سبق شہزادی کی کہانی خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق “شہزادی کی کہانی” از “کرشن چندر

سبق کا خلاصہ:

سبق “شہزادی کی کہانی” ایک دلچسپ کہانی ہے جسے کرشن چندر کی کتاب “الٹا درخت” سے نقل کیا گیا ہے۔کہانی کا آغاز موہن ، یوسف اور شہزادی سے ہوتا ہے جو جادو کی دنیا سے لوٹتے ہیں اور بھوکے ہوتے ہیں۔ موہن نے جب شہزادی سے پوچھا کہ وہ کس ملک کی شہزادی ہے تو شہزادی اپنی کہانی سنانے لگی۔شہزادی نے یوسف اور موہن کو بتایا کہ میں تو سرے سے شہزادی ہوں ہی نہیں میں ایک ڈبل روٹی بیچنے والے کی بیٹی ہوں۔

وہ اس کی ماں اور باپ تینوں مل کر خمیری روٹی بناتے تھے۔ یہ خاصا مشکل کام تھا جس میں خاصی احتیاط برتی جاتی تھی۔ ایک دن کیا ہوا کہ میری ماں بیمار ہوگئی اب مجھے اور میرے باپ کو دکان پر کام کرنا پڑا میں نے بہت سی روٹیاں جلا ڈالیں اس پر میرے باپ نے مجھے خوب پیٹا اور دکان سے باہر نکال دیا۔میں دکان کے باہر کھڑی رو رہی تھی کہ ایک بوڑھا تاجر آیا جس نے میرے باپ سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے روزانہ رلاتا ہے۔ جس پر میرے باپ نے بتایا کہ آج اس نے نقصان کیا ہے جس کی وجہ سے اس نے مجھے پیٹا۔

اس بڈھے نے شہزادی کے باپ سے کہا کہ اگر تم غریب ہو اور اسے پال نہیں سکتے تو اس لڑکی کو مجھے دے دو میں اسے اپنی بیٹی نالوں گا اسے بہت اچھی طرح رکھوں گا اسے اچھے اچھے کپڑے پستاؤں گا اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا اچھی تعلیم دوں گا اور اچھے گھر میں رکھوں گا۔بڈھے کے گھر میں شہزادی کو ہر طرح کا آرام حاصل تھا۔اچھے اچھے کھانے خوبصورت کپڑے اور سیر کے لیے چار گھوڑوں والی گاڑی اس کے گھر میں ہر طرح کا آرام تھا۔

بس ایک نقص تھا کہ بڈھا روز رات کے کھانے کے بعد شہزادی کو پیٹتا تھا۔ وہ روتی چیختی چلاتی تو وہ گراموفون بجانے لگتا تا کہ شہزادی کی آواز باجے کی آواز میں دب جائے یہ سلسلہ کوئی ایک یا آدھ گھنٹہ تک جاری رہتا جب تک وہ رو رو کر تھک نہ جاتی بڈھا چین سے نہ بیٹھتا۔شہزادی کے آنسو خوبصورت موتیوں میں ڈھل جاتے تھے جسے وہ تاجر جمع کرکے اپنی دوکان پہ سجاتا تھا۔ یہ آنسو سفید شفاف چمکتے موتی بن جاتے تھے سمندر کے موتی ان کے سامنے جھوٹے معلوم ہوتے تھے۔ ہوتے ہوتے یہ خبر بادشاہ تک پہنچی۔

بادشاہ موتی جواہر جمع کرنے کا شوقین تھا۔اس نے جب جوہری سے پوچھا تو جوہری نے جھوٹ بولنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔شہزادی کو جب۔ بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو وہ اسے روتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ بادشاہ نے جوہری کو قتل کرکے شہزادی کو اپنی قید میں رکھ لیا۔ بادشاہ کے محل میں شہزادی کو دن میں ایک بار ہیں، چار چار بار رلایا جاتا تھا، کیونکہ وہ بادشاہ اپنے قریب کے ایک دوسرے ملک پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا اور چڑھائی کے لیے فوج کی اور فوج کے لیے سامان اور روپے کی ضرورت تھی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میرے آنسو کام میں لائے گئے اور جب بادشاہ کا خزانہ موتیوں سے بھر گیا تو اس نے دوسرے ملک پر چڑھائی کر دی۔اتفاقاً بادشاہ یہ لڑائی ہار گیا اور اس کا محل لوٹ لیا گیا۔ دوسرے ملک کے سپاہی نے اسے ایک سوداگر کے ہاتھ ایک معمولی سی لڑکی سمجھ کر فروخت کر دیا۔جو غلاموں کی تجارت کرتا تھا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے:۔

شہزادی نے یوسف اور موہن کو اپنے بارے میں کیا بتایا؟

شہزادی نے یوسف اور موہن کو بتایا کہ میں تو سرے سے شہزادی ہوں ہی نہیں میں ایک ڈبل روٹی بیچنے والے کی بیٹی ہوں۔

شہزادی کے باپ نے اس کی پٹائی کیوں کی ؟

شہزادی نے بتایا کہ اس کا قصور یہ ہے۔ ایک دن کیا ہوا کہ میری ماں بیمار ہوگئی اب مجھے اور میرے باپ کو دکان پر کام کرنا پڑا میں نے بہت سی روٹیاں جلا ڈالیں اس پر میرے باپ نے مجھے خوب پیٹا اور دکان سے باہر نکال دیا۔

بڈھے نے شہزادی کے باپ سے کیا کہہ کر اس کی پرورش کی ذمہ داری قبول کی ؟

بڈھے نے شہزادی کے باپ سے کہا کہ اگر تم غریب ہو اور اسے پال نہیں سکتے تو اس لڑکی کو مجھے دے دو میں اسے اپنی بیٹی نالوں گا اسے بہت اچھی طرح رکھوں گا اسے اچھے اچھے کپڑے پستاؤں گا اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا اچھی تعلیم دوں گا اور اچھے گھر میں رکھوں گا۔

بڈھے کے گھر رہنے میں کیا خرابی تھی؟

بڈھے کے گھر میں شہزادی کو ہر طرح کا آرام حاصل تھا۔اچھے اچھے کھانے خوبصورت کپڑے اور سیر کے لیے چار گھوڑوں والی گاڑی اس کے گھر میں ہر طرح کا آرام تھا۔ بس ایک نقص تھا کہ بڈھا روز رات کے کھانے کے بعد شہزادی کو پیٹتا تھا۔ وہ روتی چیختی چلاتی تو وہ گراموفون بجانے لگتا تا کہ شہزادی کی آواز باجے کی آواز میں دب جائے یہ سلسلہ کوئی ایک یا آدھ گھنٹہ تک جاری رہتا جب تک وہ رو رو کر تھک نہ جاتی بڈھا چین سے نہ بیٹھتا۔

بادشاہوں کو کس قسم کی چیزیں جمع کرنے کی عادت ہوتی ہے؟

کوئی بادشاہ پتھر جمع کرتا ہے تو کوئی ٹکٹیں جمع کرتا ہےکسی کو موتی ہیرے جواہرات جمع کرںے کا شوق ہوتا ہے۔

بادشاہ کے محل میں شہزادی کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا ؟

بادشاہ کے محل میں شہزادی کو دن میں ایک بار ہیں، چار چار بار رلایا جاتا تھا، کیونکہ وہ بادشاہ اپنے قریب کے ایک دوسرے ملک پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا اور چڑھائی کے لیے فوج کی اور فوج کے لیے سامان اور روپے کی ضرورت تھی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میرے آنسو کام میں لائے گئے اور جب بادشاہ کا خزانہ موتیوں سے بھر گیا تو اس نے دوسرے ملک پر چڑھائی کر دی۔

اس سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

ملاحظہ کیجیے سبق کا خلاصہ۔

مندرجہ ذیل الفاظ کی مدد سے جملے بنائے:

الفاظ جملے
کبھی کبھی ہمیں کبھی کبھی کام سے وقفہ لے لینا چاہیے۔
آہستہ آہستہ آہستہ آہستہ اس کی صحت بہتر ہونے لگی۔
رفتہ رفتہ رفتہ رفتہ گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگی۔
ابھی ابھی مجھے ابھی ابھی احمد کا فون آیا ہے۔
جب کبھی جب کبھی تم بازار جاؤ میرے لیے کپڑے خرید لانا۔
وقتاً فوقتاً بزرگ افراد کو وقتاً فوقتاً اپنا معائنہ کرواتے رہنا چاہیے۔

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل بیانات کو درست کر کے تحریر کیجیے:۔

جادو کی دنیا میں انہیں بہت کچھ کھانے کو ملا۔ جادو کی دنیا میں انہیں کھانے کو کچھ نہیں ملا۔
شہزادی نے کہا۔ ”میں ایک بہت بڑے ملک کی شہزادی ہوں”۔ شہزادی نے کہا۔ ”میں تو سرے سے شہزادی ہوں ہی نہیں میں ایک ڈبل روٹی بیچنے والے کی بیٹی ہوں۔
شہزادی کا باپ اس کے کام سے بہت خوش ہوا۔ شہزادی کا باپ اس کے کام سے نا خوش ہوا۔
بڈھے نے شہزادی کے باپ کو کچھ نہ دیا۔ بڈھے نے شہزادی کے باپ کو اشرفیوں بھری تھیلی دی۔
بڈھا روز رات کھانے کے بعد شہزادی کو کہانیاں سناتا۔ بڈھا روز رات کھانے کے بعد شہزادی کو پیٹتا۔
شہزادی کو روتے دیکھ کر بادشاہ بہت غمگین ہوا۔ شہزادی کو روتے دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔
بادشاہ کے محل میں اس کا بہت خیال رکھا جاتا۔ بادشاہ کے محل میں اسے دن میں ایک بار نہیں چار بار رلایا جاتا۔

مندرجہ ذیل جملوں میں دو ہم املا اور ہم صوتی الفاظ دیئے گئے ہیں۔ دونوں الفاظ کے صحیح مطلب تحریر کیجئے۔

علی کے پاس ہونے پر وہ مبارک باد دینے اس کے پاس گیا۔
پاس: امتحان میں پاس یعنی کامیاب ہونا۔
پاس: پاس یعنی اس کے قریب۔
نغمہ جیسے ہی پاؤں سے کانٹا نکالنے کے لیے جھکی اس کے کان سے کانٹا نیچے گر پڑا۔ کانٹا: پاؤں میں چھبنے والا کانٹا۔
کانٹا: کان میں پہننے والا کانٹا/ زیور۔
اپنے دوست کی ہار پر اس نے ہار پہننے سے انکار کر دیا۔ ہار: ناکامی
ہار: ہار مراد زیور
احمد نے بالائی کا پیالہ نکال کر میز کی بالائی سطح پر رکھ دیا۔ بالائی: دودھ کی بالائی۔
بالائی: اوپر کی سطح۔
پتلی تماشہ دیکھتے دیکھتے احمد کی آنکھ کی پتلی میں درد شروع ہو گیا۔ پتلی: پتلی مراد بت۔
پتلی: آنکھ کی پتلی۔
علی نے مجھ سے رقم وصول کر کے اُسے ڈائری میں رقم کر لیا۔ رقم: پیسے۔
رقم: لکھ دینا۔
جب سے وہ حادثے میں بال بال بچا ہے وہ جان کی اہمیت کو جان گیا ہے۔ جان: زندگی۔
جان: واقف ہو جانا۔

مندرجہ ذیل واحد کے جمع تحریر کیجیے۔

واحد جمع
مشکل مشکلات
نقص نقائص
محل محلات
خزانہ خزائن
تاجر تاجروں
قلب قلوب
ذکر اذکار
جانب جوانب

مندرجہ ذیل خاکے میں دیئے گئے حروف کو ملا کر دس الفاظ بنائیے ہر لفظ کم از کم چار حروف پر مشتمل ہو۔

و،ک ، الف ، م، ل ، ر ، ی ، د ، س ، ہ

سودا ، سولہ ، سالم ، سردی ، لکیر ، کر دی ، وردی ، میکدہ ، مہرو ، سواد ، سالی ، اللہ ، سکول ، مسلم ، مریم وغیرہ