نظم وطن کے ہم نوجوان سپاہی تشریح، سوالات و جوابات

0

نظم “وطن پہ قرباں جان ہماری” از “قیوم نظر”

وطن کے ہم نوجوان سپاہی
غنیم پر لائے ہیں تباہی
ہمارے جذبے پہ ہےگواہی
یہ جراتِ بےاماں ہماری
وطن پہ قرباں جان ہماری

یہ اشعار “قیوم نظر” کی نظم وطن پہ قربان جاں ہماری سے لیے گئے ہیں۔ یہ نظم مسدس ترجیع بند ہیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں ٹیپ کا مصرع موجود ہے۔ اس بند میں شاعر اپنے وطن سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم اپنے وطن کے نوجوان سپاہی ہیں جو اپنے دشموں پہ ایک تباہی بن کر ٹوٹتے ہیں۔ ہم نوجوان سپاہیوں کے جذبے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم اپنے دشمن پہ کتنے بھاری ہیں۔یہ ہماری بہادری ہی ہے کہ ہم اپنے وطن پہ جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔اس لیے ہمارے ملک پہ ہماری جان بھی قربان ہے۔

نہ کوئی محکوم اب رہے گا
نہ ظلم بے جا کوئی سہے گا
ستم گروں کا جو خوں بہے گا
رہے گی ہمت جواں ہماری
وطن پہ قرباں جان ہماری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہم اپنے وطن کی آزادی کے لیے اس طرح لڑیں گے کہ یہاں پہ کوئی بھی محکوم نہیں رہے گا اور نہ ہی یہاں غلامی کی زندگی گزارتے ہوئے کوئی ظلم و ستم برداشت کرے گا۔ ظلم ڈھانے والوں کا خون بہایا جائے گا لیکن ہماری ہمت ہمیشہ جوان ہی رہے گی اور ہم اپنے وطن پہ اپنی جان قربان کریں گے۔

یہ چاند تارے کا سبز پرچم
بلند و بالا رہے گا ہر دم
اسی کے آگے عدو کا سرخم
کرے گی تیغ رواں ہماری
وطن پہ قرباں جان ہماری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارے ملک کا پرچم بہت خوبصورت ہے جس پہ چاند تارا بنا ہوا ہے اور یہ سبز رنگ کا ہے اس کا وقار ہر دم بلند رہے گا جس کے آگے دشمن اپنے سر جھکائیں گے اور ہماری تلوار کی جنگ جاری و ساری رہے گی ہم اپنے وطن پر جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

یہ حق و باطل کا معرکہ ہے
ہمیشہ حق پر خدا رہا ہے
جو اُس نے چاہا وہی ہوا ہے
یہ فتح ہے بے گمان ہماری
وطن پہ قرباں جان ہماری

اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اس وطن کی سلامتی کے لیے جو جنگ جاری و ساری ہے یہ سچ اور جھوٹ کی جنگ ہے جبکہ اللہ کی حمایت ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ رہی ہے جس کام میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے وہ ممکن ہوا ہے۔اس حق کی لڑائی میں وہ فتح ہمیشہ ہمارے گمان کی رہے گی کہ ہمارا گمان حق کا حامی ہے اور اس وطن کے لیے ہم اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کریں گے۔

  • مشق:

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

پہلے بند میں شاعر نے کسی جذبے کا اظہار کیا ہے نیز اس جذبے کی گواہی کس چیز سے دی ہے؟

پہلے بند میں شاعر نے دشمنوں کے لیے تباہی بن کر ان پر ٹوٹنے کے جذبے کا اظہار کیا ہے اور ان کے اس جذبے کی گواہی ان کی جرات و بہادری نے دی ہے۔

نظم کے دوسرے بند میں شاعر نے کس خواہش کا اظہار کیا ہے؟

نظم کے دوسرے بند میں شاعر نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کے وطن میں کوئی غلام نہ رہے اور نہ کسی کا ناحق خون بہے اور نہ ہی کوئی بے وجہ ظلم و ستم برداشت کرے۔

چاند تارے کا سبز پرچم” سے شاعر کی کیا مراد ہے اور اس کے بارے میں شاعر نے کن جذبات کا اظہار کیا ہے؟

چاند تارے کا سبز پرچم سے شاعر کی مراد وطنِ عزیز ہے کہ اس کا پرچم سبز رنگ کا ہے جس پہ چاند اور تارے کی موجودگی ہے اور شاعر نے اس وطن اور اس کے پرچم کے بلند رہنے کا اظہار کیا ہے۔

حق و باطل کا معرکہ کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہے؟

وطن کی جنگ حق و باطل کا نعرہ ہے اور اس کا انجام حق کی جیت ہے کیوں کہ اللہ کی ذات ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہے۔

اس نظم کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہمارے جذبے اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم اس وطن کے جان باز سپاہی ہیں اور اس وطن کو اس قابل بنائیں گے کہ یہاں نہ تو کوئی غلام رہے گا اور نہ کسی کا ناحق خون بہے گا اس وطن کا پرچم اور نام سدا بلند رہے گا اور ہمیشہ کی طرح حق کی جیت ہو گی۔

مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لغت میں تلاش کیجیے :

الفاظ معنی
غنیم دشمن
جرات بے اماں بہادری کی جرات
محکوم ماتحت/جس پہ حکومت کی جائے
ستم گر ظلم ڈھانے والا
عدو دشمن
تیغِ رواں چلتی ہوئی تلوار
باطل جھوٹا

نظم کے اشعار کو مدنظر رکھتے ہوئے خالی جگہیں پُر کیجیے:-

  • وطن کے ہم نوجوان سپاہی
  • وطن پہ قرباں جان ہماری
  • نہ کوئی محکوم اب رہے گا
  • رہے گی ہمت جواں ہماری
  • یہ چاند تارے کا سبز پرچم
  • یہ حق و باطل کا معرکہ ہے
  • ہمیشہ حق پر خدا رہا ہے

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے:-

الفاظ متضاد
غنیم دوست
نوجوان بوڑھا
محکوم حاکم
ظلم مہربانی
عدو دوست
حق باطل
فتح شکست
بلند پست

مندرجہ ذیل الفاظ کے مترادف تحریر کیجیے :

الفاظ مترادف
وطن ملک
تباہی بربادی
جرات بہادری
ظلم ستم
بلند عظیم مرتبہ
عدو دشمن
تیغ تلوار
باطل جھوٹ