پروفیسر قمر رئیس کی تنقید نگاری

0

پروفیسر قمر رائس اردو تنقید میں پریم چند اور افسانوی ادب کے ماہر کی حیثیت سے معروف ہیں۔وہ اردو نثر، ناول و افسانہ اور خاص طور پر پریم چند کی تصانیف کے مطالعے میں منہمک رہے ہیں اور انہیں کو بطور خاص انہوں نے غور و فکر کا موضوع بنایا ہے۔چنانچہ اس سلسلے کے جو تنقیدی مضامین ان کے قلم سے نکلے ہیں انھیں اردو تنقید میں استناد کا رتبہ حاصل ہے۔انہوں نے شروع ہی میں اپنے میدان کار کا انتخاب کرلیا تھا جس سے باہر انھوں نے کم ہی قدم نکالا، گو نکالا ضرور۔شعری اصناف پر بھی ان کے متعدد مضامین موجود ہیں جو مصنف کے انہماک،غوروفکر اور نقط نظر کی گواہی دیتے ہیں۔

عصری ادب اور ادب کے جدید رحجانات میں قمر رئیس شروع سے دلچسپی لیتے رہے ہیں۔یہ بڑا دشوار گزار میدان ہے یہاں ذاتی پسند و ناپسند سے مفر آسان نہیں۔نا پسندیدگی کے اظہار میں تلخی نہ ہو یہ اور بھی مشکل ہے۔قمر رئیس نے معاصر ادب کا مطالعہ غیر جانبداری مگر ہمدردی کے ساتھ کیا ہے۔اس کی خوبیوں کو سراہا ہے، خامیوں پر گرفت کی ہے مگر اعتدال و توازن کو کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

ڈاکٹر قمر رئیس کا نام مارکسی نقادوں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے خود بھی اس دبستان سے وابستگی کا اعتراف کیا ہے جسے سماجیاتی دبستان کا نام دیا جاتا ہے۔وہ تسلسل کے ساتھ اس پر زور دیتے رہے ہیں کہ شعر و ادب نہ نوائے سروش ہے نہ نصابِ اخلاق مگر اس کی جڑیں سماج میں پیوست ہیں۔ادب کی تخلیق ایک سماجی فعل ہے اور ادب سماجی حقیقت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔صنفی تقاضوں کے مطابق کہیں ان حقائق کا واضح اظہار ہوتا ہے تو کہیں ان کی کارفرمائی موج تہ نشیں کی طرح نظروں سے پنہاں رہتی ہے۔اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے تلاش و توازن کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
“میرے نزدیک ہر ادبی تخلیق خواہ وہ کسی بھی باطنی تجربے یا داخلی کیفیت کا اظہار ہو اور اس کا پیرایۂ بیان کتنا ہی نازک اور تہ دار ہو،کسی نہ کسی سماجی صورتحال کا عکس ہوتی ہے اور صرف عکس ہی نہیں وہ اس پر تبصرہ بھی ہوتی ہے،اس کی تفصیر بھی اور تنقید بھی۔اگرچہ یہاں اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے تامل نہیں کہ شعر و ادب میں سماجی عنصر ایک متحرک انسانی وجود کے واسطے سے اس کی منفرد شخصیت اور مخصوص طبی میلانات کا جزو بن کر اور فنی تخلیق کے مراحل سے گزر کر سامنے آتا ہے۔اس لیے ادب کے مطالعے میں سماجی اور تاریخی عوامل کے ساتھ ساتھ فنکار کی شخصیت کے تشکیلی عناصر اور داخلی محرکات کا مطالعہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔”
اس اقتباس سے ڈاکٹر رئیس کے نظریہ ادب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ان کا نقطۂ نظر نہایت متوازن ہے اور تنقید میں ادب کے ہر پہلو پر ان کی نظر رہتی ہے مگر ان کے یہاں سماجی عنصر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔وہ ادب کو ایک سماجی فعل مانتے ہیں اور اسی لیے ترسیل و ابلاغ کو ادب کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔وہ ادب جو قاری کی سمجھ میں نہ آ سکے ان کے نزدیک اس کا وجود و عدم برابر ہے۔انہیں شکایت ہے کہ فنکاروں کی نئی نسل نے قاری کو نظر انداز کردیا بلکہ کبھی کبھی تو اس کے سلسلے میں حقارت کا رویہ اختیار کیا۔باز ناقدوں کا خیال ہے کہ تخلیق کو اتنا سہل اور ایسا عام فہم ہونا چاہئے کہ اس سے قاری کے ذہن پر بوجھ نہ پڑے۔اس کے برعکس دوسری طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ فنپارے کو سمجھنا قاری کی ذمہ داری ہے۔فنکار قاری سے بے نیاز ہے اور اس کی سطح تک اترنا فنکار کے فرائض میں شامل نہیں۔ڈاکٹر رئیس یہ ذمہ داری فنکار اور قاری دونوں کے کندھوں پر ڈالتے ہیں۔ان کی رائے ہے کہ اردو کا قاری نئے تجربوں اور نئے ذہنی اور جذباتی رویوں سے نہ تو بیزار ہے نہ انہیں سمجھنے سے قاصر۔کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس کے ادبی ذوق کی پرورش جن زندہ روایات و جس ماحول میں ہوئی ہے نئے تجربے اسی کی آغوش سے پھوٹیں۔یہ نہیں کہ ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے مغرب کی تہذیب اور مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے۔فنکاروں کی نئی پود نے جس طرح ادب کو چیستاں بنا دیا اسے وہ گمراہی خیال کرتے ہیں۔ڈاکٹر رئیس نے اپنے ان خیالات کو ایک سے زیادہ جگہ نہایت متانت کے ساتھ پیش کیا ہے کیوں کہ سنجیدگی، توازن اور نرم گفتاری ان کی مزاج کا حصہ اور ان کی تنقید کا خاصہ ہیں۔’تلاش و توازن’ کے دیباچے میں انھوں نے لکھا تھا:
“کتاب کا نام ‘تلاش و توازن’ میرے تنقیدی مطبح نظر کے اساسی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔تلاش و تفحص کا جذبہ میرے نزدیک تنقید کا نقطہ آغاز ہے”
اسی احساس توازن اور جذبہ تفحص نے ڈاکٹر قمر رئیس کو تنگ نظری اور انتہا پسندی سے دور رکھا اور ان اقدار کی تلاش پر مائل کیا جن سے فن کو ابدیت و آفاقیت حاصل ہوتی ہے جہاں انہوں نے موضوع و مواد کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا وہیں زبان و بیان کی لطافتوں اور رمز و کنائے کی نزاکتوں کو بھی سراہا اور فن کے اعلی نمونوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا۔
ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر قمر رئیس کی تنقید کو “سماجیاتی تنقید” کے زمرے میں جگہ دینا قرین انصاف نہیں،اس کی اصل جگہ ساینٹئفک تنقید میں ہے۔ان کے مضامین سے متعدد اقتباس اوپر پیش کیے گئے ہیں جن سے ہماری اس رائے کی تائید ہوتی ہے کہ ان کی نثر واضح، شفاف اور سلجھی ہوئی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت دلآویز بھی ہے۔