ادبی تنقید کے اصول

0

ادبی تنقید کے اپنے اصول اور ضوابط ہیں جن کا احاطہ کرنے کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہوتی ہے۔ یہاں اس مضمون میں نہایت اختصار کے ساتھ ان کا ذکر کیا جا رہا ہے اور دو تین صفحوں میں صرف اس کی گنجائش بھی ہے۔
فن پارے کو دو پہلوؤں سے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔۔اس میں کیا پیش کیا گیا ہے، اور کس طرح پیش کیا گیا ہے۔اس کیا؟ اور کیسے؟ کے لئے ہماری زبان میں دو نام موجود ہیں۔۔۔’مواد اور ہیئت’۔ ان دونوں کا آپس میں جان و تن کا رشتہ ہے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن فن پارے کو سمجھنے اور سمجھانے اور اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لیے نقاد انھیں الگ الگ کر کے دیکھنے پر مجبور ہے۔

ادبی تنقید کا پہلا کام یہ دیکھنا ہے کہ فن پارے میں جو تجربہ پیش کیا گیا ہے یا یوں کہیے کہ جو جذبہ یا خیال سمویا گیا ہے اس کی کیا اہمیت ہے۔جو بات کہی گئی ہے وہ معمولی اور فرسودہ ہے یا تازہ اور فکر انگیز!۔
ادبی تنقید کا اگلا قدم یہ دیکھنا ہے کہ فنکار اپنے تجربے کو پر اثر انداز میں پیش کر سکا ہے یا نہیں۔کیونکہ پیشکش کا اندازہ ہی وہ شے ہے جو کسی فن پارے میں دلکشی پیدا کرتا ہے اور اس کے لیے فنکار کو متعدد فنی وسائل سے کام لینا پڑتا ہے۔

جس طرح مصور اپنے تجربے کو رنگوں کے ذریعے پیش کرتا ہے اسی طرح شاعر یا ادیب اپنے خیالات وجذبات کو لفظوں کے ذریعے پیش کرتا ہے۔لفظ ہی اس کا میڈیم یعنی ذریعہ اظہار ہوتے ہیں۔شعر و ادب محض لفظوں کا کھیل نہیں لیکن ادب پارہ الفاظ اور انکی موزوں ترتیب سے ہی وجود میں آتا ہے اس لئے یہی ادبی تنقید کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔

ادبی تنقید کے کئی ایسے دبستان ہیں جو ادب کو کسی خاص نظریے کی روشنی میں جانچتے ہیں۔کوئی یہ دیکھتا ہے کہ اس سے کسی خاص نظریے مثلا اشتراکیت کا پرچار ہوتا ہے یا نہیں، کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ اس سے مذہب یا اخلاق کی تعلیم ملتی ہے کہ نہیں،کسی کو ادب سے عہد و ماحول کی عکاسی کی توقع ہوتی ہے۔بعض علمائے ادب نے شاعر کو ان چیزوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے۔مگر اصل بات یہ ہے کہ شعر و ادب میں نظریے کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ادبی تنقید یہ دیکھتی ہے کہ ادب واقعی ادب ہے بھی کہ نہیں۔

ادبی تنقید اس محنت اور کاوش کو بھی نظر میں رکھتی ہے جو کسی فن پارے پر صرف ہوئی ہے۔فنکار کی محنت سے ہم اکثر بے خبر ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اسکی تخلیق کتنی تراش خراش کے بعد ہم تک پہنچی ہے۔مسودے نہ مل جاتے تو کون جان سکتا تھا کہ ولیم بلیک کی سادہ سی شاعری اور شیکسپیئر کے ڈراموں کی نوک پلک کتنی بار سنواری گئی ہے اور اقبال نے ایک ایک مصرعے کو چالیس چالیس بار بدلا ہے۔اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ادب الہام نہیں، شعوری کوشش اور فنکار کی محنت و کاوش کا ثمرہ ہوتا ہے۔

یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ادب پارے کی ترسیل ہوئی ہے یا نہیں،یعنی وہ پڑھنے یا سننے والے تک پہنچا بھی ہے یا نہیں۔ہیگل نے کہا ہے کہ جب فنکار اپنے تجربے کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے تبھی فن وجود میں آتا ہے۔یہ البتہ درست ہے کہ علمی نثر کی خوبی وضاحت و صراحت ہے تو افسانہ و شاعری میں ابہام سے حسن پیدا ہوتا ہے۔شرط یہ کہ ابہام اس درجے کو نہ پہنچے کہ تخلیق پہیلی بن کے رہ جائے۔

ادبی تنقید کے لیے بے تعصبی اورغیرجانبداری بہت ضروری ہے۔نقاد منصف مزاج نہ ہو تو وہ تنقید کا حق ادا نہیں کر سکتا۔وہی ادب پارہ قابل قدر ہے جو زمان ومکاں کی حدود سے بلند ہوکر ابدی اورآفاقی ہوجائے۔

تنقید کا حق صحیح معنوں میں اسی کو ہے جس کا مطالعہ وسیع اور نظر گہری ہو۔کلیم الدین احمد کے الفاظ میں نقاد کو جس ساز و سامان کی ضرورت ہے وہ علم کی مختلف شعبوں کے بہترین خیالات سے آگہی ہے۔یہ نہیں کہ وہ ہر فن مولا ہو،وہ سارے علوم میں مہارت رکھتا ہو۔یہ ناممکن سی بات ہے لیکن یہ تو اس کے بس کی بات ہے کہ وہ بہترین خیالات،تازہ ترین اور فرحت بخش تصورات سے واقفیت بہم پہنچائے۔