سبق : بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق کا خلاصہ:

اس سبق میں مصنف نے آلوکے حوالے سے بیان کیا ہےساتھ ہی زیادہ سبزی کھانے کے فوائد کو ذہن نشین کرایا ہے۔اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ دسمبر 1951ء میں میں منٹگمری گیا تھا۔منٹگمری کے پلیٹ فارم پر اترتے ہی محسوس ہوا گویا سردی سے خون رگوں میں جم گیا ہے۔ ادھر چائے کے اسٹال کے پاس ایک بڑے میاں گرم چائے کے بجائے مالٹے کارس ہیے چلے جا رہے تھے۔

اس بندہ خدا کو دیکھ دیکھ کر اور دانت بجنے لگے۔اس لیے کراچی کا دائمی حبس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ بے طرح یاد آئے۔ مرزا نے جس ہوٹل میں قیام کیا اس کا اصلی نام آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ سب اسے ہوٹل ہذٰا کہتے تھے۔ اس ہوٹل میں کمرہ صرف ایک ہی تھا جس پر جلی حروف میں کمرہ نمبر1 لکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہوٹل میں کوئی دوسرا کمرہ نہ تھا اور نہ ہی دور تک اس کی تعمیر کے کوئی امکان تھے۔کیونکہ اس کے تین اطراف میونسپلٹی کی سڑک تھی جبکہ چوتھی طرف گندی نالی تھی جو شہر کی گندگی کو سمیٹے ہوئے تھی۔

اٹیچڈ باتھ روم تو نہیں البتہ اٹیچڈ تندور مقجقد تھا جس کی وجہ سے کڑاکے کی سردی میں بھی کمرہ خاصا گرم تھا۔پہلی رات کو مرزا بنیان پہنے سورہے تھے کہ تین بجے صبح جو تپش سے ایکا ایکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امام دین بیرا ان کے سرہانے ہاتھ بھر لمبی خون آلود چھری لیے کھڑا ہے۔ انھوں نے فوراً اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ پھر چپکے سے بنیان میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پر چٹکی لی اور پھر کلمہ پڑھ کے اتنی زور سے چیخ ماری کہ امام دین اُچھل پڑا اور چھری چھوڑ کر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو تین ہیرے سمجھا بجھا کر اُسے واپس بلوا لائے۔

اس کے اوسان بجا ل ہوئے تو معلوم ہوا کہ چھری سے وہ ننھی بھڑیں ذبح کر رہا تھا اور اس نے انھیں یقین دلایا کہ آئندہ وہ اسے نہیں ڈرائے گا۔اس نے مزید بتایا کہ منٹگمری میں لوگ جانور حلال کرکے گوشت کھاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی مصنف ان لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا جو لوگ جلدی سوتے اور جلدی اٹھتے تھے۔مگر نیند کا اصل مزا اور سونے کا صحیح لطف آتا ہی اس وقت ہے جب آدمی اٹھنے کے مقررہ وقت پر سوتا رہے کہ اسی ساعت دزدیدہ میں نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے۔

اسی لیے کسی جانور کو صبح دیر تک سونے کی صلاحیت نہیں بخشی گئی۔یہاں مصنف نے ںاشتے میں آلو چھولے ،دوپہر میں آلو پنیر کھایا۔ اگلے روز ناشتے میں بیرا منٹگمری کے اصلی گھی میں تلی ہوئی پوریاں ناشتے میں لایا۔ یہاں ذبح کی گئی بٹریں پیش کی جاتی تھیں۔چونکہ کراچی میں مویشیوں کا گوشت کھاتے کھاتےمصنف کی طبیعت اُکتا گئی تھی۔ لہذا دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ جب تک منٹگمری کا آب و دانہ ہے طیور کے سوا کسی چیز کے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ لنچ پر بھنی ہوئی بیٹر چائے کے ساتھ بٹیر کا تنوری چرغا سونے سے پہلے بٹیر کا آب جوش۔

اس رہائشی تنور میں فروکش ہوئے ہمیں چوتھا دن تھا اور تین دن سے ہی اللے تللے تھے۔ چوتھی صبح ہم زانو پہ تولیہ اور تولیے پر ٹرے رکھے تلی ہوئی بٹیر سے ناشتہ کر رہے تھے کہ بیرے نے جھاڑن پھر منہ میں ٹھونس لی۔ مصنف نے جب بیرے سے پوچھا کہ اس کے ہوٹل میں کون سا من و سلویٰ اترتا ہے تو وہ بتانے لگا کہ جناب!! ….

آلو مٹر، آلو گوبھی، آلو میتھی آلو گوش ( گوشت)، آلو مچھی (مچھلی)، آلو بریانی اور خدا تمہارا بھلا کرئے آلو کوفتہ آلو بڑیاں آلو سموسہ آلو راستہ آلو کا بھرتا، آلو کیاں (قیمہ) ہم نے روک کر پوچھا اور سویٹ ڈش؟ بولا آلو کی کھیر ہم نے کہا ”بھلے آدمی! تم نے تو آلو کا پہاڑا سنا دیا۔ تمہارے ہوٹل میں کوئی ایسی ڈش بھی ہے جس میں آلو کا نام نہ آئے۔ یعنی کہ ہوٹل کی ہر ڈش میں آلو موجود تھا۔اس کا قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک ہیڈ کانسٹیبل جب زراعت سے منسلک ہوا تو زمین سے آلو کی صورت میں سونا اگلوانے کی کوشش کرنے لگا۔جس میں اس نے اپنی پنشن سمیت سب کچھ لٹا دیا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے:۔

منگری کے اسٹیشن پر مرزا کو کراچی کا دائمی جس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ کیوں یاد آئے ؟

منٹگمری کے پلیٹ فارم پر اترتے ہی محسوس ہوا گویا سردی سے خون رگوں میں جم گیا ہے۔ ادھر چائے کے اسٹال کے پاس ایک بڑے میاں گرم چائے کے بجائے مالٹے کارس ہیے چلے جا رہے تھے۔ اس بندہ خدا کو دیکھ دیکھ کر اور دانت بجنے لگے۔اس لیے کراچی کا دائمی حبس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ بے طرح یاد آئے۔

مرزا نے کسی ہوٹل میں قیام کیا اور انہیں کس قسم کے کمرے میں رکھا گیا ؟

مرزا نے جس ہوٹل میں قیام کیا اس کا اصلی نام آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ سب اسے ہوٹل ہذٰا کہتے تھے۔ اس ہوٹل میں کمرہ صرف ایک ہی تھا جس پر جلی حروف میں کمرہ نمبر1 لکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ہوٹل میں کوئی دوسرا کمرہ نہ تھا اور نہ ہی دور تک اس کی تعمیر کے کوئی امکان تھے۔کیونکہ اس کے تین اطراف میونسپلٹی کی سڑک تھی جبکہ چوتھی طرف گندی نالی تھی جو شہر کی گندگی کو سمیٹے ہوئے تھی۔اٹیچڈ باتھ روم تو نہیں البتہ اٹیچڈ تندور مقجقد تھا جس کی وجہ سے کڑاکے کی سردی میں بھی کمرہ خاصا گرم تھا۔

پہلی رات مرزا کی آنکھ کیسے کھلی اور انہوں نے کیا دیکھا؟

پہلی رات کو مرزا بنیان پہنے سورہے تھے کہ تین بجے صبح جو تپش سے ایکا ایکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امام دین بیرا ان کے سرہانے ہاتھ بھر لمبی خون آلود چھری لیے کھڑا ہے۔ انھوں نے فوراً اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ پھر چپکے سے بنیان میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پر چٹکی لی اور پھر کلمہ پڑھ کے اتنی زور سے چیخ ماری کہ امام دین اُچھل پڑا اور چھری چھوڑ کر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو تین ہیرے سمجھا بجھا کر اُسے واپس بلوا لائے۔ اس کے اوسان بجا ل ہوئے تو معلوم ہوا کہ چھری سے وہ ننھی بھڑیں ذبح کر رہا تھا۔

نیند کا اصل مزا اور سونے کا لطف کس وقت آتا ہے؟

نیند کا اصل مزا اور سونے کا صحیح لطف آتا ہی اس وقت ہے جب آدمی اٹھنے کے مقررہ وقت پر سوتا رہے کہ اسی ساعت دزدیدہ میں نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی جانور کو صبح دیر تک سونے کی صلاحیت نہیں بخشی گئی۔

مرزانے یہ فیصلہ کیوں کیا کہ جب تک منٹگمری کا آب و دانہ ہے طیور کے سواکسی چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گے؟

کراچی میں مویشیوں کا گوشت کھاتے کھاتے طبیعت اُکتا گئی تھی۔ لہذا دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ جب تک منٹگمری کا آب و دانہ ہے طیور کے سوا کسی چیز کے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ لنچ پر بھنی ہوئی بیٹر چائے کے ساتھ بٹیر کا تنوری چرغا سونے سے پہلے بٹیر کا آب جوش ۔ اس رہائشی تنور میں فروکش ہوئے ہمیں چوتھا دن تھا اور تین دن سے ہی اللے تللے تھے۔ چوتھی صبح ہم زانو پہ تولیہ اور تولیے پر ٹرے رکھے تلی ہوئی بٹیر سے ناشتہ کر رہے تھے کہ بیرے نے جھاڑن پھر منہ میں ٹھونس لی۔

بیرے نے ہوٹل میں ملنے والی کون سی ڈشوں کے نام گنوائے اور ان سب ڈشوں میں خاص بات کیا تھی؟

بیرے نے ہوٹل میں ملنے والی جن ڈشوں کے نام گنوائے وہ یہ تھے۔جناب!! …. آلو مٹر، آلو گوبھی، آلو میتھی آلو گوش ( گوشت)، آلو مچھی (مچھلی)، آلو بریانی اور خدا تمہارا بھلا کرئے آلو کوفتہ آلو بڑیاں آلو سموسہ آلو راستہ آلو کا بھرتا، آلو کیاں (قیمہ) ہم نے روک کر پوچھا اور سویٹ ڈش؟ بولا آلو کی کھیر ہم نے کہا ”بھلے آدمی! تم نے تو آلو کا پہاڑا سنا دیا۔ تمہارے ہوٹل میں کوئی ایسی ڈش بھی ہے جس میں آلو کا نام نہ آئے۔ یعنی کہ ہوٹل کی ہر ڈش میں آلو موجود تھا۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے:۔

الفاظ معنی
غیبت کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا
دائمی ہمیشہ رہنے والا
بعید دور
ترش روئی بد مزاجی / چڑچڑاپن
رمز چھپی ہوئی بات / اشارہ
درزدیدہ چرایا ہوا
اضطراری بے اختیار
فروکش قیام کرنا / رہنا
سبکدوش مطمئن / آسودہ

مندرجہ ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:۔

الفاظ جملے
ڈول ڈالنا سرسید نے علی گڑھ میں مسلمانوں کی اعلٰی تعلیم کی ڈول ڈالی۔
آب و دانہ اٹھنا یوں لگتا ہے کہ میرا اس دنیا سے آب و دانہ اٹھ چکا ہے۔
اللّے تللّے کرنا احمد نے اپنے والدین کی تمام جمع پونجی اللے تللے کرنے میں اڑا دی۔
دانت بجنا مارے سردی کے علینہ کے دانت بجنے لگے۔
ہوا سے باتیں کرنا گاڑی کی رفتار ایسی تھی گویا ہوا سے باتیں کرتی ہوئی جا رہی ہو۔

مندرجہ ذیل جملوں کو درست کر کے اپنی کاپی میں تحریر کیجیے:۔

آپ سے ممکن ہو سکے تو میرا کام کر دیجیے۔ آپ سے ممکن ہو تو میرا کام کر دیجیے۔
یہ خبر سن کر میرے بدن پر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ خبر سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
احمد شام کے چار بجے حامد کو ملا۔ احمد شام چار بجے حامد کو ملا۔
آب زمزم کے پانی میں بڑی برکت ہے۔ آب زمزم میں بڑی برکت ہے۔
اس دور میں غریب بے چارے فاقے مر رہے ہیں۔ اس دور میں غریب بے چارے فاقے کر رہے ہیں۔
امتحان میں سُرخ سیاہی سے لکھنا منع ہے۔ امتحان میں سُرخ روشنائی سے لکھنا منع ہے۔
ان دونوں کتابوں میں اکیس بیس کا فرق ہے۔ ان کتابوں میں اکیس بیس کا فرق ہے۔
شب لیلتہ القدر بڑی ہی مبارک رات ہے۔ لیلتہ القدر بڑی ہی مبارک رات ہے۔
مجھے کراچی جانا ہے۔ میں نے کراچی جانا ہے۔
ناچ نہ جانے آنگن تنگ۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔

مندرجہ بالا خانے میں دیے گئے حروف کو جوڑ کر دس الفاظ اس طرح بنائیں کہ ہر لفظ کم از کم چہار حرفی ہو۔

  • س، ک ، م ، الف ، ی ، ن ، ل
  • مثلاً= مکان
  • کسان ، امکان ، مسلمان ، کیلا ، نسیم ، انکل ، مکمل ، اکمل ، اسکی ، نلکی ، نیلم ، نکسل۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے-

الفاظ متضاد
فوائد نقصان
سردی گرمی
تپش ٹھنڈک
تازہ باسی
عقلمند بے وقوف
حلال حرام
خالص ملاوٹ شدہ
مردہ زندہ

مندرجہ ذیل الفاظ کے مترادف تحریر کیجئے۔

الفاظ مترادف
خون لہو
بعید دور
تپش گرمائش
لطف مزا
مات شکست
معمول روزانہ کا کام
ساعت گھڑی/ لمحہ
صلاح مشورہ