سبق قربانی از میرزا ادیب، سوالات و جوابات

0

سبق کا خلاصہ:

میرزا ادیب کے سبق “قربانی” میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی بیٹی کی بہادری اور قربانی کو پیش کیا گیا ہے۔ امریکا کی ایک ریاست میں ایک بڑھیا بیوہ تھی اس لیے اسے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پالنے کے لیے خود کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہر روز صبح سویرے گھر سے نکل کر ایک فیکٹری میں چلی جاتی تھی اور شام تک کام کرنے کے بعد تھک تھکا کر واپس آ جاتی تھی۔

فیکٹری میں کام کر کے جو کچھ کماتی تھی اس میں دونوں کا گزارہ ہوتا تھا۔ایک دفعہ برف اک ایک شدید طوفان آیا اور وہ کام پہ نا جا سکی۔ دونوں ماں بیٹی جھونپڑے میں گھسی ہوئی تھیں ادھر ایک دیا ٹمٹما رہا تھا۔ طوفان پہلے بھی آتے رہے تھے مگر ایسا زبردست طوفان کبھی نہیں آیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہوا کے تھپیڑے سب کچھ ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جب طوفان ختم ہو جائے گا تو اس وقت اس ریاست میں زندگی کے تمام آثار ختم ہو چکے ہوں گے۔

اچانک شدید شور کی آواز آئی جیسے کچھ ٹوٹ کر گرا ہو۔بوڑھی عورت کہنے لگی کہ شاید درخت ٹوٹ کر گرا ہوگا۔لڑکی نے جب شور کی آواز سنی تو اسے یہ خیال ستانے لگا کہ کہیں دریا کی پل نہ گر گئی ہو اور یہ خیال آتے ہی وہ اور زیادہ بے چین ہوگئی۔اس ںے جب دیے کی روشنی کی مدد سے دیکھنا چاہا تو اس کا خیال یقین میں بدل گیا۔

اسی پل سے ریل کی پٹڑی گزرتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی اسٹیشن سے نکلنے والی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ جب تک وہ اسٹیشن پہنچ پاتیں بہت دیر ہو جاتی۔ لڑکی ماں سے کہنے لگی کہ اماں! ایک تجویز دماغ میں آئی ہے۔ اگر ہم پل سے کچھ دور پٹڑی کے درمیان ایک روشنی کر دیں جو دور تک جا سکے تو ہو سکتا ہے ڈرائیور خطرے کا احساس کر کے پل تک پہنچتے پہنچتے گاڑی روک لے۔

یہ خیال آتے ہی ماں اور بیٹی دونوں نےارادہ کر لیا کہ آج سب کچھ جلا دیں گی دونوں تیزی سے چار پائیاں توڑنے لگیں۔ تاکہ انہیں پٹری تک آسانی سے لے جاسکیں۔ ان کے گھر میں تھا کیا۔ دو چار پائیاں اور دو بستران کے علاوہ دو چھوٹی کرسیاں انہوں نے سارا سامان پٹڑی پر جمع کر دیا اور پھر اسے آگ لگا دی اور ساتھ ہی گاڑی کو آتے دیکھ کر اونچی آواز میں چلانے لگیں۔ باہر شدید ٹھنڈ تھی اور وہ اسی طوفانی سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی سب کی جان بچا رہی تھیں۔گاڑی پل کے قریب آتے آتے اچانک رک گئی۔

یوں کئی مسافروں کی جان بچ گئی سب مسافر ماں بیٹی کا شکریہ ادا کرنے لگے۔اگلے روز وزیراعظم نے بھی ان دونوں کو ملا کر ان کی قربانی اور بہادری پر نہ صرف ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ انھیں انعام سے بھی نوازا۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

بُڑھیا اور اس کی بیٹی کا گزارہ کس طرح ہوتا تھا؟

بڑھیا بیوہ تھی اس لیے اسے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پالنے کے لیے خود کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہر روز صبح سویرے گھر سے نکل کر ایک فیکٹری میں چلی جاتی تھی اور شام تک کام کرنے کے بعد تھک تھکا کر واپس آ جاتی تھی ۔ فیکٹری میں کام کر کے جو کچھ کماتی تھی اس میں دونوں کا گزارہ ہوتا تھا۔

طوفان کی شدت سے کیا محسوس ہوتا تھا؟

طوفان پہلے بھی آتے رہے تھے مگر ایسا زبردست طوفان کبھی نہیں آیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہوا کے تھپیڑے سب کچھ ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جب طوفان ختم ہو جائے گا تو اس وقت اس ریاست میں زندگی کے تمام آثار ختم ہو چکے ہوں گے۔

لڑکی کیا سوچ کر اور زیادہ بے چین ہو گئی؟

لڑکی نے جب شور کی آواز سنی تو اسے یہ خیال ستانے لگا کہ کہیں دریا کی پل نہ گر گئی ہو اور یہ خیال آتے ہی وہ اور زیادہ بے چین ہوگئی۔

لڑکی کے دماغ میں کیا تجویز آئی؟

لڑکی ماں سے کہنے لگی کہ اماں! ایک تجویز دماغ میں آئی ہے۔ اگر ہم پل سے کچھ دور پٹڑی کے درمیان ایک روشنی کر دیں جو دور تک جا سکے تو ہو سکتا ہے ڈرائیور خطرے کا احساس کر کے پل تک پہنچتے پہنچتے گاڑی روک لے۔

ماں اور بیٹی نے گاڑی کو روکنے کے لئے کیا کیا ؟

ماں اور بیٹی دونوں نےارادہ کر لیا کہ آج سب کچھ جلا دیں گی دونوں تیزی سے چار پائیاں توڑنے لگیں۔ تاکہ انہیں پٹری تک آسانی سے لے جاسکیں۔ ان کے گھر میں تھا کیا۔ دو چار پائیاں اور دو بستران کے علاوہ دو چھوٹی کرسیاں انہوں نے سارا سامان پٹڑی پر جمع کر دیا اور پھر اسے آگ لگا دی۔

اس کہانی سے ہمیں کیا اخلاقی سبق حاصل ہوتا ہے؟

بُڑھیا اور اس کی بیٹی نے ریل کو ایک بڑے حادثے سے بچایا، کیا آپ اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ تحریر کر سکتے ہیں جب آپ نے کسی کی جان بچائی ہو؟

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے کام سے گھر لوٹ رہی تھی راستے میں بہت زیادہ ٹریفک تھی۔ اسی دوران میری نظر ایک بچے پہ پڑی جو اپنے کھلونے سے کھیلتا ہوا بے دھیانی سےسڑک کنارے چل رہا تھا۔ بچہ چونکہ اپنے کھلونے کے دھیان میں لگا ہوا تھا اور اسے پتا ہی نہ چلا کہ نجانے کب وہ فٹ پاتھ سے سڑک پر اتر آیا۔ چونکہ یہ وقت دفتر سے چھٹی کا وقت تھا اس لیے سڑک پہ بہت زیادہ رش تھا۔اسی وقت دائیں جانب سے ایک تیز رفتار کار نہایت تیزی سے اس بچے کی جانب بڑھ رہی تھی اسی وقت میں نے جلدی سے اس بچے کو کھینچ لیاجس سے اس کی جان بچ گئی۔

مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ جملے
غیرآباد یہ علاقہ کافی عرصے سے غیرآباد پڑا ہے۔
صبح سویرے صبح سویرے بیدار ہونا اچھی عادت ہے۔
کوسوں دور ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے۔
بے چین احمد اپنا نیا کھلونا دیکھنے کے لیے بہت بے چین ہے۔
مالی نقصان عثمان کو اپنے کاروبار میں بہت سا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
بےسود علینہ سے کسی بھی معاملے میں بحث بے سود ہے۔
ممنون آپ کی مدد کے لیے میں آپ کا بے حد ممنون ہوں۔
گھپ اندھیرا کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا ہے۔

مندرجہ ذیل جملوں کو آسان فہم انداز میں تحریر کیجیے۔

جھونپڑی کے باہر چاروں طرف فضا میں گھپ اندھیرا پھیل چکا تھا۔ جھونپڑی کے باہر چاروں طرف فضا میں گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔
کتنی قیمتی جانیں تلف ہو جائیں گی۔ کتنی قیمتی جانیں ضائع ہو جائیں گی۔
دونوں کو کوئی ایسا طریقہ نہیں سوجھتا تھا جس سے وہ گاڑی کے ڈرائیور کو خطرے سے آگاہ کر سکیں۔ دونوں کو کوئی ایسا طریقہ نہیں سمجھ آ رہا تھا جس سے وہ گاڑی کے ڈرائیور کو خطرے کے مطلق بتا سکیں۔
سردی کے مارے وہ کانپ رہی تھیں، بار بار اُن کے قدم اکھڑ جاتے تھے۔ سردی کے مارے وہ کانپ رہی تھیں، بار بار اُن کے قدم ڈگمگا جاتے تھے۔
یہی دو ہستیاں تھیں جو جسموں میں لہو جما دینے والی سردی کا انتہائی بہادری سے مقابلہ کر رہی تھیں۔ یہی دو شخصیات تھیں جو سخت سردی کا انتہائی بہادری سے مقابلہ کر رہی تھیں۔
ان کا حال یہ تھا جیسے رگوں میں خون منجمد ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا حال یہ تھا جیسے رگوں میں خون جم رہا ہے۔

سبق کے متن کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل بیانات کو درست کر کے تحریر کیجیے۔

بڑھیا بیوہ تھی اور اس کی اپنی ایک فیکٹری تھی۔ بڑھیا بیوہ تھی اور اس کی اپنی کوئی فیکٹری نہ تھی۔
بارش اتنے زوروں پر تھی کہ بڑھیا فیکٹری نہ جاسکی۔ برف باری اتنے زوروں پر تھی کہ بڑھیا فیکٹری نہ جاسکی۔
بڑھیا کے اعضا بہت مضبوط تھے۔ بڑھیا کے اعضا بہت کمزور تھے۔
یہ ایک معمولی قسم کا طوقان تھا۔ یہ ایک خوفناک قسم کا طوقان تھا۔
دھماکے کی آواز درخت گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ دھماکے کی آواز پل گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
جھونپڑی کے باہر موسم بہت خوشگوار تھا۔ جھونپڑی کے باہر موسم بہت سرد تھا۔
انہوں نے کپڑے پٹڑی پر رکھ کر انہیں آگ لگا دی۔ انہوں نے چارپائیاں پٹڑی پر رکھ کر انہیں آگ لگا دی۔
گاڑی پل سے گزر کر رک گئی۔ گاڑی پل کے قریب آ کر رک گئی۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیئے۔

الفاظ متضاد
زندگی موت
اندھیرا اجالا
کمزور طاقتور
نقصان فائدہ
مشکل آسان
بہادری بزدلی
سستی چستی
انعام سزا

مندرجہ ذیل جملوں کو ” نے ” اور “کو” کی مدد سے مکمل کیجیے۔

  • مریم نے کراچی جانا ہے۔
  • شاہد نے شاگرد کو پڑھایا۔
  • مجھ بد نصیب نے یہ نہیں کیا تھا۔
  • میں نے چچا کو دیکھا۔
  • سعید نے کتاب پڑھی۔
  • اسلم نے قرآن پڑھا ہوگا۔
  • علی نے اس کو دیکھا۔

مندرجہ ذیل میں سے سابقے الگ کر کے تحریر کیجیے اور ان سے مزید تین تین الفاظ بنائیے۔

الفاظ سابقے مزید الفاظ
غیرآباد غیر غیرحاضر،غیرمعمولی ،غیرآباد
بے چین بے بے جان ، بے تکلف ، بے تاب
کم زور کم کم عمر ، کم عقل ، کم تر