جنگ یرموک کا ایک واقعہ نظم کی تشریح ،سوالات جوابات

0

اشعار کی تشریح:

صف بستہ تھے عرب کے جوانانِ تیغ بند
تھی منتظر حنا کی عروسِ زمینِ شام

جنگ یرموک: یرموک دمشق کے قریب ایک میدان کا نام ہے جس میں 15 ھ میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ یہ وہ میدان ہے جہاں حضرت ابوعبید ہبن جراح کی سپہ سالاری میں صرف بیس ہزار مسلمان سپاہیوں کے لشکر نے روم کے ان عساکر کو شکست فاش دی جن کی تعداد دو لاکھ بتائی جاتی ہے ۔ حضرت ابو عبیدہبن جراح نے اس معرکے کے بعد فاتح شام کی حیثیت سے شہرت پائی ۔ اس جنگ کے آغاز میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جس کو اقبال نے ان اشعار میں نظم کیا ہے ۔اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میدان جنگ میں رومی افواج کے مقابلے پر عرب افواج کے تیغ و تلوار سے مسلح دستے صف آرا تھے اور شام کی سرزمین پر ہر دو افواج کے سرفروشوں کا خون بہنے والا تھا۔ یہاں کی سر زمین اپنی حنا بندی کے لیے تیار تھی۔

اک نوجوان صورتِ سیمابِ مضطرب
آ کر ہوا امیرِ عساکر سے ہم کلام

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس لمحے مسلمان افواج سے ایک نوجوان بڑی تیزی سے اپنی صف سے برآمد ہوا او ر امیر لشکر حضرت ابوعبیدہسے دست بستہ درخواست کی اور ان سے بات کرتے ہوئے کچھ یوں مخاطب ہوا۔

اے ابو عبیدہ! رخصتِ پیکار دے مجھے
لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کا جام

کہ اے ابو عبیدہ میرا صبر و سکون دشمنوں سے نبرد آزمائی کے لیے رخصت ہو چکا ہے ۔میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ لہذا مجھے سب سے پہلے جنگ کی اجازت دیجیے۔

بیتاب ہو رہا ہوں فراقِ رسول میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام

اس لیے کہ میں تو آنحضرت کی جدائی میں بیتاب ہو رہا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ عشق رسول میں ایک لمحے کی زندگی بھی حرام ہے۔

جاتا ہوں میں حضورِ رسالت پناہ میں
لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام

بندہ پرور! میں تو بلا تاخیر آنحضرت کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا خواہاں ہوں ۔ ہاں اگر آپ ان کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں تو میں بخوشی حضورتک پہنچا دوں گا۔

یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ
جس کی نگاہ تھی صفتِ تیغِ بے نیام

لشکر اسلام کے امیر ابو عبیدہ ایک لمحے تک خاموش رہے اور اس نوجوان میں راہ حق میں شہادت کا جوش و خروش دیکھ کر شدت جذبات سے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ ہر چند کہ ان نگاہوں میں تلوار کی سی کاٹ تھی پھر بھی آنسو بہنے لگے۔

بولا امیرِ فوج کہ وہ نوجوان ہے تو
پِیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام

وہ نوجوان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ تیری شہادت کی آرزو رب ذوالجلال پوری کرے تاہم یہ ثابت ہو گی کہ حضورسے تیری محبت کا مقام بہت بلند ہے اور سب پہ اس محبت کا احترام واجب بھی ہے۔

پوری کرے خدائے محمد تری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام

حضرت محمدکے خدا تیری خواہش پوری کرے ۔ تیری محبت کا مقام بہت اعلیٰ و بلند ہے۔ جس کا اپنی منزل کو پانا ضروری ہے۔

پہنچے جو بارگاہِ رسولِ امین میں تو
کرنا یہ عرض مری طرف سے پس از سلام

اے نوجوان! جب تو اپنی مراد پالے اور بارگاہ رسالت میں پیش ہو تو اس غلام یعنی ابو عبیدہ کی جانب سے بعد از سلام دست بستہ گزارش کرنا۔

ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے حضور نے

کہ ہم پر رب ذوالجلال نے اپنی رحمتوں کی بارش کر دی ہے اور حضورنے امت مسلمہ سے جو وعدے کیے تھے وہ ایک ایک کر کے پورے ہو رہے ہیں۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

جنگ میں کون لوگ شریک تھے اور یہ کہاں ہو رہی تھی ؟

اس جنگ میں مسلمان نوجوان اور رومی فوجی شامل تھے اور یہ جنگ ملک شام میں ہو رہی تھی۔

نوجوان نے اپنے امیر سے کیا کہا ؟

نوجوان نے اپنے امیر سے کہا کہ کہ اے ابو عبیدہ میرا صبر و سکون دشمنوں سے نبرد آزمائی کے لیے رخصت ہو چکا ہے ۔میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ لہذا مجھے سب سے پہلے جنگ کی اجازت دیجیے۔

نوجوان کو کس چیز نے بے تاب کر رکھا تھا؟

نوجوان نے بتایا کہ میں تو آنحضرت کی جدائی میں بیتاب ہو رہا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ عشق رسول میں ایک لمحے کی زندگی بھی حرام ہے۔

امیر فوج نے نوجوان کے لیے کیا دعا کی؟

امیر فوج نے نوجوان کو دعا دی کہ حضرت محمدکے خدا تیری خواہش پوری کرے ۔ تیری محبت کا مقام بہت اعلیٰ و بلند ہے۔ جس کا اپنی منزل کو پانا ضروری ہے۔

نظم کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

مسلمان اپنے مذہب سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں اور جذبہ ایمان اور عشق رسول ﷺ سے سرشار ہوتے ہیں اور ان میں جذبۂ شہادت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ نظم جنگ یرموک کا ایک واقعہ بھی ایک ایسی ہی جنگ کا واقعہ ہے جس میں مسلمانوں نے اپنی بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔

نظم کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

اس نظم میں شاعر نے رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان دمشق میں ہونے والی جنگ کو موضوع بنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب نوجوانوں کے دستے اس جنگ کے لیے تیار تھے جبھی ایک نوجوان نے آ کر اس فوج کے سپہ سالار ابو عبیدہ سے اس جنگ کی اجازت مانگی کہ وہ شہادت کے رتبے پہ فائز ہونا۔ اہتا تھا کیونکہ اس کی روح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے بے تاب تھی اور یہی نہیں وہ اپنے سپہ سالار سے کہنے لگا کہ وہ ان کا پیغام بھی بارگاہ رسالت میں پہنچائے گا۔ سپہ سالار نے اسے کہا کہ وہ اس کے جذبے کی قدر کرتے ہیں اور امیر فوج نے نوجوان کو دعا دی کہ حضرت محمدکے خدا تیری خواہش پوری کرے۔ تیری محبت کا مقام بہت اعلیٰ و بلند ہے۔ جس کا اپنی منزل کو پانا ضروری ہے۔ اس نوجوان کے ہاتھ بارگاہ رسالت پیغام بھیجا کہ ہم پر رب ذوالجلال نے اپنی رحمتوں کی بارش کر دی ہے اور حضورنے امت مسلمہ سے جو وعدے کیے تھے وہ ایک ایک کر کے پورے ہو رہے ہیں۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کے کیجیے۔

الفاظ معنی
صف بستہ قطار باندھے ہوئے
سیماب بے چین ، بے قرار
مضطرب بے چین
امیرِ عساکر سپہ سالار
پیکار لڑائی
تیغِ بے نیام ننگی تلوار
تیغ بند ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے

اس نظم میں سے چار ہم قافیہ الفاظ چن کر تحریر کیجیے اور ان کے مزید چار ہم قافیہ الفافہ بنا ئیے۔

شام دام ، رام ، نام ، کام
کلام ہم نام ، گمنام ، غلام ، سلام
پیام قیام ، نیلام صیام
احترام نام ، دام ، حرام

مندرجہ ذیل واحد کے جمع اور جمع کے واحد بنائیے۔

واحد جمع
جوان جوانان
عسکر عساکر
امیر امراء
مقام مقامات
ملت ملل
تعلیم تعلیمات
فوج افواج
پیغام پیغامات

علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار مکمل کیجیے۔

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و عطاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
چھپٹنا، پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔
ہومرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

بتائیے کہ مندرجہ ذیل الفاظ تراکیب قواعد کے اعتبار سے کیا ہیں؟

الفاظ و تراکیب قواعد
سیماب مضطرب اضافت
بوعبیدہ اسم علم/ اسم معرفہ
صبر و سکون حرف عطف
زمین شام اضافت
صف بسته توصیفی
رسول امین اضافت
امیر فوج اضافت
تیغ اسم آلہ