سبق سینما کا عشق خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق “سینما کا عشق” از “پطرس بخاری

سبق کا خلاصہ:

سبق سینما کا عشق میں پطرس بخاری نے اپنے سینما کے لیے عشق کے جذبے کا تو اظہار کیا ہے ساتھ ہی اپنے دوست مرزا صاحب کی طرف سے اس میں آنے والے خلل کی ایک درد ناک کہانی بیان کی ہے۔ان کے یہ دوست مرزا صاحب ہیں جن کی وجہ سے یہ سینما کا عشق اب ان کی دکھتی رگ بن گیا ہے کہ اول تو اپنی سستی کے باعث وہ کبھی وقت پہ سینما نہ پہنچ پائے دوسری وجہ ان کے دوست ہیں۔جب بھی ان کا سینما جانے کا ارادہ ہوتا مرزا صاحب کو بھی کہہ دیتے اور مرزا صاحب جانے کی حامی بھئ بھر لیتے۔

مرزا صاحب یوں گویا ہوتے کہ وہ کیوں نہیں سینما جائیں گے کیا ان کا دل نہیں ہے۔جمعرات کا روز مقرر ہوا اور چھ بجے کا وقت مصنف جب مقررہ وقت پہ مرزا صاحب کے گھر پہنچے تو انھیں غائب پایا۔مرزا صاحب کے گھر پہنچ کر مصنف نے انھیں مردان خانے ان کے گھر کی ہر کھڑکی ،کونے ، شگاف ، ڈیوڑھی ، غسل خانے غرض گھر کی ہر جگی نہ صرف تلاش کیا بلکہ انھیں آوازیں بھی دیں کہ ممکن ہے وہ گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو آئیں اور اگر سو رہے ہوں تو جاگ جائیں۔ کافی تگ ودو کے بعد مرزا صاحب زنان خانے سے برآمد ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا تم ہو میں سمجھا کوئی اور ہے۔

مصںف نے انھیں سینما جانے کی یاد دہانی دلائی تو مرزا صاحب کپڑے بدلنے لگے۔مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ مصنف کا بس چلتا تو انھیں کپڑے اتروانے ہی نہ دیتے۔ اللہ اللہ کر کے مرزا صاحب تیار ہو کر روانہ ہوئے تو تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے رہے۔یوں جب وہ لوگ سینما ہال پہنچے تو فلم شروع ہو چکی تھی۔سینما ہال میں جب مصنف ٹکٹ لے کر داخل ہوئے تو منظر کچھ یوں تھا کہ اندھیرا گھپ بہتیرا آنکھیں جھپکاتا ہوں، کچھ بجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز لگاتا ہے دروازہ بند کر دو جی۔ یا اللہ اب جاؤں کہاں … رسته کرسی ۔ … دیوار آدمی کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔

ایک قدم اور آگے بڑھتا ہوں تو سران پالیٹوں سے جاٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لئے دیوار پر لٹکی رہتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگئی خمیدہ کمر ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھانڈ اس کے گھٹنوں کوٹکرا، خواتین سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں تو وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔مصنف جب فلم دیکھنے لگے تو اس منظر کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ فلم کونسا ہے؟

اب اس کی کہانی کیا ہے۔ اور کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک عورت ہے کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے۔ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرت ایک وسیع اور فراخ انگڑائی لیتے ہیں۔ جس کے دوران میں کم از کم دو تین سوفٹ فلم گزر جاتا ہے جب انگڑائی کی لپیٹ لیتے ہیں تو پھر سر کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے ہی خمیدہ رکھے رہتے ہیں۔

میں مجبورا سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لئے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل مختلف ایسا معلوم ہوتا ہوں، جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں، تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی پشت پر کوئی مچھر یا پالتو پتو معلوم ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں طرف سے اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں، ایک دو لمحے بعد ہی وہ مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں مچھر سے پینترا بدل لیتے ہیں، غرض یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں، میں بائیں تو وہ دائیں۔

ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اس کے بعد غصے میں آ کر انھوں نے آنکھیں بند کر لیں اور قتل کے بارے میں سوچنے لگے۔فلم کے آخر میں مصنف ںے سو سو قسمیں کھائیں کہ اب دوبارہ میں کبھی فلم دیکھنے نہیں آؤں گا اور آیا بھی تو کمبخت مرزا سے کبھی ذکر نہیں کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے آ جاؤں گا اور اوپر کے درجے کی سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا اور تمام وقت نہ صرف اپنی نشست پہ اچھلوں گا بلکہ بڑے طرے والی ٹوپی پہن کر آؤں گا۔ مگر اگلے ہفتے پھر سے وہی فلم کا شوق اور وہی مرزا صاحب سے بات چیت کہ کیوں مرزا فلم دیکھنے چلو گے جاری تھا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

مصنف نے ہر دفعہ سینما دیر سے پہنچنے کی کیا وجہ بتائی ہے؟

مصنف کے ہر دفعہ دیر سے سینما پہنچنے کی وجہ ان کے دوست مرزا صاحب ہیں۔

مرزا صاحب کے گھر پہنچ کر مصنف انہیں کہاں کہاں تلاش کرتے ؟

مرزا صاحب کے گھر پہنچ کر مصنف نے انھیں مردان خانے ان کے گھر کی ہر کھڑکی ،کونے ، شگاف ، ڈیوڑھی ، غسل خانے غرض گھر کی ہر جگی نہ صرف تلاش کیا بلکہ انھیں آوازیں بھی دیں کہ ممکن ہے وہ گھر کے کسی کونے سے برآمد ہو آئیں اور اگر سو رہے ہوں تو جاگ جائیں۔

سینما ہال میں داخل ہوتے ہی مصنف کو کس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ؟

سینما ہال میں جب مصنف ٹکٹ لے کر داخل ہوئے تو منظر کچھ یوں تھا کہ اندھیرا گھپ بہتیرا آنکھیں جھپکاتا ہوں، کچھ بجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز لگاتا ہے دروازہ بند کر دو جی۔ یا اللہ اب جاؤں کہاں … رسته کرسی ۔ … دیوار آدمی کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم اور آگے بڑھتا ہوں تو سران پالیٹوں سے جاٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لئے دیوار پر لٹکی رہتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگئی خمیدہ کمر ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھانڈ اس کے گھٹنوں کوٹکرا، خواتین سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں تو وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔

فلم دیکھتے ہوئے مصنف کو کس مشکل سے دو چار ہونا پڑا؟

مصنف جب فلم دیکھنے لگے تو اس منظر کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ فلم کونسا ہے؟ اب اس کی کہانی کیا ہے۔ اور کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک عورت ہے کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے۔ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرت ایک وسیع اور فراخ انگڑائی لیتے ہیں۔ جس کے دوران میں کم از کم دو تین سوفٹ فلم گزر جاتا ہے جب انگڑائی کی لپیٹ لیتے ہیں تو پھر سر کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے ہی خمیدہ رکھے رہتے ہیں۔ میں مجبورا سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لئے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل مختلف ایسا معلوم ہوتا ہوں، جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں، تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی پشت پر کوئی مچھر یا پالتو پتو معلوم ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں طرف سے اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں، ایک دو لمحے بعد ہی وہ مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں مچھر سے پینترا بدل لیتے ہیں، غرض یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں، میں بائیں تو وہ دائیں۔ ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

سبق کے آخر میں مصنف کس سلسلے میں سوسو قسمیں کھاتے ہیں؟

سبق کے آخر میں مصنف ںے سو سو قسمیں کھائیں کہ اب دوبارہ میں کبھی فلم دیکھنے نہیں آؤں گا اور آیا بھی تو کمبخت مرزا سے کبھی ذکر نہیں کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے آ جاؤں گا اور اوپر کے درجے کی سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا اور تمام وقت نہ صرف اپنی نشست پہ اچھلوں گا بلکہ بڑے طرے والی ٹوپی پہن کر آؤں گا۔

سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

ملاحظہ کیجیے سبق کا خلاصہ

آپ نے سبق میں مرزا صاحب کا کردار پڑھا۔ اپنے کسی ایسے دوست کے بارے میں مضمون لکھیئے جس کی عادات مرزا سے ملتی جلتی ہوں۔

میرا دوست جس کا نام عثمان ہے اس کی عادات مرزا صاحب کے کرادر سے بہت ملتی ہیں۔ عثمان چونکہ میرا بہت قریبی اور گہرا دوست ہے جس کے بنا میں کہیں بھی جانے کا تصور نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ عثمان میرے ساتھ ہرجگہ موجود ہوتا ہے۔ مگر عثمان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی نہ صرف وقت کی پابندی نہیں کرتا بلکہ وہ تقریب کی بنیادی باتوں کو بھی قابلِ اعتنا نہیں جانتا۔ مثلاً وہ نہ تو کبھی مقررہ وقت پہ تیار ہوتا ہے اور نہ ہی تقریب میں پہنے جانے والے لباس کا خیال کرتا ہے وہ ہر جگہ اپنی سہولت کے مطابق تیار ہوکر جانے کو ترجیح دیتا ہے یہی نہیں بلکہ وہ کسی سے زیادہ کھلتا ملتا بھی نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:۔

ہو کا عالم ہونا گلی میں رات گئے ہو کا عالم تھا۔
قبضہ قدرت فطرت کو دیکھتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ قبضہ قدرت ہے۔
متانت متانت و سنجیدگی علی کی شخصیت کا خاصہ ہے۔
خون کھولنا اپنے دشمن کو سامنے پاکر احمد کا خون کھول اٹھا۔
جوں کے توں میرے کپڑے جوں کے توں رکھے تھے۔
مربیانہ تبسم مرزا صاحب کے چہرے پہ مربیانہ تبسم دکھائی دیا۔
طفلانہ خواہش مرزا صاحب نے مصنف کے سامنے اپنی طفلانہ خواہش کا اظہار کیا۔
پینترا بدلنا دوسری ٹیم کو بازی جیتتے دیکھ کر احمد نے فوراً پینترا بدلا۔

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملوں کو درست کر کے تحریر کیجیے:۔

بدھ کے دن پانچ بجے ان کے مکان پر روانہ ہو جاتا ہوں۔ جمعرات کے دن چار بجے ان کے مکان پر روانہ ہو جاتا ہوں۔
اگر قتل انسانی ایک عام جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا۔ اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا۔
مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر دشوار ہے۔ مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے۔
تمام راستے مرزا صاحب گفتگو فرماتے رہے۔ تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے رہے۔
تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ روشن سے چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دیتے ہیں۔
اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے بزرگ ایک چھوٹی سی انگڑائی لیتے ہیں۔ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے بزرگ ایک وسیع و عریض سی انگڑائی لیتے ہیں۔

مندرجہ ذیل جملوں میں مذکر اسموں کو مونث میں اور مونث اسموں کو مذکر میں تبدیل کر کے ضروری تبدیلیوں کے بعد جملے دوبارہ تحریر کیجیے:۔

مذکر مونث
لڑکے نے اپنے اُستاد کی تصویر بنائی۔ لڑکی نے اپنی استانی کی تصویر بنائی۔
باپ نے اپنے بیٹے کو ایک دلچسپ کہانی سنائی۔ ماں نے اپنی بیٹی کو ایک دلچسپ کہانی سنائی۔
لڑکے جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔ لڑکیاں جماعت میں پڑھ رہی ہیں۔
سڑک پر دو مرد کھڑے تھے۔ سڑک پر دو عورتیں کھڑی تھیں۔
میں نے اپنے دوست کو دیکھا۔ میں نے اپنی دوست کو دیکھا۔
گاڑی کا ڈرائیور ایک مرد تھا۔ گاڑی کی ڈرائیور ایک عورت تھی۔
بوڑھے آدمی کے دو بیٹے تھے۔ بوڑھی عورت کی دو بیٹیاں تھیں۔