نظم وطن کے لئے ایک دعا تشریح، سوالات و جوابات

0

نظم کی تشریح:

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشئہ زوال نہ ہو

یہ شعر احمد ندیم قاسمی کی نظم سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرتا اور کہتا ہے کہ اللہ کرے کہ میرے وطن کی سرزمین پہ بہار کا وہ موسم اترے جسے کبھی بھی زوال پذیر ہونے کا خوف نہ رہے اور میرا وطن دن بدن یوں ہی ترقی کرتا رہے۔

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری یہ دعا ہے کہ اس سرزمین پہ جو پھول کھلے ہوئے ہیں وہ کئی سالوں تک یوں ہی کھلے رہیں اور برقرار رہیں اور کبھی بھی یہاں پہ کسی خزاں کے موسم کا گزر نہ ہو۔

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری دعا ہے کہ میرے وطن کی سرزمین پہ جو بہار آئی ہے اور سبزہ اگا ہوا ہے میری دعا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہرا بھرا رہے کہ جس کی بعد میں کوئی مثال نہ ملے۔

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس سرزمین پر آکر گھنی بارش کی گھٹائیں ایسی بارش برسائیں کہ پتھروں پہ بھی ہریالی چھا جائے اور یہاں پہ ان پہ جب سبزہ ابھر آئے تو انھیں نامناسب نہ لگے۔

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری یہ دعا ہے کہ میرے وطن کا سر عزت و وقار سے ہمیشہ سر بلند رہے اور کبھی بھی اس کی خوبصورتی یا حسن کو اتنے سال اور مہینے گزرنے سے کوئی فکر نہ ہو۔

ہر ایک فرد ہو تہذیب وقت کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس سر زمین پہ یعنی میرے وطن میں موجود ہر ایک فرد اتنی ترقی کرے کہ وہ تہذیب کی بلندیوں کو چھوئے نہ ہی یہاں کا کوئی باسی پریشان ہو اور نہ ہی وہ خستہ حال ہو۔

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ سے میری دعا ہے کہ میرے اس وطن میں میرا کوئی بھی ہم وطن ایسا نہ ہو کہ جس کے لیے زندگی جرم بنے۔ یہاں کے کسی بھی باسی کی زندگی میں کوئی وبال یا پریشانی نہ ہو۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

شاعر نے ارض پاک کے لیے کیسی فصل گل کی دعا کی ہے؟

شاعر نے ارض پاک کے لیے ایسی فصل گل کی دعا کی ہے جسے کبھی زوال نہ ہو۔

ہر ایک شخص ہو تہذیب وفن کا اوج کمال” سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

ہر ایک شخص ہو تہذیب وفن کا اوج کمال” سے شاعر کی مراد ہے کہ یہاں کا ہر ایک انسان تہذیب و ترقی یافتہ ہو۔

شاعر نے اپنے ہم وطنوں کے لیے کیا دعا کی ہے؟

شاعر کہتا ہے کہ میری دعا ہے کہ میرے اس وطن میں میرا کوئی بھی ہم وطن ایسا نہ ہو کہ جس کے لیے زندگی جرم بنے۔ یہاں کے کسی بھی باسی کی زندگی میں کوئی وبال یا پریشانی نہ ہو۔

سرِوقار وطن سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

سر وقار وطن سے شاعر کی مراد وطن کے وقار و عزت کی سر بلندی ہے۔

اس نظم (وطن کے لئے ایک دعا) کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس نظم میں شاعر نے وطن کی عظمت ، سر بلندی ، ترقی کی دعا کی ہے کہ یہ ترقی ہو سربلندی ہمیشہ برقرار رہے اور اس کے باسی تہذیب یافتہ ہوں جن کے لیے کوئی مشکل کبھی ان کی زندگی میں نہ آئے۔

نظم (وطن کے لئے ایک دعا) کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

اس نظم میں شاعر نے وطن کی عظمت و سربلندی کی دعا کی ہے کہ میرے وطن کی سرزمین پہ ایسی فصلِ بہار اترے جسے کبھی زوال کا خدشہ نہ ہو۔یہاں کھلنے والے پھول ہمیشہ کھلے رہیں۔یہاں اگنے والے سبزے کی کہیں کوئی مثال نہ ملے۔خدا کرے میرے وطن کا وقار کبھی کم نہ ہو اور ماہ و سال گزرنے کے بعد بھی اس کے حسن کو تشویش نہ ہو۔یہاں کا ہر ایک فرد تہذیب کا اوجِ کمال ہو اور نہ کوئی ملول اور نہ ہی خستہ حال ہو۔آخر میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ سے میری دعا ہے کہ میرے اس وطن میں میرا کوئی بھی ہم وطن ایسا نہ ہو کہ جس کے لیے زندگی جرم بنے۔ یہاں کے کسی بھی باسی کی زندگی میں کوئی وبال یا پریشانی نہ ہو۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے اور انہیں اپنے جملوں میں بھی استعمال کیجیے۔

الفاظ معنی جملے
فصلِ گل بہار کا موسم اللہ کرے ہمارے وطن پہ فصلِ گل برقرار رہے۔
اندیشہ زوال ختم ہونے کا خوف ہر عروج کو اندیشہ زوال ضرور ہوتا ہے۔
روئیدگی سبزہ اگنا پہاڑوں پر ہر جانب روئیدگی پھیلی ہوئی ہے۔
تشویش فکر ، خوف مجھے تشویش ہے کہ مجھے کوئی خطرناک مرض لاحق ہے۔
اوجِ کمال بلندی ہمارا وطن ترقی کرتے ہوئے اوجِ کمال کو چھوئے گا۔
خستہ حال تباہ و برباد اس کے گھر کا حال خاصا خستہ حال تھا۔

مندرجہ ذیل اشعار کو نثر میں تبدیل کیجیے۔

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلا ہے وہ صدیوں کھلا رہے اور یہاں سے کبھی خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو۔

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

خدا کرے میرے وطن کا وقار کبھی کم نہ ہو اور ماہ و سال گزرنے کے بعد بھی اس کے حسن کو تشویش نہ ہو۔

ہر ایک فرد ہو تہذیب وقت کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

یہاں کا ہر ایک فرد تہذیب کا اوجِ کمال ہو اور نہ کوئی ملول اور نہ ہی خستہ حال ہو۔

مندرجہ ذیل واحد کے جمع تحریر کیجیے۔

واحد جمع
وطن اوطان
دعا دعائیں
ارض اراض
فرد افراد
حال احوال
جرم جرائم
کمال کمالات
فن فنون

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے-

الفاظ متضاد
پاک ناپاک
زوال عروج
خزاں بہار
زندگی موت
حسن بدصورتی
ملول خوشی
جاہل عالم
کمی زیادتی