ٹوبہ ٹیک سنگھ کا خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق”ٹوبہ ٹیک سنگھ” از “سعادت حسن منٹو

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا خلاصہ

سعادت حسن منٹو کے افسانے “ٹوبہ ٹیک سنگھ ” میں تقسیم کی داستان بیان کی گئی ہے۔ جب پاکستان بنا تو لاہور کے پاگل خانے میں بہت سے پاگل موجود تھے آدھے پاگل پورے پاگل عام پاگل خاص پاگل مسلمان، سکھ اور ہندو خطرناک پاگل تھوڑے تھے جنہیں علیحدہ کمروں میں رکھا جاتا تھا تا کہ وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا ئیں۔ باقی عام پاگل اکٹھے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے بات چیت کرتے تھے۔انہی میں ایک اہم کردار بشن سنگھ بھی تھا۔بشن سنگھ کا تعلق شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا اور وہ اچھا خاصا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ بے چارہ نجانے کیسے پاگل ہو گیا اور پھر اس کے اہل خانہ اسے پاگل خانے میں چھوڑ گئے۔

پہلے پہل تو وہ اس سے ملاقات کے لیے آتے رہے اور اس کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی لاتے رہے لیکن جب برصغیر تقسیم ہو گیا تو بشن کا سارا خاندان ہندوستان میں جا آباد ہوا اور اس کی ملاقات بند ہو گئی۔ بشن سنگھ بالکل بے ضرر پاگل تھا اور اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ اکثر سننے میں آتے تھے اوپر دی گرگر دی ایکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لائین۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بشن سنگھ پندرہ سالوں سے اس پاگل خانے میں تھا مگر وہ ہر وقت کھڑا رہتا تھا اور یوں ہی کھڑے کھڑے کبھی کسی دیوار سے ٹیک لگا کر سو بھی لیتا تھا۔

اس طرح ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سُوج گئے تھے اور پنڈلیاں پھول گئی تھیں مگر وہ ایسا پاگل تھا کہ دوسروں کے کہنے پر بھی لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ تقسیم کے بعد حکومت نے طے کیا کہ پاگلوں کا بھی تبادلہ کیا جائے۔تبادلے کی خبر پا کر ہر ایک پاگل کو اپنی نوعیت کی پریشانیاں ستانے لگیں جیسے کہ ایک پاگل ہندو جو کبھی لاہور میں وکالت کرتا رہا تھا اس بات پر پریشان تھا کہ ہندوستان جا کر اس کی وکالت نہیں چمکے گی۔

ایک پاگل پریشان تھا کہ اسے ہندوستان کی بولی نہیں آتی۔ وہاں نہ جانے کون سی بولی چلتی ہو گی۔کچھ پاگلوں کو فکر ستانے لگی کہ ہم پاکستان میں رہیں گے کہ ہندوستان میں۔کچھ پاگل عجیب و غریب حرکتیں کرتے کوئی ہندو رہنما بن جاتا کوئی مسلم پاکستان اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے۔اس پاگل خانے میں ایک ایسا پاگل بھی تھا جو خود کو حاکم سمجھتا تھا۔

ایک دن بشن سنگھ نےاسے جا کر پوچھا ” جناب ٹو بہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ؟ جواب میں اس پاگل نے قہقہ لگا کر کہا ٹو بہ ٹیک سنگھ نہ تو پاکستان میں ہے اورنہ ہندوستان میں، اس لیے کہ ہم نے ابھی تک ایسا کوئی حکم صادر ہی نہیں فرمایا۔ پھر بشن سنگھ نے اس حاکم کی بڑی منت سماجت کی کہ وہ ایسا کوئی حکم صادر فرما دے تا کہ اس کی پریشانی دور ہو مگر وہ حاکم وقت بہت مصروف تھا۔ اسے اور بھی بہت سے کام کرنے تھے بہت سے حکم صادر فرمانے تھے۔

آخر کار بشن سنگھ تنگ آ کر اس ” حاکم پر برس پڑا کہ : ” اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا …بشن سنگھ سے اس کا دوست فضل دین ملنے آیا تو بشن سنگھ نے اس سے پوچھا ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟”وہ ہکا بکا رہ گیا: کہاں ہے وہاں ہے جہاں تھا”۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟“پاکستان میں نہیں نہیں ہندوستان میں فضل دین بوکھلا کر بولا۔

حقیقت میں وہ چاہتاتھا کہ اس کا دوست ہندوستان میں چلا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ اسے آکر ملتے رہا کریں۔ تمام کاغذی کارروائی کے بعد تبادلے کا دن آ پہنچا۔ بارڈر پہ پاگلوں نے عجیب بھگدڑ مچائی ہوئی تھی۔جب بشن سنگھ کی باری آئی تو اس نے رجسٹر میں نام درج کرنے والے متعلقہ افسر سےپوچھا ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟“ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ متعلقہ افسر بنتے ہوئے بولا: “پاکستان میں وہ یہ سن کر اچھل کر ایک طرف بنا اور دوڑ کر پاکستان کی سرحد میں جا گھسا۔

پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے دوسری طرف لے جانے لگے مگر اس نے چلنے سے صاف انکار کر دیا اور زور زور سے چلانے لگا میں ہندوستان نہیں جاؤں گا میرا ٹو بہ ٹیک سنگھ تو یہاں ہے … او پر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا۔ اسے بہت چکر دیا گیا کہ دیکھو ٹو بہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے اگر نہیں گیا تو اسے فوراً تمہاری خاطر وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا اور بولا ”میں کہیں نہیں جاؤں گا میرا ٹو بہ ٹیک سنگھ تو یہاں ہے … او پر دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا۔ اور جب اس سے زبردستی کی کوشش کی گئی تو وہ دونوں ملکوں کی سرحد کے درمیان میں ایک جگہ یوں اڑ گیا کہ اسے ہلانا محال ہو گیا۔آخر بشن سنگھ جو کبھی لیٹا یا بیٹھا نہیں تھا وہیں دھڑام سے زمین پہ گر پڑا اور اس نے اپنی دھرتی سے وفا کر کے جان دے دی۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

لاہور کے پاگل خانے میں کس قسم کے پاگل تھے؟

جب پاکستان بنا تو لاہور کے پاگل خانے میں بہت سے پاگل موجود تھے آدھے پاگل پورے پاگل عام پاگل خاص پاگل مسلمان، سکھ اور ہندو خطرناک پاگل تھوڑے تھے جنہیں علیحدہ کمروں میں رکھا جاتا تھا تا کہ وہ کسی اور کو نقصان نہ پہنچا ئیں ۔ باقی عام پاگل اکٹھے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے بات چیت کرتے تھے۔

بشن سنگھ کس قسم کا پاگل تھا ؟

بشن سنگھ کا تعلق شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا اور وہ اچھا خاصا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ بے چارہ نجانے کیسے پاگل ہو گیا اور پھر اس کے اہل خانہ اسے پاگل خانے میں چھوڑ گئے۔ پہلے پہل تو وہ اس سے ملاقات کے لیے آتے رہے اور اس کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی لاتے رہے لیکن جب برصغیر تقسیم ہو گیا تو بشن کا سارا خاندان ہندوستان میں جا آباد ہوا اور اس کی ملاقات بند ہو گئی۔ بشن سنگھ بالکل بے ضرر پاگل تھا اور اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ اکثر سننے میں آتے تھے اوپر دی گرگر دی ایکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لائین۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بشن سنگھ پندرہ سالوں سے اس پاگل خانے میں تھا مگر وہ ہر وقت کھڑا رہتا تھا اور یوں ہی کھڑے کھڑے کبھی کسی دیوار سے ٹیک لگا کر سو بھی لیتا تھا۔ اس طرح ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سُوج گئے تھے اور پنڈلیاں پھول گئی تھیں مگر وہ ایسا پاگل تھا کہ دوسروں کے کہنے پر بھی لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔

تبادلے کی خبر سن کر پاگل کیسی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے؟

تبادلے کی خبر پا کر ہر ایک پاگل کو اپنی نوعیت کی پریشانیاں ستانے لگیں جیسے کہ ایک پاگل ہندو جو کبھی لاہور میں وکالت کرتا رہا تھا اس بات پر پریشان تھا کہ ہندوستان جا کر اس کی وکالت نہیں چمکے گی ۔ ایک پاگل پریشان تھا کہ اسے ہندوستان کی بولی نہیں آتی۔ وہاں نہ جانے کون سی بولی چلتی ہو گی۔کچھ پاگلوں کو فکر ستانے لگی کہ ہم پاکستان میں رہیں گے کہ ہندوستان میں۔

بشن سنگھ نے حاکم سے کیا درخواست کی ؟

اس پاگل خانے میں ایک ایسا پاگل بھی تھا جو خود کو حاکم سمجھتا تھا۔ ایک دن بشن سنگھ نےاسے جا کر پوچھا ” جناب ٹو بہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ؟ جواب میں اس پاگل نے قہقہ لگا کر کہا ٹو بہ ٹیک سنگھ نہ تو پاکستان میں ہے اورنہ ہندوستان میں، اس لیے کہ ہم نے ابھی تک ایسا کوئی حکم صادر ہی نہیں فرمایا۔ پھر بشن سنگھ نے اس حاکم کی بڑی منت سماجت کی کہ وہ ایسا کوئی حکم صادر فرما دے تا کہ اس کی پریشانی دور ہو مگر وہ حاکم وقت بہت مصروف تھا۔ اسے اور بھی بہت سے کام کرنے تھے بہت سے حکم صادر فرمانے تھے ۔ آخر کار بشن سنگھ تنگ آ کر اس ” حاکم پر برس پڑا کہ : ” اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا …

فضل دین سے بشن سنگھ نے کیا پوچھا اور اس نے بشن سنگھ کو کیا جواب دیا؟

بشن سنگھ نے اس سے پوچھا ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟”وہ ہکا بکا رہ گیا: کہاں ہے وہاں ہے جہاں تھا”۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟“پاکستان میں نہیں نہیں ہندوستان میں فضل دین بوکھلا کر بولا۔ حقیقت میں وہ چاہتاتھا کہ اس کا دوست ہندوستان میں چلا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ اسے آکر ملتے رہا کریں۔

افسر کی بات سُن کر بشن سنگھ کا ردعمل کیا تھا؟

جب بشن سنگھ کی باری آئی تو اس نے رجسٹر میں نام درج کرنے والے متعلقہ افسر سےپوچھا ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟“ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ متعلقہ افسر بنتے ہوئے بولا: “پاکستان میں وہ یہ سن کر اچھل کر ایک طرف بنا اور دوڑ کر پاکستان کی سرحد میں جا گھسا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے دوسری طرف لے جانے لگے مگر اس نے چلنے سے صاف انکار کر دیا اور زور زور سے چلانے لگا میں ہندوستان نہیں جاؤں گا میرا ٹو بہ ٹیک سنگھ تو یہاں ہے … او پر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا ۔ اسے بہت چکر دیا گیا کہ دیکھو ٹو بہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے اگر نہیں گیا تو اسے فوراً تمہاری خاطر وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا اور بولا ”میں کہیں نہیں جاؤں گا میرا ٹو بہ ٹیک سنگھ تو یہاں ہے … او پر دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا۔ اور جب اس سے زبردستی کی کوشش کی گئی تو وہ دونوں ملکوں کی سرحد کے درمیان میں ایک جگہ یوں اڑ گیا کہ اسے ہلانا محال ہو گیا۔

وطن سے محبت ہی انسان کی پہچان ہے۔ بشن سنگھ کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث کیجیے۔

بشن سنگھ ایک ایسا کردار ہے جو سکھ ہونے کے باوجود تقسیم کے بعد پاکستان کی سرزمین چھوڑنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ اسے اس دھرتی سے پیار ہے جو اس کی پہچان ہے یعنی کہ اس کا شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ بشن سنگھ کو تبادلے کے وقت جب بارڈر پہ لے جایا گیا تو وہاں جب یہ بات اس کے علم میں آئی کہ اس کا شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہے تو اس نے اپنی جان قربان کرنے کو ترجیح دی مگر وہ سر زمین جہاں اس کا شہر تھا وہاں سے وہ ایک انچ بھی نہ ہلا اور اپنی جان قربان کر دی یہی اپنی سر زمین سے محبت کرنے والوں کی اصل پہچان ہے۔

اس سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

سبق کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:-

الفاظ جملے
ملتے جلتے وہ دونوں بہن بھائی آپس میں خاصے ملتے جلتے تھے۔
کھاتا پیتا وہ کھاتا پیتا اچانک ہی اس دنیا سے چل بسا۔
منت سماجت ماں نے ڈاکٹر کی منت سماجت کی کہ وہ اس کے بچے کو بچا لے۔
چہ مگوئیاں دونوں دوست آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔
لمبا چوڑا کھیل کے میدان کو خاصا لمبا چوڑا راستہ جاتا تھا۔
دانش ور دانش ور انسان ہمیشہ آپ کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔
کل کلاں کل کلاں کو تعلق ختم کرنے سے بہتر ہے آج ہی یہ تعلق ختم کر دیا جائے۔
شور شرابے شور شرابے میں علی کی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔
مشکل مرحلہ زندگی کا ہر دوسرا قدم ایک مشکل مرحلہ لیے ہوئے ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے-

الفاظ متضاد
آباد ویران
رنج راحت
کشادہ تنگ
ظلمت روشنی
بیگانہ اپنا
فراز نشیب
گمنام مشہور
سہل مشکل

مندرجہ ذیل میں مذکر کے مونث اور مونٹ کے مذکر تحریر کیجیے:

مذکر مونث
تبولی تبولن
کبوتر کبوتری
مینڈک مینڈکی
مینڈھا مینڈھی
نائی نائن
مذکر مونث
بادشاہ ملکہ
ناگ ناگن
نانا نانی

مندرجہ ذیل خالی جگہوں کو مناسب الفاظ کی مدد سے پر کیجیے۔

  • علامہ اقبال ہمارے عظیم رہنما ہیں۔
  • بغل میں چھری منھ میں رام رام
  • وہ لاکھ چاہئے یہاں اس کی دال نہیں گلتی۔
  • جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا۔
  • آج دُور دُور تک اس کا طوطی بولتا ہے۔
  • اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔
  • سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔
  • رسی جل گئی مگر بل نہ گیا۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے مترادف نیچے دیئے گئے خاکے میں تلاش کر کے لکھیے:

الفاظ مترادفات
تصوّر خیال
درخت پیڑ
فتح کامیابی /جیت
آرام راحت
نقص خامی
متکبر غرور
آرزو خواہش
جنت بہشت
پاسبان محافظ
پاگل دیوانہ