سبق بھوت خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • سبق ” بھوت ” از ” شفیق الرحمن”

سبق کا خلاصہ:

سبق “بھوت” شفیق الرحمن کی یاداشتوں کا حصہ ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارا چپراسی بیمار ہو گیا اوراس کی ڈیوٹی مجھے سونپی گئی۔ اس کی بیماری خاصی عجیب تھی۔صبح کہتا ہے نمونیہ ہو گیا۔ شام کو کہتا ہے نہیں سرسام تھا۔ کبھی کہتا کہ باؤلا کتا کاٹ گیا تھا۔ اسے ثابت کرنے کے لئے اس نے کتے کے بھونکنے کی نقل بھی اتاری۔ پھر رستم نے اسے بتایا کہ اس مرض میں مریض مر جاتا ہے۔ لیکن بھونکتا ہر گز نہیں، چنانچہ اس نے مرض فوراً بدل لیا۔ یہ مرض تپدق مالیخولیا خون کے دباؤ زکام وغیرہ سے ہوتا ہوا آسیب پر آ کر رکا۔

آخر میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس پر کسی بھوت کا سایہ ہے۔شام کو جب میں باورچی خانے میں بیٹھا تھا رستم بھی وہاں موجود تھا اور بھوتوں کے قصے ہونے لگے۔رستم نے بتایا کہ اس نے خواب میں بھوت دیکھا۔ اسے دیکھ کر بھوت نے اس کا پیچھا کیا اور جب رستم نے بھاگ کر دروازہ بند کیا تو بھوت دیوار میں سے نکل آیا۔ایک دفعہ رستم نے بتایا کہ وہ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کھیت کے راستے میں قبرستان بھی پڑتا تھا اور شمشان بھی۔

ایک دفعہ کیا ہوا کہ میں رات کو کھیت میں پانی لگانے جا رہا تھا کہ شمشان سے میرے پیچھے ایک بھوت ہو لیا۔ دیکھنے میں وہ بالکل انسانی روپ میں تھا۔ اس نے مجھے کچھ نہیں کہا بس میری تقلیں اتارنے لگا میں ڈر سے کانپنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بھی کانپ رہا ہے۔ میری گھگھی بندھی۔ اس کی بھی گھگھی بندھ گئی ۔وہ پیر صاحب کے پاس گیا تو پیر صاحب نے کہا کہ تم اس مردود بھوت سے کام کیوں نہیں لیتے ہو.آخر اس نے بھوت سے خوب کام کروائے جب وہ اس کے قریب آنے لگا تو پیر صاحب کے مشورے سے رستم نے بھوت سے پیچھا چھڑانے کے لیے کچھ یوں کیا کہ شام کو اس نے دو گڑھے کھو دے۔

ایک میں خوب انگارے دہکائے دوسرا یونہی رہنے دیا۔ دونوں پر ایک ایک اینٹ جمائی اور اوپر سے راکھ چھڑک دی۔ رات کو وہ آیا۔ میں نے اس سے خوب کام لیا ہے پھر میں نے انگڑائی لی۔ اس نے بھی انگڑائی لی۔ میں بولا ۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے۔ وہ اسی طرح بولا۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے . میں راکھ ہٹا کر ٹھنڈی اینٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے بھی اسی طرح کیا۔ دہکتی ہوئی اینٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور جو وہاں سے غائب ہوا ہے تو پھر کبھی نہیں آیا۔

“باورچی نے بتایا۔ جہاں میں پہلے ملازم تھا وہاں حویلی میں ایک بھوت رہتا تھا عمر اس سے کوئی ڈرتا ہی نہ تھا۔ بچے تک اس کا مذاق اُڑاتے ۔ جب وہ ڈرانے کی کوشش کرتا تو اسے جھڑک دیا جاتا کہ کیوں بیکار شور مچا رہے ہو۔ ناحق اپنا وقت بھی ضائع کر رہے ہو اور ہمارا بھی۔ کبھی کبھی اسے چائے کی دعوت دی جاتی۔ بھوت رات گئے میرے پاس آتا اور اپنی اس درگت پر آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتا۔ سب سے زیادہ غم اسے اس بات کا تھا کہ قاعدے کی رو سے اس سے سب کو ڈرناچاہیے تھا اور یہ کہ بحیثیت ایک بھوت کے اسے نہایت ظالم اور سخت دل ہونا چاہیے تھا۔

اس نے کی مرتبہ خود کشی کی کوشش بھی کی۔ آخر میں نے ایک روز سنا کہ بیچارہ کہیں شرم سے سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔ایسا ہی ایک بھوت چپراسی کو بھی ہوا تھا۔ کیونکہ وہ بیماری کا جھوٹ بولتا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولنے کی عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا میں جھوٹ ایک نہایت اہم چیز ہے۔ اس کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ اب تم جھوٹ بولتے ہو تو تمہیں تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے۔

آہستہ آہستہ یہ افسوس غائب ہو جائے گا اور تم بے دھڑک کھلم کھلا جھوٹ بولا کرو گے۔ صبح سے جو جھوٹ بولنا شروع کرو گے تو شام تک سراسر جھوٹ بولو گے۔ حیوانوں سے جھوٹ بولو گئے انسانوں سے جھوٹ بولو گے۔ یہاں تک کہ خدا سے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کرو گے۔” چپراسی بھی ایسا ہی کر رہا تھا کہ دوسروں کی غیر موجودگی میں وہ ورزش تک کرتا مصنف ایک دفعہ علی اصبح اُٹھے۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے ہیں تو مریض صاحب کمرے میں ورزش کررہے ہیں۔ چھلا میں لگائی جا رہی ہیں۔ ڈنٹر پہلے جا رہے ہیں۔ ہم نے اندر جاکر ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ مولانا یا تو آج صبح سے اپنا ٹیلی فون وہ نالائق طوطا اور ملاقاتیوں کو سنبھالو۔ ورنہ ہم سب سے کہہ دیں گے۔ آدمی سمجھ دار تھا۔ فورا تندرست ہو گیا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے ۔

چپراسی کی بیماری کس قسم کی تھی ؟

اس کی بیماری بھی عجیب سی تھی۔ صبح کہتا ہے نمونیہ ہو گیا۔ شام کو کہتا ہے نہیں سرسام تھا۔ کبھی کہتا کہ باؤلا کتا کاٹ گیا تھا۔ اسے ثابت کرنے کے لئے اس نے کتے کے بھونکنے کی نقل بھی اتاری۔ پھر رستم نے اسے بتایا کہ اس مرض میں مریض مر جاتا ہے۔ لیکن بھونکتا ہر گز نہیں، چنانچہ اس نے مرض فوراً بدل لیا۔ یہ مرض تپدق مالیخولیا خون کے دباؤ زکام وغیرہ سے ہوتا ہوا آسیب پر آ کر رکا۔ آخر میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس پر کسی بھوت کا سایہ ہے۔

رستم نے بھوت کہاں دیکھا اور اُسے دیکھ کر بھوت نے کس قسم کی حرکات کیں؟

رستم نے خواب میں بھوت دیکھا۔ اسے دیکھ کر بھوت نے اس کا پیچھا کیا اور جب رستم نے بھاگ کر دروازہ بند کیا تو بھوت دیوار میں سے نکل آیا۔ایک دفعہ رستم نے بتایا کہ وہ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کھیت کے راستے میں قبرستان بھی پڑتا تھا اور شمشان بھی۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ میں رات کو کھیت میں پانی لگانے جا رہا تھا کہ شمشان سے میرے پیچھے ایک بھوت ہو لیا۔ دیکھنے میں وہ بالکل انسانی روپ میں تھا۔ اس نے مجھے کچھ نہیں کہا بس میری تقلیں اتارنے لگا میں ڈر سے کانپنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بھی کانپ رہا ہے۔ میری گھگھی بندھی۔ اس کی بھی گھگھی بندھ گئی ۔

پیر صاحب نے رستم کو کیا مشورہ دیا ؟

پیر صاحب نے کہا کہ تم اس مردود بھوت سے کام کیوں نہیں لیتے ہو.

رستم نے بھوت سے پیچھا چھڑانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟

رستم نے بھوت سے پیچھا چھڑانے کے لیے کچھ یوں کیا کہ شام کو اس نے دو گڑھے کھو دے۔ ایک میں خوب انگارے دہکائے دوسرا یونہی رہنے دیا۔ دونوں پر ایک ایک اینٹ جمائی اور اوپر سے راکھ چھڑک دی۔ رات کو وہ آیا۔ میں نے اس سے خوب کام لیا ہے پھر میں نے انگڑائی لی۔ اس نے بھی انگڑائی لی۔ میں بولا ۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے۔ وہ اسی طرح بولا۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے . میں راکھ ہٹا کر ٹھنڈی اینٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے بھی اسی طرح کیا۔ دہکتی ہوئی اینٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور جو وہاں سے غائب ہوا ہے تو پھر کبھی نہیں آیا۔“

باورچی نے یہ کیوں کہا کہ ”بھوت رات گئے میرے پاس آتا اور اپنی اس درگت پر آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتا؟

باورچی نے بتایا۔ جہاں میں پہلے ملازم تھا وہاں حویلی میں ایک بھوت رہتا تھا عمر اس سے کوئی ڈرتا ہی نہ تھا۔ بچے تک اس کا مذاق اُڑاتے ۔ جب وہ ڈرانے کی کوشش کرتا تو اسے جھڑک دیا جاتا کہ کیوں بیکار شور مچا رہے ہو۔ ناحق اپنا وقت بھی ضائع کر رہے ہو اور ہمارا بھی۔ کبھی کبھی اسے چائے کی دعوت دی جاتی۔ بھوت رات گئے میرے پاس آتا اور اپنی اس درگت پر آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتا۔ سب سے زیادہ غم اسے اس بات کا تھا کہ قاعدے کی رو سے اس سے سب کو ڈرناچاہیے تھا اور یہ کہ بحیثیت ایک بھوت کے اسے نہایت ظالم اور سخت دل ہونا چاہیے تھا۔ اس نے کی مرتبہ خود کشی کی کوشش بھی کی۔ آخر میں نے ایک روز سنا کہ بیچارہ کہیں شرم سے سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولنے کی عادت کیا صورت اختیار کر جاتی ہے؟

وقت کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولنے کی عادت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا میں جھوٹ ایک نہایت اہم چیز ہے۔ اس کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ اب تم جھوٹ بولتے ہو تو تمہیں تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ افسوس غائب ہو جائے گا اور تم بے دھڑک کھلم کھلا جھوٹ بولا کرو گے۔ صبح سے جو جھوٹ بولنا شروع کرو گے تو شام تک سراسر جھوٹ بولو گے۔ حیوانوں سے جھوٹ بولو گئے انسانوں سے جھوٹ بولو گے۔ یہاں تک کہ خدا سے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کرو گے۔”

چپراسی کس طرح صحت یاب ہوا؟

مصنف ایک دفعہ علی اصبح اُٹھے۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے ہیں تو مریض صاحب کمرے میں ورزش کررہے ہیں۔ چھلا میں لگائی جا رہی ہیں۔ ڈنٹر پہلے جا رہے ہیں۔ ہم نے اندر جاکر ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ مولانا یا تو آج صبح سے اپنا ٹیلی فون وہ نالائق طوطا اور ملاقاتیوں کو سنبھالو۔ ورنہ ہم سب سے کہہ دیں گے۔ آدمی سمجھ دار تھا۔ فورا تندرست ہو گیا۔
فرض کریں کہ کوئی جن آپ کی زندگی میں آگیا ہے اور جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ بھی وہی کرتا ہے۔ آپ

اس سے کون کون سے کام کروانا پسند کریں گے؟

اگر میری زندگی میں کوئی جن آ جائے تو میں اس سے خوب سارا گھر کا کام کرواؤں گی جیسے کہ کپڑے دھونا ، صفائی اور برتن وغیرہ دھونا اس کے بعد اس سے شاپنگ کرواؤں گی۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

الفاظ جملے
شمشان شمشان گھاٹ میں لوگوں کا ہجوم لگا ہوا تھا۔
گھگھی بندھنا بھوت کو دیکھ کر میری گھگھی بندھ گئی۔
پٹی پڑھانا علی نے احمد کو پٹی پڑھائی ہے کہ وہ مکمل اس کے اشارے پہ چلتا ہے۔
فلک شگاف ہجوم نے پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرہ بلند گیا۔
آٹھ آٹھ آنسو رونا ہماری ملازمہ اپنی غربت کی داستان سناتے ہوئے آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے۔
علی الصبح مجھے علی الصبح کام پہ جانا ہے۔
بے دھڑک اجنبی بے دھڑک میں گھر میں داخل ہو گیا۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مندرجہ ذیل بیماریاں کسی قسم کی ہیں اور ان میں کیا کیا علامات ظاہر ہوتی ہیں:۔

نمونیہ نمونیہ پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے نمونیہ کی پہلی علامات میں سے عام طور پر نزلہ یا زکام ہوتی ہیں۔ اس کے ےبعد اس شخص کو تیز بخار اور سردی لگتی ہے اور منہ میں تھوک کے ساتھ ساتھ کھانسی بھی آتی ہے۔
سرسام سرسام ورم ہے خواہ ورم گرم ہو یا سرد، لیکن بعض اطباء نے سرسام کو ورم گرم کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ورم ایک غیر طبعی زیادتی ہے جو مادہ فضلیہ سے پیدا ہوتی ہے اور عضو میں ایسا تمدد پیدا کر دیتی ہے جو اس کے افعال میں ضرر پہونچانے لگتا ہے، {جو دماغ کی دونوں جھلیوں میں سے کسی ایک جھلی میں ایک ساتھ پیدا ہوتا ہے} دونوں جھلیوں میں سے ایک تو وہ باریک جھلی ہے جو دماغ سے لپٹی ہوئی ہے (ام رقیق) اور دوسری وہ موٹی جھلی ہے جو کھوپڑی کے اندرونی جانب لگی ہوئی ہے (ام غلیظ، غشاء صلب)۔یا خاص دماغ میں پیدا ہوتا ہے۔
تپدق تپ دق جس کو عام طور پر ٹی بی کہا جاتا ہے ایک وبائی بیماری ہے جو ایک جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بہت زیادہ تھکاوٹ اور کمزوری کا ہر وقت محسوس ہونا۔ بھوک میں بہت کمی، کچھ بھی کھانے کا دل نہ کرنا۔ بہت زیادہ سردی کا محسوس ہونا اور بخار کا ہونا۔ تین ہفتوں سے زیادہ آنے والی کھانسی یا بلغم کا آنا۔
مالیخولیا مالیخولیا وہ مرض ہے جس میں مریض کے خیالات فاسد ہو جاتے ہیں۔ اس میں خوف اور بدگمانی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی عادتیں بدل جاتی ہیں۔ فضول اور بیہودہ حرکات کرتا ہے، عقل سے بے بہرہ ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے انسانیت کے شرف کو کھو بیٹھتا ہے۔ ہیلوسینیشنز ، ڈیلیوزن ، خیالات کا بے ربط ہونا ، ڈپریشن اور دماغی کمزوری وغیرہ مالیخولیا کی علامات ہیں۔
خون کا دباؤ خون کے دباؤ کو بلڈ پریشر بھی کہا جاتا ہے یہ اس دباؤ کا نام ہے جس کا سامنا دل کو اپنے سکڑتے اور پھیلتے وقت خون کی نالیوں کی مذاحمت کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ عام سمجھ کی بات ہے کہ خون کی نالیاں جتنی تنگ ہونگی خون کو ان میں سے گزرتے وقت اتنی ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی علامات بہت زیادہ پسینہ بہنا؛ چکر آنا؛ سینے کا درد؛ نظر دھندھلانا وغیرہ ہیں۔
زکام زکام ایک وائرس ہے جو ناک ، گلے اور بعض اوقات پھیپھڑوں میں انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔ اس کی علامات گلے کا خراب ہونا۔ چھینکیں آنا، ناک بہنا، کھانسی اور کبھی غدود یا سینے میں درد اس بمیاری کی علامتیں ہیں۔ اکثر حرارت بھی ہو جاتی ہے۔
مرگی مرگی ایک دماغی مرض کا نام ہے، اس میں دفعتا”بیہوشی طاری ہو جاتی ہے، اعصاب تنفس کے تشنج اور سانس لینے کے منفذ کے بند ہونے سے اعصاب اختیاری، بے اختیار شدت سے پھڑکنے لگتے ہیں۔ اس کی علامات میں بے ہوش ہوتے ہی مریض کے منہ سے چیخنے کی آوازیں آتی ہیں، جب کہ نرخرے، دھڑ، سر اور ہاتھ کے پٹھوں میں سخت اینٹھن پیدا ہو جاتی ہے۔ مریض اگر اس وقت کھڑا ہو تو زور سے زمین پر گر سکتا ہے۔ زبان دانتوں میں آکر زخمی ہو سکتی ہے۔ اعضا سخت ہو جاتے ہیں اور سر ایک طرف کو مڑ جاتا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے ۔

الفاظ متضاد
شور خاموشی
خواب حقیقت
غائب حاضر
غم خوشی
ظالم رحم دل
فرضی حقیقی
نالائق لائق
معمولی قیمتی

مندرجہ ذیل الفاظ کے مترادف تحریر کیجیے:-

الفاظ مترادف
نگرانی توجہ
قصے کہانی
فالتو بے کار
تجویز مشورہ
آرام راحت
تندرست صحت مند
کوشش جدوجہد
قریب پاس

مندرجہ ذیل الفاظ کو اس طرح اپنے جملوں میں استعمال کیجیے کہ ہر لفظ کے معانی واضح ہو جائیں۔

عِلم عِلم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
عَلَم ہمیں اپنے وطن کا عَلَم سر بلند رکھنا ہے۔
باز وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔
بعض بعض اوقات انسان کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔
ترقی دعا ہے ہمارا ملک چوگنی ترقی کرے۔
ترکی مجھے ترکی جانا ہے۔
قمر قمر چاند کو کہتے ہیں۔
کمر اس کی کمر میں درد ہے۔
دوا مجھے دوا نہیں پینی ہے۔
دعا مجھے دعا کی سخت ضرورت ہے۔