نظم گاؤں کی تشریح، سوالات و جوابات

0

نظم “گاؤں” از مجید امجد

نظم گاؤں کی تشریح

یہ تنگ و تار جھونپڑیاں گھاس پھوس کی
اب تک جنہیں ہوا نہ تمدن کی چھوسکی
ان جھونپڑوں سے دور اور اس پار کھیت کے
یہ جھاڑیوں کے جھنڈ یہ انبار ریت کے
یہ سادگی کے رنگ میں ڈوبا ہوا جہاں
ہنگامہ جہاں ہے سکوں آشنا جہاں

یہ اشعار مجید امجد کی نظم “گاؤں ” سے لیے گئے ہیں۔اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہ گھاس پھوس کی جو تنگ و تاریک جھونپڑیاں دکھائی دیتی ہیں یہ اتنی قدیم ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج تک انھیں جدید تہذیب و تمدن کی ہوا نے بھی نہ چھوا ہو۔ انھی جھونپڑیوں سے دور اور کھیتوں سے بھی پرے جو جھاڑیوں کے جھنڈ اور ریت کے انبار دکھائی دیتے ہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ سادگی کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ایک پوری دنیا ہے اس جہاں یعنی دنیا سے کئی سکون کے لمحات جڑے ہوئے ہیں۔

یہ دوپہر کو کیکروں کی چھاؤں کے تلے
گرمی سے ہانپتی ہوئی بھینسوں کے سلسلے
ریوڑ یہ بھیڑ بکریوں کے اُونگھتے ہوئے
جھک کر ہر ایک چیز کی بو سونگھتے ہوئے
یہ آندھیوں کے خوف سے سہمی ہوئی فضا
جنگل کی جھاڑیوں سے سنکتی ہوئی ہوا

اس بند میں شاعر نے گاؤں میں موجود گرمی کے موسم کی منظر کشی کی ہے شاعر کہتا ہے کہ گاؤں کی خوبصورت یادوں میں ایک خوبصورت لمحہ یہاں کے کیکر کے پیڑوں کی چھاؤں میں بیٹھنا ہے۔ گاؤں میں موجود بھینسوں کا گرمی میں ہانپنا اور ساتھ ہی بھیڑ بکریوں کے اونگھتے ہوئے ریوڑ اس کی دلکشی کو بڑھاتے ہیں۔یہ جانور جھک کر ہر ایک چیز کی بو سونگھتے دکھائی دیتے ہیں یہی نہیں یہاں کی فضا ہر وقلت آندھیوں کے خوف میں جکڑی رہتی ہے اور جنگل کی جھاڑیوں سے ہوا سسک سسک کر آتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ شام کے مناظر رنگیں کی خامشی
اور اس میں گونجتی ہوئی جھینگر کی راگنی
بچے غبار راہگزر پھانکتے ہوئے
میدان میں مویشیوں کو ہانکتے ہوئے
برفاب کے دفینے اگلتا ہوا کنواں
یہ گھنگھروؤں کی تال پر چلتا ہوا کنواں

اس بند میں شاعر کہتا ہے شام کے وقت گاؤں کا منظر بہت دلفریب ہوتا ہے کہ یہاں ایک رنگین خاموشی طاری ہوتی ہے اور اس خاموشی کو چیرتی ہوئی محض جھینگر کی آواز سنائی دیتی ہے۔ بچے یہاں میدانوں میں اپنے مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اور راستوں کا گرد و غبار پھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کے کنویں کا پانی کسی برفانی چشمے کی سی ٹھنڈک لیے ہوئے ہوتا ہے جبکہ کی کنویں کی چال کو شاعر نے گھنگھروؤں کی تاپ سے تشبیہ دی ہے کہ جب کنواں چلتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گھنگھروؤں کی تاپ سنائی دے رہی ہو۔

یہ کھیت یہ درخت یہ شاداب گر دو پیش
سیلاب رنگ و بو سے یہ سیراب گرد و پیش
مست شباب کھیتیوں کی گلفشانیاں
دوشیزہ بہار کی اُٹھتی جوانیاں
یہ نزہت مظاہر قدرت کی جلوہ گہ
ہاں ہاں یہ حسن شاہد فطرت کی جلوہ گہ
دُنیا میں جس کو کہتے ہیں گاؤں یہی تو ہے
طوبی کی شاخ سبز کی چھاؤں یہی تو ہے

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ یہاں کے کھیت و کھلیان اور سر سبز و شاداب درخت اور یہاں کی فضا مٹیالے رنگ اور سیلاب کی رنگ و بو سے بسی ہوئی ہے۔ یہاں کے کھیتوں کا جوبن پورے عروج پہ دکھائی دیتا ہے جو اپنے رنگ بکھیر رہا ہے۔جس کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی دوشیزہ اپنے جلوے بکھیر رہی ہو۔ان کی یہ تروتازگی قدرت کا جلوہ ہے اور یہ تمام جلوے اور مناظر قدرت کے حسن کے گواہ ہیں۔ اس دنیا میں جسے گاؤں کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے وہ سرسبز اور خوشگوار خطہ کوئی اور نہیں بلکہ یہی ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

گاؤں کی جھونپڑیاں کیسی ہوتی ہیں اور اُن میں کیا خاص بات ہوتی ہے؟

گاؤں کی جھونپڑیوں کی خاص بات ان کی سادگی ہے۔ یہ گھاس پوس سے بنی ہوتی ہے جن کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کی ہوا نے کبھی ان کو چھوا بھی نہیں ہے۔

یہ سادگی کے رنگ میں ڈوبا ہوا جہاں سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

سادگی کے رنگ میں ڈوبے ہوئے جہاں سے شاعر کی مراد اس کا گاؤں ہے۔

شاعر نے گاؤں کے بچوں کو کس انداز میں پیش کیا ہے؟

شاعر کے مطابق گاؤں کے بچے مویشیوں کو ہانکتے اور راستے کی گرد و غبار چھانتے پھرتے ہیں۔

شاعر نے گاؤں کے کنویں کا منظر کن الفاظ میں کھینچا ہے؟

شاعر کے مطابق گاؤں کے کنویں کا پانی کسی برف کے آبشار کی طرح میٹھا اور ٹھنڈا ہے جبکہ کنویں کی آواز یوں ہے کہ جیسے گھنگھروؤں کی تال ہو۔

نظم کے آخری شعر کی وضاحت کیجیے۔

نظم کے آخری شعر میں شاعر نے نظم کا نچوڑ پیش کیا ہے کہ اس دنیا میں جسے گاؤں کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے وہ سرسبز اور خوشگوار خطہ اور ٹھنڈی سایہ دار جگہ کوئی اور نہیں بلکہ یہی ہے۔

نظم “گاؤں” کا خلاصہ تحریر کریں۔

اس نظم میں شاعر نے گاؤں کی منظر کشی کی ہے کہ گاؤں کی جھونپڑیوں کی خاص بات ان کی سادگی ہے۔ یہ گھاس پوس سے بنی ہوتی ہے جن کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کی ہوا نے کبھی ان کو چھوا بھی نہیں ہے ان سے دور اور کھیتوں سے پرے جس زندگی کا آغاز ہے وہ گاؤں کہلاتا ہے یہاں جانور چرتے دکھائی دیتے ہیں گرمی کی شدت اس کے حسن کو اور دوبالا کرتی ہے۔ یہاں کے کھیت کھلیان انسان کے مزاج ہر خوشگوار اثر ڈالتے ہیں۔گاؤں کے بچے مویشیوں کو ہانکتے اور راستے کی گرد و غبار چھانتے پھرتے ہیں۔گاؤں کے کنویں کا پانی کسی برف کے آبشار کی طرح میٹھا اور ٹھنڈا ہے جبکہ کنویں کی آواز یوں ہے کہ جیسے گھنگھروؤں کی تال ہواور اس دنیا میں جسے گاؤں کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے وہ سرسبز اور خوشگوار خطہ اور ٹھنڈی سایہ دار جگہ کوئی اور نہیں بلکہ یہی ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے۔

الفاظ معنی
تمدن ثقافت
تنگ و تار تاریک
انبار ڈھیر
راگنی گیت / سر
سنکتی سنسناتی
برفاب ٹھنڈا پانی
گلفشانیاں پھول بکھیرتی
نزہت تروتازگی / خوشبو
طوبٰی اچھا / خوشگوار

نظم کے اشعار کو مدنظر رکھتے ہوئے خالی جگہیں پر کیجئے۔

  • یہ سادگی کے رنگ میں ڈوبا ہوا جہاں
  • گرمی سے ہانپتی ہوئی بھینسوں کے سلسلے
  • یہ آندھیوں کے خوف سے سہمی ہوئی فضا
  • بچے غبار راہگزر پھانکتے ہوئے
  • یہ کھیت یہ درخت یہ شاداب گر دو پیش
  • دُنیا میں جس کو کہتے ہیں گاؤں یہی تو ہے

مندرجہ ذیل واحد کے جمع اور جمع کے واحد تحریر کیجئے۔

واحد جمع
سلسلہ سلسلے
فضا فضائیں
منظر مناظر
مظہر مظاہر
تکلیف تکالیف
حاضر حاظرین
مقصد مقاصد
حرکت حرکات