تنقید اور تخلیق کا رشتہ

0

تخلیق اور تنقید آپس میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔کیونکہ ایک تخلیق کار بنیادی طور پر تنقید نگار بھی ہوتا ہے۔اسی لیے وہ تخلیقی عمل کے دوران تنقیدی شعور سے بھی کام لیتا ہے۔تخلیق اور تنقید اصل میں دو الگ الگ شعبے ہیں۔تخلیق ایک فن ہے اور تنقید کسی بھی فن پارے کا تجزیہ کرنا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تنقید دراصل کسی بھی فن پارے کو پڑھنے کی طرف ہمیں راغب کرتا ہے۔تخلیق کار تخیل سے کام لیتا ہے اور اسی کی روشنی میں کسی بھی تخلیقات کا تجزیہ کرتا ہے۔بعض نقاد نے تنقید کو ‘Recreation’ بھی کہا ہے۔تنقید نگار اسی طرح فن پارے کو سمجھتا ہے جس طرح فنکار نے تخلیق کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے تنقیدی شعور کے بغیر اچھا فن پارہ جنم نہیں لے سکتا۔

تخلیق کا تنقید سے گہرا رشتہ ہے اس کا جسمانی اور روحانی رشتہ ہے۔اس لئے ایک فنکار جب کوئی تخلیقات پیش کرتا ہے تو اسے بار بار لکھ کر خوب سے خوب تر کی تلاش کرتا ہے۔تنقید کا بنیادی کام معلومات فراہم کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت مختلف نظریات سے کام لیتا ہے اور اسطرح تنقید میں نئے نئے دبستان کی شروعات ہوتی ہے۔نقاد کا بنیادی کام صرف خوبی اور خامی پیش کرنا نہیں بلکہ وہ تخلیق کی بازیافت بھی کرتا ہے۔عام طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب زندگی کا عکاس ہے اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نقاد بھی انہی زندگی کے مسائل کو مختلف علوم کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔ایک تخلیق کار اپنے اندر جو معلومات اور تنقیدی شعور رکھتا ہے اسی کی بنیاد پر وہ فن پارا پیش کرتا ہے۔ایک نقاد ہی فن پارے کی تفہیم اور تعبیر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ مختلف رجحانات اور نظریات کو بھی پیش کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تنقید میں بھی الگ الگ دبستان قائم ہوتے ہیں۔مثلا نظریاتی تنقید، نفسیاتی تنقید، جمالیاتی تنقید، مارکسی تنقید، ترقی پسند تنقید وغیرہ۔

تخلیق اور تنقید دونوں ایک دوسرے کے لیے اس لئے ضروری ہیں کیونکہ ان کی حیثیت جسم وجان کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک تخلیق کار تنقیدی شعور کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔اس لئے تنقید کو ایک علم بھی کہا گیا ہے اور ایک فن بھی۔

ادب میں تنقید کی کار فرمائی اسی وقت شروع ہوجاتی ہے جب فنکار کے ذہن میں کسی فن پارے کی داغ بیل پڑنے لگتی ہے۔گویا تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ تنقیدی عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ایک مفکر نے کہا ہے کہ جب بت تراش کوئی مورت بنانے کے لئے چھینی ہتھوڑا سنبھالتا ہے تو اس سے پہلے وہ مورت اس کے ذہن میں مکمل ہوچکی ہوتی ہے اسی طرح کوئی شاعر نظم لکھنے کو قلم اٹھاتا ہے تو نظم کا خاکہ اس کے ذہن میں تیار ہو چکا ہوتا ہے۔یہ کام تنقیدی شعور کے بغیر ممکن نہیں۔تنقیدی شعور ہی شاعری کی رہنمائی کرتا ہے، کہ نظم کیسے شروع ہو، کس طرح آگے بڑھے، اور کہاں ختم ہو۔غرض یہ کہ جب کوئی فن پارہ فنکار کے ذہن میں جنم لیتا ہے تو یہیں سے تنقید اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔اور جب وہ فن پارہ ظاہری شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو تنقید کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔

تنقید نگار کا کام بہت پیچیدہ ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع اور نظر گہری ہو۔اسے بہت سے علوم سے مدد لینی پڑتی ہے۔اس لئے تمام اہل علم سے اسے آگاہی ہونی چاہیے۔کہا گیا ہے کہ نوجوان کو تنقید نگار نہیں ہونا چاہیے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کم علم اور کم تجربہ رکھنے والا تنقید کا حق ادا نہیں کر سکتا۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تنقید نگار کے ایک ذہن میں بہت سے ذہنوں کی صلاحیتیں جمع ہونی چاہئیں ورنہ وہ تنقید سے انصاف نہ کرسکے گا۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کا آپس میں باہمی رشتہ ہے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ ایک تخلیق کار ایک نقاد بھی ہوتا ہے۔لیکن ایک نقاد تخلیق کار بھی ہو یہ ضروری نہیں۔تنقید نگار فلسفیانہ مباحث کے ذریعے تخلیق کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نقاد کا درجہ کسی طرح سے بھی ایک تخلیق کار سے کم ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔اسی لیے ٹی- ایس- ایلیٹ نے اسے جسم وجان سے تعبیر کیا ہے۔