مشرقی تنقید

0

عربی اور فارسی کی پرانی تنقید کو مشرقی تنقید کے نام سے جانا جاتا ہے۔شروع شروع میں شاعری کی قدروقیمت کا اندازہ علم معانی،علم عروض اور علم قافیہ سے لگایا جاتا رہا ہے۔اسی حوالے سے تنقید میں بحث و مباحثے بھی ہوتے رہے ہیں۔علم معانی کے اہم مباحث فصاحت،بلاغت اور محاورہ وغیرہ ہیں۔علم بیان میں تشبیہ، استعارہ اور کنایہ وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔

عربی تنقید کی روایت میں حسن الفاظ اور حسن معنی پر زور دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ شاعری میں لفظ اور معنی میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاتی ہے۔کسی نقاد نے لفظ پر زور دیا اور کسی نے معنی پر توجہ دی۔لحاظ لفظ اور معنی کی یہ بحث بہت پرانی ہے۔اسی لیے بعض ناقدین نے کہا ہے کہ شاعرانہ حسن کا دارومدار معنی پر نہیں ہوتا بلکہ لفظ پر ہوتا ہے۔اسی وجہ سے شاعر لفظوں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیتا ہے۔

عرب کے ناقدوں نے معنی کی قدروقیمت کو بھی الفاظ کے شانہ بشانہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی اصول نقد میں لفظ اور معنی پر خاص توجہ دی گئی ہے۔اس لیے عام طور پر اس دور کے نقادوں نے اسی پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے اور لفظ و معنی کے اعتبار سے ہی شاعری کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔

عربوں میں زمانہ قدیم سے ادبی تنقید کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ طائف کے نزدیک عکاظ میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا جہاں ماہرین فن اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے دار پاتے تھے۔یہاں شاعری کو بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا۔دور دراز سے آئے ہوئے شاعر اپنے اپنے قصیدے سناتے اور جو قصیدہ سب سے زیادہ داد کا مستحق ہوتا اسے سنہری حروفوں میں لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

عربی ادب کے ان قدیم نمونوں سے عربی معیار ادب کا سراغ مل جاتا ہے۔اس زمانے کی عربی تنقید خاصی متوازن تھی۔یہ نہ تو موضوع کو نظرانداز کرتی تھی نہ اسلوب کو ۔یعنی ضروری تھا کہ شعر میں جو بات کہی جائے وہ اہم ہو اور کہنے کا انداز دل نشین ہو۔

عربوں کی شاعری کے ابتدائی عہد میں بھی موضوع اسلوب کے درمیان توازن موجود تھا۔قدیم عربی شاعری کی خصوصیات میں صداقت،سادگی و سبق آموزی اور ساتھ ہی زبان و بیان کی دلکشی پائی جاتی تھی۔قدیم شعراء عرب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ موضوع اسلوب کی ہم آہنگی اور بات کہنے کا دل نشین انداز اسی وقت ممکن ہے جب شعر کی تکمیل پر غیر معمولی توجہ صرف کی جائے۔دیر تک اس پر غور ہو اور بار بار اس کی نوک پلک سنواری جائے۔عرب کا ایک مشہور شاعر زہیر ایک ایک قصیدے پر سال سال پر محنت کرتا تھا اور اسی لئے اپنے قصیدے کو”سال بھر کی کمائی“کا نام دیتا تھا۔

دور جاہلی اور آغاز اسلام کے شعرا کا کلام صناعی اور رعایت لفظی سے پاک ہے۔حسان بن ثابت اچھے شعر کی تعریف یہ کرتا تھا کہ ‘جب سنا جائے تو لوگ کہہ اٹھے سچ کہا ہے’ حضرت عمر نے زہیر کو سب سے بڑا شاعر کہا اور اس کے کلام کی یہ خوبیاں بیان کیں کہ اس میں پیچیدگی نہیں ہوتی،الفاظ نامانوس نہیں ہوتے اور جب وہ کسی کی تعریف کرتا ہے تو وہ خوبیاں گناتا ہے جو واقعی اس میں پائی جاتی ہیں۔

عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے عربوں کی زندگی میں ایک انقلاب آ چکا تھا۔ان کی زندگی کی ایک اہم خصوصیت– سادگی باقی نہ رہی تھی۔ امیروں اور درباروں کا زمانہ تھا۔خوشامد،مصلحت اور تصنع اب عربوں کی زندگی میں بھی داخل ہوگئے تھے۔شاعری کا رنگ بھی بدل چکا تھا۔یہ تبدیلی ناگزیر تھی کیونکہ پرانے موضوعات کب تک ساتھ دیتے۔

اس لئے ضروری ہوا کہ انداز بیان کا سہارا لے کر ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جائے۔دوسرے عربوں کی بدلی ہوئی زندگی بھی بدلے ہوئے طرز کلام کی متقاضی تھی۔چنانچہ حقیقی واقعات اور فطری جذبات کی جگہ تخیل کی کارفرمائی نے لے لی یعنی عربی شعراء معنی آفرینی اور بات میں بات پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔شاعری میں صنعت گری اور لفظی کار گری عام ہوئ۔اب معنی کی اہمیت کم اور اسلوب کی زیادہ ہوگی۔

درباروں میں علوم وفنون کی قدر تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونانی علوم بھی ترجموں کے ذریعے عربوں تک پہنچ گئے۔ان کتابوں میں ارسطو کی بوطیقا بھی تھی۔یونان اور عرب کے شعر و ادب میں بہت فرق تھا۔بوطیقا میں جن اصناف ادب پر تنقید کی گئی ہے،عرب ان سے ناواقف تھے۔لہذا اس تصنیف کا کوئی زبردست اثر تو نہیں پڑا لیکن تنقید کا ذوق بہرحال پیدا ہوا۔اب عربی ادب میں باقاعدہ تنقید کا آغاز ہوگیا۔

جن نقادوں نے عربی تنقید کے اصول وضع کیے اور عربی ادب کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا ان میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔محمد بن سلام العجمی،ابن قتیبہ،عبداللہ ابن المعتز،قدامہ ابن جعفر،ابن رشیق،ابن خلدون،جاحظ،ابو ہلال عسکری،عبدالقادر جرجانی وغیرہ۔

طبقات الشعراء” کا مصنف محمد بن سلام العجمی عربی کا پہلا نقاد ہے۔وہ شاعری کو صنعت گری قرار دیتا ہے۔ابن قتیبہ شعر گوئی کے لیے شعوری کاوش اور تراش خراش کو ضروری بتاتا ہے۔وہ ان شاعروں کو سراہتا ہے جو اپنے شعروں پر مسلسل غور کرتے اور ان کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ابن قتیبہ کی تنقید میں توازن پایا جاتا ہے۔فن کو اہمیت دینے کے باوجود وہ معنی کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔

وہ اچھے اور برے کے اعتبار سے شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔اس کے نزدیک عمدہ شعر وہ ہے جس میں لفظ اور معنی دونوں اعلی درجے کے ہوں۔دوسرے نمبر پر وہ شعر آتے ہیں جن میں لفظ اچھے اور معنی بے مصروف ہوں یا معنی عمدہ اور لفظ ناقص ہوں۔سب سے پست درجے کا شعر وہ ہے جس میں نہ لفظ اچھے ہو نہ معنی۔

قدامہ ابن جعفر نے حسن کاری کو شعر کے لیے ضروری قرار دیا۔اور اخلاقی تعلیم کے نظریے کو رد کیا۔اس نے اپنی تصنیف “نقدالشعر” میں لکھا ہے:

“طرز بیان شعر کا اصلی جزو ہے۔مضمون و تخیل کا بجائے خود فاحش ہونا شعر کی خوبی کو زائل نہیں کرتا۔شاعر ایک بڑھئی ہے۔لکڑی کی اچھائی برائی اس کے فن پر اثر انداز نہیں ہوتی”

قدامہ نے جھوٹ کو شاعری کے لیے ضروری بتایا۔اس نے کہا بہترین شعر وہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔مراد یہ کہ مبالغے کے بغیر اعلی درجے کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔

عربی تنقید میں اگلا اہم نام ابن خلدون کا ہے۔اس نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں شعر و ادب کے مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔سب سے پہلے تو اس نے یہ بتایا ہے کہ اہل عرب ہمیشہ شاعری کے قدردان رہے ہیں۔اور عرب معاشرے میں شاعر کو ہمیشہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔اس کے بعد موضوع اور اسلوب کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ابن خلدون اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ معنی الفاظ کے تابع ہیں۔

باتیں تو ہرایک کے ذہن میں موجود ہیں انہیں لفظوں میں منتقل کرنا اور شعر کے قالب میں ڈھالنا ہی شاعر کا کمال ہے۔پھر وہ اپنی بات کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتا ہے۔اس مثال کا ہمارے ادب میں کافی چرچا رہا ہے۔کہتا ہے معانی پانی کی مانند ہیں اور الفاظ پیالے کی مانند۔پانی تو ایک ہی ہے پیالہ بدلتا رہتا ہے کہیں سونے کا ہے، کہیں چاندی کا، کہیں سیپ یا‌ کانچ کا تو کہیں مٹی کا اور اسی کے ساتھ پانی کی حیثیت بدلتی رہتی ہے۔مطلب یہ کہ الفاظ بہرحال اہم ہیں۔

عربی تنقید کے آغاز و ارتقا پر غور کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قدیم عربی شاعری کا اصل سرمایا قصائد کی شکل میں ہے۔لیکن اردو قصیدے کی طرح عربی قصیدہ کی دنیا محدود نہیں۔ان میں عربوں کی پوری زندگی سمٹ آئی ہے۔جس چیز نے ان قصیدوں کو لافانی بنا دیا وہ عربوں کا نکھرا ہوا تنقیدی شعور ہے۔سرعام مقابلے کے سبب جانچنے اور پرکھنے کے عمل،گویا فن تنقید نے جس طرح عربوں میں فروغ پایا اس کی نظیر عالمی ادب میں کم ہی ملے گی۔

قدیم شعراء عرب کی اصل توجہ معنی کی طرف رہتی تھی۔لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ معنی جان ہے تو الفاظ قالب۔اور قالب بگڑا تو جان کی خبر نہیں۔مطلب یہ کہ وہ اسلوب کی طرف سے غافل نہ تھے لیکن نظر معانی پر ہی رہتی تھی۔اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ بات زیادہ واضح اور زیادہ پر اثر ہو جائے۔دوسری بات یہ کہ صداقت عربوں کو بہت عزیز تھی وہ کوئی ایسی بات کہنا یا سننا پسند نہ کرتے تھے جو سچ سے دور ہو۔

بحثیت مجموعی عربی تنقید نگار ادب کے افادی اور اخلاقی پہلو پر زور دیتے رہے۔

Mock Test 6

مشرقی تنقید 1