سبق ٹیڑھی لکیر کا خلاصہ، سوالات وجوابات

0

سبق کا خلاصہ:

سبق “ٹیڑھی لکیر” کی کہانی شمن کے کردار کے گرد گھومتی ہے۔ شمن کو پڑھائی سے خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن سب ڈنڈا لے کر اس کی پڑھائی کے پیچھے ہیں اس کی بڑی آپا اپنے دیور سے پڑھائی میں اس کا مقابلہ کرواتی ہیں جبکہ مولوی صاحب اور ماسٹر جی بھی اسی پر اپنے دانت تیز کرتے ہیں۔ماسٹر جی یا مولوی صاحب جب شمن کو دس تک گننے کا کہتے تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ایک ہتھوڑی لے کر کھٹاک کھٹاک ماسٹر صاحب کی کھوپڑی پر سو تک گن دے۔

جوڑنا گھٹانا اور ضرب تقسیم پر اسے یوں معلوم ہوتا کہ وہ کسی کی بوٹیاں بانٹ وہی اور خون گھٹا رہی ہے۔وہ اپنا کام سب سے آخر میں ماسٹر جی کو دکھاتی ہے لیکن اکثرتو ماسٹر جی اس کی سلیٹ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔وہ اپنا جواب آنکھ ٹیڑھی کرکے دوسروں کی سلیٹ سے نقل کرتی تھی اور سب سے آخر میں اپنی سلیٹ دکھاتی تھی اگر کبھی ماسٹر جی اسے دیکھ لیتے تو اسے سلیٹ لانے کا کہتے تھے۔

وہ ماسٹر صاحب سے بچنے کے لیے گھبرا کر اس پر تھوکنے اور ہتھیلیوں سے مٹاںے کی کوشش کرتی۔بعض اوقات جھلا کر پیٹ میں درد یا کوئی حاجت محسوس کرنے لگتی تھی۔اس پر ماسٹر جی کی مار پیٹ اس کے لیے مرہم کا کام کرتی ہے۔ضرب اور تقسیم اس کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہے۔ماسٹر صاحب اس سے حساب کے سوال کرتے ہیں۔ایک پیسے کی دو نارنگیاں تو ڈیڑھ روپے کی کتنی؟نارنگیاں خریدنے کے خیال پر شمن دل ہی دل میں سوچتی کہ اول تو سرے سے یہ گلچھرے ہی اس کی قسمت میں نہیں لکھے تھے کہ وہ ایک پیسے کی دو نارنگیاں خرید سکے۔

دوسرے زیادہ سے زیادہ دو پیسے کی نارنگیاں کافی ہوتیں بھلا ڈیڑھ روپے کی کون گاڑی بھر نارنگیاں خریدے گا سڑ نہیں جائیں گی ساری کی ساری ۔ پچھلی گرمیوں میں آگرہ والی خالہ نے دو ٹوکرے خربوزے بھیجے ۔ سارے سٹرسڑ کر ہی تو پھنکے ۔ اوراگر خدا کی قدرت جوش مارتی اور واقعی اسے پیسہ دیا جاتا تو وہ بھلا پاگل ہوئی تھی جو کھٹی چونا نارنگیاں لیتی اور کیا سچ تو ہے بھلا پیسہ کی دو نارنگیاں کھٹی نہ ہوں گی تو اور کیسی ہوں گی۔

ماسٹر صاحب تو سدا کے سڑی تھے۔ خواہ مخواہ کھٹی نارنگیاں خرید دوائے دیتے تھے۔ پیسہ ملتا تو کبھی سے فیصلہ کئے بیٹھی تھی کہ چاہے کچھ ہو جائے کٹی ہوئی پستے لگی گزک خریدے گی اور چکھنے کے بہانے ایک ریوڑی بھی مانگ لے گی۔ جواب نہ پاکر ماسٹر صاحب اس کو مارنے لگتے۔ مارتے مارتے ماسٹر صاحب پسینہ میں ڈوب کر نڈھال ہو جاتے جیسے کسی نے گھن چکریاں باندھ کر گھما ڈالا ہو۔ ان کے اعضا بے قابو ہو کر الٹے سیدھے ہلنے لگتے۔ معلوم ہوتا اتنی دیر بچوں میں پڑھا نہیں رہے تھے بلکہ اپنی نوشتہ تقدیر پڑھ رہے تھے۔

پست ہو کر وہ دوسرے دن نارنگیاں جبرا خرید وانے کا پختہ وعدہ کر کے چلے جاتے۔اگلے روز پھر وہی حساب اور راوی ، چناب اور ستلج کی بحث شروع ہو جاتی جو کہ شمن کو نہ آنے پہ پھر سے مار پڑتی وہ دریا اور ندی نالے میں فرق کرںے سے قاصر تھی اور سوچتی کہ دریا اس کے گھر کے پاس ہی بہتے ہوتے تو اس کے لیے کتنا آسان ہوتا انھیں دیکھنا یاد کرنا۔شمن کے مطابق ان کم بخت دریاؤں سے تو ہزار گنا اچھا وہ نالہ تھا جو کھیت کے بیچوں بیچ رو پہلی سانپ کی طرح لہرایا کرتا تھا۔

اس کے کنارے بالکل مکھی کے برابر مینڈ کیاں گھاس میں پھرکا کرتی تھیں اور جب کاغذ کی ناؤ میں وہ ان ننھے مینڈکوں کو مسافر بنا کر نالے کے دھارے پر چھوڑ دیتی تو کشتی کس شان سے سینہ تانے بہتی چلی جاتی۔ وہ تالیاں بجاتی اس کے ساتھ ساتھ دوڑتی اور جب کوئی تنکا یا لکڑی ناؤ میں پھنس کر اسے چک پھیریاں دیتی تو اس کے جوڑ کھل جاتے اور ننھے مینڈک بہادر تیراکوں کی طرح پانی میں چھلانگ مار کر کنارے پر آن لگتے۔ اس نالے میں کبھی کبھی کہیں سے مچھلیاں بھی بہہ آتیں تب تو کنارے پر سینکڑوں جانور دعوت اُڑانے آ نکلتےبڑا مزا آتا …یوں وقفے وقفے سے ماسٹر جی شمن کو مارتے اور کوستے رہتے ماسٹر صاحب کے خیال کے مطابق شمن نہایت کوڑھ مغز تھی جس کے دماغ میں بھوسا بھرا تھا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے:-

شمن کے ذہن میں ماسٹر جی اور مولوی صاحب کے سوالات کے کس قسم کے جواب آتے ؟

ماسٹر جی یا مولوی صاحب جب شمن کو دس تک گننے کا کہتے تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ایک ہتھوڑی لے کر کھٹاک کھٹاک ماسٹر صاحب کی کھوپڑی پر سو تک گن دے۔جوڑنا گھٹانا اور ضرب تقسیم پر اسے یوں معلوم ہوتا کہ وہ کسی کی بوٹیاں بانٹ وہی اور خون گھٹا رہی ہے۔

ماسٹر جی اس کی سلیٹ کے پیچھے کیوں پڑ جاتے اور وہ ان سے بچنے کے لیے کیا کرتی؟

وہ اپنا جواب آنکھ ٹیڑھی کرکے دوسروں کی سلیٹ سے نقل کرتی تھی اور سب سے آخر میں اپنی سلیٹ دکھاتی تھی اگر کبھی ماسٹر جی اسے دیکھ لیتے تو اسے سلیٹ لانے کا کہتے تھے۔ وہ ماسٹر صاحب سے بچنے کے لیے گھبرا کر اس پر تھوکنے اور ہتھیلیوں سے مٹاںے کی کوشش کرتی۔بعض اوقات جھلا کر پیٹ میں درد یا کوئی حاجت محسوس کرنے لگتی تھی۔

نارنگیاں خریدنے کے سوال پر شمن دل ہی دل میں کیا سوچتی؟

نارنگیاں خریدنے کے خیال پر شمن دل ہی دل میں سوچتی کہ اول تو سرے سے یہ گلچھرے ہی اس کی قسمت میں نہیں لکھے تھے کہ وہ ایک پیسے کی دو نارنگیاں خرید سکے۔ دوسرے زیادہ سے زیادہ دو پیسے کی نارنگیاں کافی ہوتیں بھلا ڈیڑھ روپے کی کون گاڑی بھر نارنگیاں خریدے گا سڑ نہیں جائیں گی ساری کی ساری ۔ پچھلی گرمیوں میں آگرہ والی خالہ نے دو ٹوکرے خربوزے بھیجے ۔ سارے سٹرسڑ کر ہی تو پھنکے ۔ اوراگر خدا کی قدرت جوش مارتی اور واقعی اسے پیسہ دیا جاتا تو وہ بھلا پاگل ہوئی تھی جو کھٹی چونا نارنگیاں لیتی اور کیا سچ تو ہے بھلا پیسہ کی دو نارنگیاں کھٹی نہ ہوں گی تو اور کیسی ہوں گی۔ ماسٹر صاحب تو سدا کے سڑی تھے۔ خواہ مخواہ کھٹی نارنگیاں خرید دوائے دیتے تھے۔ پیسہ ملتا تو کبھی سے فیصلہ کئے بیٹھی تھی کہ چاہے کچھ ہو جائے کٹی ہوئی پستے لگی گزک خریدے گی اور چکھنے کے بہانے ایک ریوڑی بھی مانگ لے گی۔

شام کے وقت ماسٹر صاحب کی کیا حالت ہو جاتی؟

ماسٹر صاحب پسینہ میں ڈوب کر نڈھال ہو جاتے جیسے کسی نے گھن چکریاں باندھ کر گھما ڈالا ہو۔ ان کے اعضا بے قابو ہو کر الٹے سیدھے ہلنے لگتے۔ معلوم ہوتا اتنی دیر بچوں میں پڑھا نہیں رہے تھے بلکہ اپنی نوشتہ تقدیر پڑھ رہے تھے۔ پست ہو کر وہ دوسرے دن نارنگیاں جبرا خرید وانے کا پختہ وعدہ کر کے چلے جاتے۔

ماسٹر صاحب کا شمن کے بارے میں کیا خیال تھا؟

ماسٹر صاحب کے خیال کے مطابق شمن نہایت کوڑھ مغز تھی جس کے دماغ میں بھوسا بھرا تھا۔

شمن کھیت کے بیچوں بیچ بہنے والے نالے کو دریاؤں سے ہزار گنا اچھا کیوں سمجھتی ؟

شمن کے مطابق ان کم بخت دریاؤں سے تو ہزار گنا اچھا وہ نالہ تھا جو کھیت کے بیچوں بیچ رو پہلی سانپ کی طرح لہرایا کرتا تھا۔ اس کے کنارے بالکل مکھی کے برابر مینڈ کیاں گھاس میں پھرکا کرتی تھیں اور جب کاغذ کی ناؤ میں وہ ان ننھے مینڈکوں کو مسافر بنا کر نالے کے دھارے پر چھوڑ دیتی تو کشتی کس شان سے سینہ تانے بہتی چلی جاتی۔ وہ تالیاں بجاتی اس کے ساتھ ساتھ دوڑتی اور جب کوئی تنکا یا لکڑی ناؤ میں پھنس کر اسے چک پھیریاں دیتی تو اس کے جوڑ کھل جاتے اور ننھے مینڈک بہادر تیراکوں کی طرح پانی میں چھلانگ مار کر کنارے پر آن لگتے۔ اس نالے میں کبھی کبھی کہیں سے مچھلیاں بھی بہہ آتیں تب تو کنارے پر سینکڑوں جانور دعوت اُڑانے آ نکلتےبڑا مزا آتا …

اس سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

ملاحظہ کیجیے سبق کا خلاصہ۔

مار دھاڑ کی نسبت بچوں کو پیار سے پڑھانا بہت آسان کام ہے۔ سبق کے حوالے سے بحث کیجیے۔

مار دھاڑ کی نسبت بچوں جو پیار سے پڑھانا زیادہ آسان کام ہے کہ پیار سے بچے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون اور استاد دونوں سے پیار کرنے لگتے ہیں۔ یہی اگر بچے کو مارا جائے تو کہانی کے کرداد شمن کی طرح سے وہ کوڑھ دماغ اور بد تمیز ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہوئے بھی وہ صحیح جواب نہیں دے پاتے ہیں۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:۔

الفاظ جملے
دانت تیز کرنا احمد اور آپسی لڑائی کے لیے ایک دوسرے کے خلاف دانت تیز کرنے لگے۔
دماغ جکڑنا ماسٹر صاحب کی مار نے شمن کا دماغ جکڑ لیا۔
چھومنتر ہونا چور چوری کے بعد جائے وقوعہ سے چھومنتر ہو گئے۔
نڈھال ہونا عدنان بھوک سے نڈھال ہونے لگا۔
چابکدستی سے علینہ نے گھر کے تمام کام چابکدستی سے انجام دیے۔
پھوٹ پھوٹ کر رونا والدین سے جدا ہونے پر بچے پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔
اُلّو بنانا علی ہر وقت اپنے دوسروں کو اُلّو بنانے میں مصروف رہتا ہے۔

سبق کے متن کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل جملوں کی ترتیب درست کر کے ہر جملہ دوبارہ تحریر کیجئے۔

یہ کا دیور اس ہے۔ یہ اس کا دیور ہے۔
ہو جاتا لبریز پیمانہ صبر کا اب۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا۔
دو نارنگیاں پیسے کی ایک تو کتنی ڈیڑھ روپے کی؟” ایک پیسے کی دو نارنگیاں تو ڈیڑھ روپے کی کتنی؟
ہو جاتی شام طرح اسی۔ اسی طرح شام ہو جاتی۔
مچھلی مچھلی رہے ہیں ماسٹر صاحب ایسا ہوتا معلوم کھیل ۔ ایسا معلوم ہوتا ماسٹر صاحب مچھلی مچھلی کھیل رہے ہیں۔
جاتے مان بُرا صاحب ماسٹر۔ ماسٹر صاحب برا مان جاتے۔
اتنے ہیں پیسے بتا منحوس اچھا اب پاس تیرے“؟ اچھا منحوس اب بتا تیرے پاس اتنے پیسے ہیں؟

مندرجہ ذیل جملوں میں مونث اسموں کو مذکر میں تبدیل کیجیے اور ضروری تبدیلیوں کے بعد جملہ دوبارہ تحریر کیجیے:۔

میری بہن سکول جاتی ہے۔ میرا بھائی سکول جاتا ہے۔
وہ کسی کا سوال آنکھ ٹیڑھی کر کے نقل کر لیتی۔ وہ کسی کا سوال آنکھ ٹیڑھی کر کے نقل کر لیتا۔
عورتیں گھر کا کام کرتی ہیں۔ مرد باہر کا کام کرتے ہیں۔
ہماری ممانی کل لاہور آئیں گی۔ ہمارے ماموں کل لاہور آئیں گے۔
لڑکیوں نے مل جُل کر سکول سجایا ہے۔ لڑکوں نے مل جل کر سکول سجایا ہے۔
ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی۔ باپ اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
میری ہمسائی ایک بہت اچھی خاتون ہیں۔ میرا ہمسایہ ایک بہت اچھا مرد ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ میں سے مذکر اور مونث الگ الگ کیجیے۔

موجودگی ۔ پھل ۔ عمارت ۔ شک ۔ فرض ظلم ۔ نرمی ۔ قانون ۔ بُرائی ۔ شرارت ۔

مذکر: پھل ، شک ، فرض ، ظلم ، قانون۔
مونث: موجودگی ، عمارت ، نرمی ، برائی، شرارت۔

پہلے دائرے میں دیئے گئے لفظ کے آخری حرف کی مدد سے ایک نیا لفظ بنا کر دوسرے دائرے میں لکھیے اور اپنے جملے میں بھی استعمال کیجیے اسی طرح سلسلہ جاری رکھیئے۔ الفاظ کم از کم چهار حرفی ہوں :-

الفاظ جملے
ٹیڑھی بچوں نے ٹیڑھی لکیر بنائی۔
یاری احمد اور علی میں گہری یاری تھی۔
یادگیر شاہی قلعہ ایک یادگیر عمارت ہے۔
راستہ ہمارے گھر کو کچا راستہ جاتا ہے۔
ہاتھی ہاتھی کے دانت بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
یہودی یہودی قبائل دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔