسی کیفیات طاری تھیں ان کو اتنے پر لطف انداز میں نظم کے ذریعے بیان کیا ہے جو غزل کے ذریعے ممکن نہ تھا

ہند کے گھونگھٹوں تلے
کتنی سہانی آگ ہے
صبح کو ماں کے ماتھے پر
آج نیا سہاگ ہے

آدھی رات کو” یہ نظم دوسری جنگ عظیم کے تعلق سے لکھی ہے جو ایک اہم نظم ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں انہوں نے جنگ عظیم کے حالات کے بجائے اپنے تاثرات پیش کیے ہیں

سیاہ پیٹر ہیں اب آپ اپنی پر چھائیں
زمیں سے تامہ و انجم سکوت کا مینار

زمانہ کتنی لڑائی کو رہ گیا ہو گا
مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہو گا

فراق کی ایک خوبصورت اور المیہ نظم “جگنو” ہے اس میں ایک بیس سالہ نوجوان کے غم کی عکاسی کی جس کی ماں کا انتقال اسی دن ہو گیا تھا جس دن وہ پیدا ہوا تھا۔

مری حیات نے دیکھی ہیں بیس بر ساتیں
مرے جنم ہی کے دن مر گئی تھی ماں میری

“ھنڈولہ ” اس نظم میں فراق نے اپنے بچپن کے احوال و کوائف اور اپنے جذبات قلم بند کیے ہیں

میرے مزاج میں پنہاں تھی ایک جدلیت

رگوں میں چھوٹتے رہتے تھے بے شمار انار

“داستان آدم” فراق کی یہ نظم ایک تاریخی نظم ہے جس میں انہوں نے ما قبل تاریخی دور سے آج تک کے انسانی تاریخی، تدریجی اور انقلابی ترقی پر روشنی ڈالی ہے

القصہ زمانے کو پڑی اس کی ضرورتب

بٹ جائے گی طبقوں میں انسان کہ ملت

تہذیب بڑھے اس لئے وہ جن کی ہے کثرت
گردن پہ جواں بار غلامی کا دھریں گے
ہم زندہ تھے ہم زندہ ہیں ہم زندہ رہیں گے

“پرچھائیاں” فراق کی یہ نظم ان کے جمالیاتی اور ان کے عشقیہ احساس کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔

یہ چھب یہ روپ یہ جو بن یہ سج دھج یہ لہک
چمکتے تاروں کی کرنوں کی نرم نرم پھوار
یہ رسمساتے بدن کی اٹھان اور یہ ابھار
فضاء کے آئینے میں جیسے لہلہائے بہار
کیف و رنگ نظارہ یہ بجلیوں کی لپک

فراق نے بہت سی رباعیاں بھی کہی ہیں “روپ” فراق کی جمالیاتی رباعیوں کا مجموعہ ہے تقریبا ۴٢۰ سے زیادہ رباعیات کہیں ہیں

ایک رباعی دیکھئے :

لہرائی ہوئی شفق میں اوشا کا یہ روپ
یہ نرم دمک مکھڑے کی سج دھج ہے انوپ
تیرا بھی اڑا اڑا سا آنچل زر تار
گھونگھٹ سے وہ چھنتی ہوئی رخساروں کی دھوپ

شاعری میں فراقؔ کی غزل اور ان کی رباعی کاانداز سب سے الگ ہے ۔ انہوں نے رباعی کی صنف کو ہندوستانی ثقافت کا ترجمان بنادیا۔

فراق جمالیاتی احساس کے شاعر ہیں۔ عشق کی جمالیات سے لے کر انقلاب کی جمالیات تک فراق کی شاعری سبھی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔