آزاد بخت کی کہانی خلاصہ ، سوالات و جوابات

0

بیدار بخت کی کہانی از ” میر امن دہلوی”

خلاصہ سبق:بیدار بخت کی کہانی

اس کہانی کی صنف داستان ہے جس میں میر امن دہلوی نے چار درویشوں کا قصہ بیان کیا ہے۔روم میں ایک بادشاہ تھا کہ جس کی سخاوت کی بہت شہرت تھی۔اس کا نام آزاد بخت تھا اور اس کا تعلق قسطنطنیہ شہر سے تھا۔

آزاد بخت کے وقت میں رعیت آباد خزانہ معمور لشکر مرفہ غریب غربا آسودہ ایسے چین سے گزارہ کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید اور رات شب برات تھی اور جتنے چور چکار جیب کترنے صبح خیزے اٹھائی گیرے دغا باز تھے سب کو نیست و نابود کر کے دیا اور ان کا نام و نشان اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔

ساری رات دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مسافر جنگل میدان میں سونا اُچھالتے چلے جاتے، کوئی نہ پوچھتا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں اور کہاں جاتے ہو؟یہ بادشاہ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔پانچوں وقت کی نماز کے بعدآزاد بخت اپنے ربِ کریم سے کہتا کہ اے اللہ! مجھ عاجز کو تو نے اپنی عنایت سے سب کچھ دیا لیکن ایک اس اندھیرے گھر کا دیا نہ دیا۔

یہی ارمان جی میں باقی ہے کہ میرا نام لیوا اور پانی دیوا کوئی نہیں اور تیرے خزانہ غیب میں سب کچھ موجود ہے ایک بیٹا جیتا جاگتا مجھے دے تو میرا نام اور اس سلطنت کا نشان قائم رہے۔ایک روز بادشاہ نے آئینے کی طرف دیکھا تو ایک سفید بال موچھوں میں نظرآیا جو تار کی طرح چمک رہا تھا۔

بادشاہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر دل میں اپنی سوچ کیا کہ افسوس! تو نے اتنی عمر ناحق برباد کر دی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیرد زبر کیا۔ اتنا ملک جولیا اب تیرے کس کام آوے گا ؟ آخر یہ سارا مال اسباب کوئی دوسرا اڑا دے گا۔ تجھے تو پیغام موت کا آیا۔ اگر کوئی دن جیسے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گی اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری تقدیر میں نہیں لکھا کہ وارث چھتر اور تخت کا پیدا ہو۔

آخر ایک روز مرنا ہے اور سب کچھ چھوڑ جاتا ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ میں ہی اسے چھوڑ دوں اور باقی زندگی اپنے خالق کی یاد میں کاٹوں۔یوں بادشاہ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ادشاہ آزاد بخت نے گوشه نشینی اختیار کی تو چاروں طرف تنظیموں اور مفسدوں نے سراٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سرانجام سرکشی کا کیا۔

جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا ہر ایک صوبے سے عرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری امراء جتنے تھے جمع ہوئے اور صلاح اپنے مصلحت کرنے لگے۔ درباری امرا نے صلاح کی کہ نواب وزیر عامل اور دانا ہے اور بادشاہ کا مقرب اور معتمد ہے اوردرجے میں بھی سب سے بڑا ہے۔ اس کی خدمت میں چلیں۔ دیکھیں وہ کیا مناسب جان کر کہتا ہے۔

وہ بادشاہ کے خاص وزیر خرد مند تک پہنچے جس نے بادشاہ سے دیوانِ خاص میں ملاقات کی۔خرد مند نے بادشاہ سے کہا کہ ان کی گوشہ نشینی سے ملک میں تہلکہ مچ گیا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہے۔خرد مند کی باتیں سن کر بادشاہ نے کہا کہ میری تمام عمر بادشاہت میں کٹی اور اب اس کے بعد موت کے سوا کوئی پیغام نہیں ہے کہ رات کو سوئیں اور صبح نجانے جاگیں بھی کہ نہیں۔میرا بیٹا تک نہیں ہے جس سے میرا جی اداس ہوا اور میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ گیا۔شاید چند روز تک میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاؤں گا اور وہاں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کروں گا۔خرد مند نے یہ سن کر بادشاہ سے کہا کہ ناامید ہونا ہر گز مناسب نہیں ہے یہ باطل تصور دل سے نکال دو ورنہ یہ دنیا تباہ ہو جائے گی اور یہ سلطنت بھی جاتی رہے گی۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجئے۔

آزاد بخت کے وقت میں ملک کی صورتحال کیسی تھی؟

آزاد بخت کے وقت میں رعیت آباد خزانہ معمور لشکر مرفہ غریب غربا آسودہ ایسے چین سے گزارہ کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید اور رات شب برات تھی اور جتنے چور چکار جیب کترنے صبح خیزے اٹھائی گیرے دغا باز تھے سب کو نیست و نابود کر کے دیا اور ان کا نام و نشان اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مسافر جنگل میدان میں سونا اُچھالتے چلے جاتے، کوئی نہ پوچھتا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں اور کہاں جاتے ہو؟

آزاد بخت نماز پڑھنے کے بعد کیا دعا مانگتا ہے؟

پانچوں وقت کی نماز کے بعدآزاد بخت اپنے ربِ کریم سے کہتا کہ اے اللہ! مجھ عاجز کو تو نے اپنی عنایت سے سب کچھ دیا لیکن ایک اس اندھیرے گھر کا دیا نہ دیا۔ یہی ارمان جی میں باقی ہے کہ میرا نام لیوا اور پانی دیوا کوئی نہیں اور تیرے خزانہ غیب میں سب کچھ موجود ہے ایک بیٹا جیتا جاگتا مجھے دے تو میرا نام اور اس سلطنت کا نشان قائم رہے۔

آئینہ دیکھ کر بادشاہ کے دل میں کیا خیال آیا؟

بادشاہ نے آئینے کی طرف دیکھا تو ایک سفید بال موچھوں میں نظرآیا جو تار کی طرح چمک رہا تھا۔ بادشاہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر دل میں اپنی سوچ کیا کہ افسوس! تو نے اتنی عمر ناحق برباد کر دی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیرد زبر کیا۔ اتنا ملک جولیا اب تیرے کس کام آوے گا ؟ آخر یہ سارا مال اسباب کوئی دوسرا اڑا دے گا۔ تجھے تو پیغام موت کا آیا۔ اگر کوئی دن جیسے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گی اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میری تقدیر میں نہیں لکھا کہ وارث چھتر اور تخت کا پیدا ہو۔ آخر ایک روز مرنا ہے اور سب کچھ چھوڑ جاتا ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ میں ہی اسے چھوڑ دوں اور باقی زندگی اپنے خالق کی یاد میں کاٹوں۔

آزاد بخت نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچا تو ملک کی کیا حالت ہوگئی؟

بادشاہ آزاد بخت نے گوشه نشینی اختیار کی تو چاروں طرف تنظیموں اور مفسدوں نے سراٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سرانجام سرکشی کا کیا۔ جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا ہر ایک صوبے سے عرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری امراء جتنے تھے جمع ہوئے اور صلاح اپنے مصلحت کرنے لگے۔

درباری امرا نے کیا صلاح کی؟

درباری امرا نے صلاح کی کہ نواب وزیر عامل اور دانا ہے اور بادشاہ کا مقرب اور معتمد ہے اوردرجے میں بھی سب سے بڑا ہے۔ اس کی خدمت میں چلیں۔ دیکھیں وہ کیا مناسب جان کر کہتا ہے۔

خرد مند نے بادشاہ سے کیا کہا؟

خرد مند نے بادشاہ سے کہا کہ ان کی گوشہ نشینی سے ملک میں تہلکہ مچ گیا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہے۔

خرد مند کی باتیں سن کر بادشاہ نے اسے کیا جواب دیا؟

خرد مند کی باتیں سن کر بادشاہ نے کہا کہ میری تمام عمر بادشاہت میں کٹی اور اب اس کے بعد موت کے سوا کوئی پیغام نہیں ہے کہ رات کو سوئیں اور صبح نجانے جاگیں بھی کہ نہیں۔میرا بیٹا تک نہیں ہے جس سے میرا جی اداس ہوا اور میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ گیا۔شاید چند روز تک میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاؤں گا اور وہاں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کروں گا۔

سبق کے حوالے سے آزاد بخت کے کرادر کا جائزہ لیجیے اور اس کردار کی خوبیاں اور خامیاں تحریر کیجئے۔

سبق کے حوالے سے آزاد بخت کا کراد بظاہر تو ایک بادشاہ کا کردار ہے مگر اس پر تصوف کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ آزاد بخت جو کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ترکِ دنیا اختیار کر لیتا ہے اور خود کو عبادت میں مشغول کر لیتا ہے ایک جانب تو یہ اس کے کردار کی روحانی خوبی ہے کہ وہ اپنے اصل کی جانب لوٹ جاتا ہے اور دوسری جانب اس کی خامی کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داری یعنی بادشاہت سے لا تعلقی اختیار کر لیتا ہے۔آزاد بخت کا کرادر جاندار مگر کہانی کی فنی خوبیوں کے لحاظ سے کمزور دکھائی دیتا ہے۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی لغت میں تلاش کیجیے۔

الفاظ معنی
منصفی انصاف کرنے والا
معمور بسا ہوا
نعل بندی نعل باندھنے کا کام
آسودہ رنجیدہ
مقیش سونے چاندی سے بنا ہوا
مقرب قریب کیا گیا ، محرمِ راز
اسم بامسمٰی شخص جس کا نام اوصاف کے مطابق ہو۔
موروثی باپ دادا کا
خلل عظیم بڑا جھگڑا
دست بستہ با ادب احترام

مندرجہ ذیل الفاظ کی مدد سے جملے بنائیں۔

جب کہ علی نے نقصان اٹھایا جب کہ میں نے اسے خطرے سے آگاہ بھی کیا تھا۔
چونکہ چونکہ موسم اچھا نہ تھا اس لیے ہم سیر کے لیے نہ گئے۔
اگرچہ اگرچہ وہ غریب تھا لیکن اس کے پاس ایک سائیکل موجود تھی۔
حالاں کہ حالاں کہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے لیکن پھر بھی اس نے مجھے مارا۔
کیونکہ وہ دفتر نہ آ سکا کیونکہ وہ بیمار تھا۔

سبق سے لیے گئے مندرجہ ذیل جملوں کو آسان فہم انداز میں تحریر کیجیے۔

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں۔ اب میں قصہ شروع کرتا ہوں۔
بادشاہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری۔ بادشاہ دیکھ کر رونے لگا اور آہیں بھرنے لگا۔
اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیر و زبر کیا۔ اس دنیا کی لالچ می ایک عالم کو تباہ و برباد کیا۔
بادشاہ نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچ کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ بادشاہ سلطنت چھوڑ کر دنیا سے الگ ہو کر رہنے لگا۔
خدا کرے بادشاہ کی مرضی آوے جو رُ وبُر و بلاوے۔ اللہ کرے بادشاہ کی مرضی ہو اور وہ ہمیں بلائے۔
سُن اے خردمند میری ساری عمر اسی ملک گیری کے درد سر میں کٹی۔ سنو عقل مند میری ساری زندگی اس ملک کی دیکھ بھال میں گزری ہے۔
جہاں کہیں حاکم تھے اُن کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا ہر ایک صوبے سے عرضی بدعملی کی حضور میں پہنچی۔ جہاں کہیں حکمران تھے ان کے حکم پر تعمیل نہ ہوئی ہر صوبے سے برے کام کی درخواست بادشاہ تک پہنچی۔

دو اسموں میں تعلق پیدا کرنا اضافت کہلاتا ہے۔ اُردو میں دو الفاظ کو ملانے کے لیے جو زیر (-) استعمال ہوتی ہے اُسے اضافت کہتے ہیں جیسے عالم دین، شاعر مشرق اور مینار پاکستان وغیرہ سبق میں سے اضافت والے مرکبات تلاش کر کے تحریر کیجیے۔

خللِ عظیم ، جمالِ جہاں ، مزاج مبارک ، تارِ مقیش ، دیوانِ خاص ، تصورِ باطل ، دیوانِ عام ، شبِ برات ، خزانہِ معمور۔

مندرجہ ذیل عبارت میں خالی جگہ کو آخر میں دیے گئے الفاظ کی مدد سے پر کیجئے۔

اس بات کا چرچا پھیلا رفتہ رفتہ تمام ملک میں خبر گئی کہ بادشاہ نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچ کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ چاروں طرف غنیموں اور مفسدوں نے سر اٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سرانجام سرکشی کا کیا۔جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا ہر ایک صوبے سے عرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری اُمراء جتنےتھے جمع ہوئے اور صلاح مصلحت کرنے لگے۔

سبق میں سے پانچ اسم معرفہ اور پانچ اسم نکرہ تلاش کرکے تحریر کیجئے۔

اسم معرفہ: روم ، قسطنطنیہ ، آزاد بخت ، نوشیروان ، حاتم۔
اسم نکرہ: شہر ، غریب غرباء ، راہی مسافر ، چور چکار ، دغا باز۔

سبق میں سے دو تشبیہات تلاش کرکے تحریر کیجیے اور مزید دو تشبیہات تحریر کیجیے۔

نوشیرواں کی سی عدالت
حاتم کی سی سخاوت
چاند جیسا چہرہ
شیر کی طرح بہادر