سبق : علی بخش ، خلاصہ، سوالات و جوابات

0

سبق کا خلاصہ علی بخش از قدرت اللہ شہاب

سبق ” علی بخش” قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی ” شہاب نامہ” سے لیا گیا ہے۔ جس میں مصنف نے علامہ محمد اقبال کے ذاتی ملازم علی بخش کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔مصنف کسی کام سے لاہور گئے جہاں ان کی ملاقات علی بخش سے ہوئی۔وہاں خواجہ عبدالرحیم نے مصنف سے کہا کہ علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائلپور میں ایک مربعہ زمین عطا کی ہے۔ جس پر کچھ شریر لوگ ناجائز طور پر قابض ہیں جھنگ چونکہ لائل پور کے قریب ہے تو کیا تم قبضہ دلانے میں کچھ مدد نہیں کر سکتے؟ مصنف نے حامی بھری اور اپنی موٹر کار میں انھیں جھنگ لے جانے کی حامی بھری اور کہا کہ قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔

مصنف کا تعارف علی بخش سے بطور جھنگ کے ڈپٹی کمشنر کے کرایا گیا۔علی بخش زمین کے حصول کے لیے لاہور سے نکلنے میں ہچکچاتا تھا کیونکہ علی بخش کا ماننا تھا کہ میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے نہ جانے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ لاہور سے جاؤں تو جاوید کا نقصان ہو گا اور جاوید بھی کہے گا کہ نجانے بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا ہے۔ لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ جھنگ جانے پر آمادہ ہو گئے۔

علی بخش کا خیال تھا کہ میں بھی باقی لوگوں کی طرح ان سے علامہ اقبال کے بارے میں سوالات کروں گا۔لیکن مصنف کا خیال تھا کہ اگر علامہ اقبال واقعی علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں تو یہ جوہر مشک کی طرح خود بخود ظاہر ہو گا اس لیے انھوں نے علی بخش سے علامہ اقبال کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھنے کا ارادہ کیا۔ مصنف کی توقعات کے مطابق علی بخش خود ہی ڈاکٹر صاحب کا ذکر کرنے لگے۔

ایک سینما کے باہر بھیڑ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ مسجدوں کے سامنے تو ایسا رش کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔پھر وہ علامہ اقبال کے شوق کے بارے میں بتانے لگے کہ وہ خوب حقہ پیتے تھے۔ شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے۔یہاں کے ایک مسلمان تحصیل دار ان کے پکے مرید تھے انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو دعوت پہ مدعو کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب آموں کے بہت شوقین تھے۔

وفات کے چھ برس قبل ان کا کھانا پینا بہت کم ہو گیا تھا۔ پھر علی بخش ان کی وفات کا قصہ سنانے لگے کہ وفات کے وقت ان کی آنکھوں میں ہلکی نیلی سی چمک آئی اور زبان سے اللہ نکلااور وہ رخصت ہو گئے۔مصنف نے علی بخش سے ڈاکٹر صاحب کے اشعار کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ میں ان پڑھ جاہل ہوں مجھے بس کبھی اے حقیقت منتظر والا شعر یاد ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب خود گنگنایا کرتے تھے۔

علی بخش بتانے لگا کہ علامہ اقبال کو رات سوتے سوتے جھٹکا لگتا تھا ایسے موقعہ پہ میں ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور سے دبایا کرتا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال مجھے اپنے کمرے کے نزدیک سلاتے تھے۔علی بخش بتانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے گھر کا سارا حساب کتاب میرے پاس ہوتا جسے میں نہایت کفایت شعاری سے چلاتا کیونکہ ان کا پیسہ ضائع کرتے ہوئے مجھے تکلیف ہوتی تھی۔

علی بخش اکثر اوقات ریل کے سفر کے دوران کئی کئی اسٹیشن بھوکا رہتا تھا کیونکہ وہاں روٹی مہنگی ملتی تھی ایسے میں ڈاکٹر صاحب انھیں ناراض ہوتے اور کہتے کہ خواہ مخواہ بھوکے مت رہا کرو انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔علی بخش بتانے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے لوگ اسے بہت پر تپاک انداز سے ملتے تھے۔ ماضی کے دھندلکوں سے علی بخش نے جاوید اقبال اور منیرہ اقبال کی بھی یادیں بانٹیں۔آخر میں کپتان مہابت خان نے مصنف سے وعدہ کیا کہ وہ جلد علی بخش کو زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔

  • مشق:

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجئے۔

خواجہ عبد الرحیم صاحب نے مصنف سے کیا کہا ؟

خواجہ عبدالرحیم نے مصنف سے کہا کہ علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائلپور میں ایک مربعہ زمین عطا کی ہے۔ جس پر کچھ شریر لوگ ناجائز طور پر قابض ہیں جھنگ چونکہ لائل پور کے قریب ہے تو کیا تم قبضہ دلانے میں کچھ مدد نہیں کر سکتے؟

مصنف نے علی بخش سے علامہ اقبال کے بارے میں کچھ نہ پوچھنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟

مصنف کا خیال تھا کہ اگر علامہ اقبال واقعی علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں تو یہ جوہر مشک کی طرح خود بخود ظاہر ہو گا اس لیے انھوں نے علی بخش سے علامہ اقبال کے بارے میں کچھ بھی نہ پوچھنے کا ارادہ کیا۔

شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو کیا یاد آیا ؟

شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے۔یہاں کے ایک مسلمان تحصیل دار ان کے پکے مرید تھے انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو دعوت پہ مدعو کیا تھا۔

علامہ اقبال علی بخش کو اپنے کمرے کے نزدیک کیوں سلاتے تھے؟

علامہ اقبال کو رات سوتے سوتے جھٹکا لگتا تھا ایسے موقعہ پہ علی بخش ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور سے دبایا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال انھیں اپنے کمرے کے نزدیک سلاتے تھے۔

علامہ اقبال علی بخش سے کس بات پر ناراض ہوا کرتے تھے؟

علی بخش اکثر اوقات ریل کے سفر کے دوران کئی کئی اسٹیشن بھوکا رہتا تھا کیونکہ وہاں روٹی مہنگی ملتی تھی ایسے میں ڈاکٹر صاحب انھیں ناراض ہوتے اور کہتے کہ خواہ مخواہ بھوکے مت رہا کرو انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔

علی بخش زمین کے حصول کے لیے لاہور سے نکلنے میں کیوں ہچکچاتا تھا ؟

علی بخش کا ماننا تھا کہ میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے نہ جانے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ لاہور سے جاؤں تو جاوید کا نقصان ہو گا اور جاوید بھی کہے گا کہ نجانے بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا ہے۔
آپ نے علامہ اقبال کے ملازم علی بخش کے بارے میں یہ سبق پڑھا۔

سبق کی روشنی میں علی بخش کے کردار پر ایک پیرا گراف تحریر کیجیے نیز یہ بھی بتائیے کہ آپ کو یہ کردار کیسا لگا؟

علی بخش کا کرادر بہت اچھا کردار ہے جس میں ایک وفادار ملازم کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں یہی نہیں بلکہ انھوں نے علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی اولاد کی بھی دیکھ بھال کی۔انھوں نے علامہ اقبال کی زندگی کے جن واقعات پر روشنی ڈالی ہے اس سے ان کی قربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔علی بخش کا کرادر اپنی ذات سے تعلق رکھنے والا کردار ہے جو اپنے جذبات کا اظہار زیادہ کھل کر نہیں کرتا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

قابض احمد کے پلاٹ پر کچھ لوگ ناجائز قابض ہو گئے۔
شریر علی انتہائی شریر بچہ ہے۔
بھیڑ بھاڑ عثمان ہمیشہ بھیڑ بھاڑ میں جانے سے کتراتا ہے۔
بے ساختہ اس کے منھ سے بے ساختہ طور پر ایمن کے لیے دعائیں نکلیں۔
رخصت رخصت کے وقت وہ سب سے گلے ملا۔
کفایت انسان کو ہمیشہ کفایت شعاری کو اپنانا چاہیے۔
انتقال علامہ محمد اقبال کے انتقال کے وقت علی بخش ان کے پاس موجود تھا۔
مارے مارے پھرنا مہنگائی کے اس دور میں ہر نوجوان نوکری کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے۔
بھاگ دوڑ کرنا ہمیں رزقِ حلال کے لیے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔
آؤ بھگت کرنا اس نے اپنے مہمانوں کی خوب آؤ بھگت کی۔

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملوں کی تصحیح کیجیے۔

علامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں ملتان میں دو مربعے زمین عطا کی ہے۔ علامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائلپور میں ایک مربعہ زمین عطا کی ہے۔
میں کل ہی اسے اپنی موٹر کار میں فیصل آباد لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو گھر کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔ میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔
شاہدرہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ وہ ایک بار یہاں بھی آیا تھا۔ شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے۔گھر کے خرچ کا حساب کتاب ان کے پاس رہتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بڑے درویش آدمی تھے۔گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔
سنا ہے مئی میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے سیالکوٹ آئے گا۔ سنا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے لاہور آئے گا۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے۔

الفاظ متضاد
نقصان فائدہ / نفع
سادگی تکلف
تکلیف راحت
ہوشیار بے وقوف / نادان
ماضی حال
نزدیک دور
روحانی جسمانی

مندرجہ ذیل سابقوں کی مدد سے دیے گئے الفاظ کو مکمل کیجیے۔

خوش ، قابل ، بلند ، خود ، خلاف

قابلِ اعتماد خلاف قاعدہ
بلند ہمت خوش پوش
خود پسند خلافِ قانون
بلند مرتبہ قابلِ قدر
خوش مزاج خود غرض

مندرجہ ذیل ضرب الامثال کو مکمل کیجیے اور ان کا مفہوم بھی تحریر کیجیے۔

اندھوں میں کانا راجا نالائقوں میں تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا عقل مند ہے۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ بڑے میاں تو تھے ہی بڑے میاں چھوٹے میاں ( کارناموں میں ) ان سے بھی آگے نکل گئے۔
دودھ کا دودھ پانی کا پانی سچ اور جھوٹ میں فرق واضح ہو جانا۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے گھر کا فرد جب گھر کے راز فاش کر دے تو گھر تباہ ہو جاتا ہے۔
نیا نو دن پرانا سو دن پرانی چیز نئی چیز سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔

کالم “الف” کے الفاظ کے لیے جو موزوں لفظ ہے اسے کالم “ب” کے الفاظ میں سے تلاش کر کے کالم “ج” میں تحریر کیجیے۔

الف ب ج
بالکل لوگ قریب
جاوید بھاڑ منزل
شریر جاہل لوگ
خوشگوار شناس یاد
بھیڑ قریب بھاڑ
فرض یاد شناس
ان پڑھ منزل جاہل