نظم کوشش و محنت تشریح، سوالات و جوابات

0

نظم “کوشش و محنت” از ” الطاف حسین حالی”

جب آے اُنہیں ہوش کچھ وقت کھو کر
رہیں بیٹھ قسمت کو اپنی نہ ہو کر
کریں کوششیں سب بہم ایک ہو کر !
رہیں داغ ذلت کا دامن سے دھو کر
نہ ہو تاب پرواز اگر آسماں تک
تو واں تک اُڑیں ہو رسائی جہاں تک

یہ اشعار “الطاف حسین حالی” کی نظم “کوشش و محنت” سے لیے گئے ہیں۔ یہ نظم مسدس ترکیب بند ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے ہیں جب وقت کو ضائع کرنے کے بعد انھیں ہوش آتا ہے تو وہ اپنی قسمت کو لے کر بیٹھے رہتے ہیں وہیں اگر سب لوگ مل کر ایک ساتھ کوشش کریں تو ذلت و رسوائی کا داغ اپنے دامن سے مٹایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے یا بلند پروازی کی طاقت نہ ہو تو اس کو کم از کم وہاں تک ضرور اڑنا چاہیے جتنا اس کے لیے ممکن ہو یعنی اپنی بساط کے مطابق کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

پڑا ہے وہی وقت اب ہم پہ آکر
کہ اُٹھے ہیں سوتے بہت دن چڑھا کر
سواروں نے کی راہ طے باگ اُٹھا کر
گئے قافلے ٹھہر منزل پہ جا کر
گر افتان و خیزاں سدھارے بھی اب ہم
تو پہنچے بھلا جا کے منزل پہ کب ہم

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اب ہم پہ بھی وہ وقت آ گیا ہے کہ جب دن چڑھے سو کر اٹھتے تھے۔ اپنی منزل تک جانے والے سواروں نے لگام تھام کر اپنی منزل بھی طے کر لی۔قافلے اپنی منزلوں پہ جا کر ٹھہر گئے ہیں لیکن ہم گرتے پڑتے ابھی خود کو سدھار رہے ہیں تو ہم بھلا کس وقت اپنی منزل پہ پہنچیں گے؟

مگر بیٹھے رہنے سے چلنا ہے بہتر
کہ ہے اہل ہمت کا اللہ یاور
جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر
تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھا کے سر پر
یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی
چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ مگر ہمت ہار کر بیٹھ جانے سے بہتر ہے کہ ہم چلتے رہیں اور کوشش جاری رکھیں کیوں کہ ہمت کرنے والوں کا ساتھ اللہ دیتا ہے۔اگر وقت رہتے ٹھنڈک میں یعنی سویرے چلنے کا فیصلہ نہ کیا تو دھوپ سہتے سہتے منزل تک پہنچو گے۔یہ تکلیف اور آرام سب اتفاقی باتیں ہیں کہ اب بھی وقت باقی ہے چلنا شروع کر دو۔

ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے
لیا جس نے پھل بیج بو کر لیا ہے
کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے
مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے
یو نہیں وقت سو سو کے ہیں جو گنواتے
وہ خرگوش کچھووں سے ہیں زک اُٹھاتے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ وہی یہاں کامیاب ہوا ہے جس نے کچھ کوشش کی ہے۔ جس نے پھل بیچ بویا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی کوشش کرے کیوں کہ یہ ہی علم و عقل و دانش کی مثال اور ہنر ہے۔ وہ لوگ جو سو کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ خرگوش کی مانند کسی کچھوے سے اپنے مقدر کی ہار لکھواتے ہیں۔

یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری
جہاں دیکھئے فیض اُسی کا ہے جاری
یہی ہے کلید در فضل باری
اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری
اسی سے ہے قوموں کی یاں آبروسب
اسی پر ہیں مغرور میں اور تو سب

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں حاصل کونے والی تمام برکتیں بھی محنت ہی کی بدولت ہیں۔ جس جگہ بھی دیکھا جائے محنت کے فیوض وبرکات دکھائی دیتی ہیں۔یہی اللہ کے فضل کا کلیہ بھی ہے اور اسی پہ تمھاری عزت کا دارومدار بھی ہے اسی کی بدولت یہاں قوموں کی عزت بھی ہے اور اسی محنت کے بدلے میں اور تم یہاں مغرور بھی ہیں۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

وقت ضائع کرنے کے بعد ہوش آنے پر انسان کو کیا کرنا چاہیے؟

وقت ضائع کرنے کے بعد ہوش آنے پر انسان کو اپنی منزل کے حصول کے لیے کوشش شروع کر دینی چاہیے۔

ہمیں اب کس طرح کے وقت کا سامنا ہے؟

ہمیں اب ایسے وقت کا سامنا ہے جب ہم دن چڑھے سو کر اٹھتے ہیں۔

کہ ہے اہل ہمت کا اللہ یاور” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

اس سے شاعر کی مراد ہے کہ ہمت کرنے والوں کا اللہ مددگار ہوتا ہے۔

سوسو کے وقت گزارنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟

سو سو کہ وقت گزارنے والوں کا وہی حال ہوتا ہے جو کہ خرگوش کا کچھوے کے ہاتھوں ہوا تھا۔ یعنی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آخری بند میں شاعر نے محنت کی کیا کیا برکات بتائی ہیں؟

آخری بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں حاصل کونے والی تمام برکتیں بھی محنت ہی کی بدولت ہیں۔ جس جگہ بھی دیکھا جائے محنت کے فیوض وبرکات دکھائی دیتی ہیں۔یہی اللہ کے فضل کا کلیہ بھی ہے اور اسی پہ تمھاری عزت کا دارومدار بھی ہے اسی کی بدولت یہاں قوموں کی عزت بھی ہے اور اسی محنت کے بدلے میں اور تم یہاں مغرور بھی ہیں۔

نظم کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

وہی قو میں بامِ عروج پر پہنچتی ہیں جو مسلسل محنت اور جد و جہد کو اپنا شیوہ بناتی ہیں سست اور کاہل لوگوں کو ناکامی کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔

اس نظم کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

اس نظم میں شاعر نے محنت و کوشش اور عمل کی تلقین کی ہے کہ انسان کو جب بھی ہوش آئے وہ چاہے جتنا بھی وقت ضائع کر چکا ہو اسے اس پہ پچھتانے کی بجائے وہیں سے کوشش و محنت شروع کر دینی چاہیے۔ کیوں کہ ہمت کرنے والوں کا ساتھ اللہ دیتا ہے۔وہ لوگ جو سو کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ خرگوش کی مانند کسی کچھوے سے اپنے مقدر کی ہار لکھواتے ہیں۔اس دنیا میں حاصل کونے والی تمام برکتیں بھی محنت ہی کی بدولت ہیں۔ جس جگہ بھی دیکھا جائے محنت کے فیوض وبرکات دکھائی دیتی ہیں۔یہی اللہ کے فضل کا کلیہ بھی ہے اور اسی پہ تمھاری عزت کا دارومدار بھی ہے اسی کی بدولت یہاں قوموں کی عزت بھی ہے اور اسی محنت کے بدلے میں اور تم یہاں مغرور بھی ہیں۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے۔

الفاظ معنی
ذِلت رسوائی
تاب پرواز اڑنے کی طاقت
باگ لگام
گرافتاں و خیزاں گرتے پڑتے
یاور مددگار
بدّیا علم و ہنر
زِک نقصان / شکست
کلید چابی
فضلِ باری خدا کی مہربانی
موقوف انحصار کیا گیا

مندرجہ ذیل الفاظ کے مترادف تحریر کیجیے۔

الفاظ مترادف
قسمت نصیب
داغ نشان
ذلت رسوائی
یاور مددگار
راحت سکون
کلید چابی
پرواز اڑان

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے۔

الفاظ متضاد
آسمان زمین
بہتر بدتر
ٹھنڈک گرم
دھوپ سایہ
تکلیف راحت
عزت ذلت
مغرب مشرق

نظم کے اشعار کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل خالی جگہوں کو پر کیجیے۔

  • جب آئے انہیں ہوش کچھ وقت کھو کر
  • کہ اُٹھے ہیں سوتے بہت دن چڑھا کر
  • کہ ہے اہل ہمت کا اللہ یاور
  • وہ خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے
  • یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری
  • اسی سے ہے قوموں کی یاں آبروسب

ان چند حروف اور حرکات کے مجموعے کو قافیہ کہتے ہیں جو اشعار کے آخر میں بار بار لائے جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل کے ہم قافیہ الفاظ نظم میں سے تلاش کر کے تحریر کیجیے۔

الفاظ۔ ہم قافیہ الفاظ
کھوکر کھا کر رو کر ، دھو کر ، سو کر
اٹھا کر جاکر ، آ کر ، چڑھا کر
کیا ہے لیا ہے ، کیمیا ہے ، بدیا ہے
ساری تمھاری ، جاری ، ہماری

نظم کے عنوان ” کوشش و محنت کے حوالے سے دو اشعار تلاش کر کے تحریر کیجیے۔

چلنے والے نکل گئے
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے
جو کرتا ہے محںت زیادہ
وہ پاتا ہے لوگوں میں عصمت زیادہ

مولانا الطاف حسین حالی کی پانچ مشہور نظموں کے نام تحریر کیجیے۔

حبِ وطن ، برکھا رت ، نشاط ، امید ، مدوجزرِ اسلام، مناظرہ رحم و انصاف وغیرہ۔