سبق: سیر لنڈے بازار کی خلاصہ، سوالات و جوابات

0
  • سبق ” سینرلنڈے بازار کی” از “تنویر حسین”

سبق کا خلاصہ:

اس سبق میں مصنف نے ملک کے ایک مشہورِ زمانہ بازار لنڈے بازار کے متعلق بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں اس بازار سے ہمارے تعلقات امریکہ کی طرح پختہ ہیں۔ہم ان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کبھی کبھار اس بازار چلے جاتے ہیں۔ لنڈے بازار سے مراد وہ بازار ہے جہاں پرانے اور استعمال شدہ کپڑے اور دیگر چیزیں کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں۔مصنف کا سب سے پہلے لنڈے بازار سے ان کے چچا نے متعارف کروایا اور اس کے بعد اصل تعارف تو ان کے ایک دوست نے کروایا جو انھیں بہلا پھسلا کر لنڈے بازار لے گیا۔

مصنف نے سوچا کہ بنیانوں یا جرابوں کا ایک آدھ جوڑا خریدنے میں کیا حرج ہے؟ پھر ان یہ سوچ ایک اور گہری سوچ سے برسر پیکار ہو گئی۔ وہ سوچ یہ تھی کہ کسی عزیز رشتے دار یا محلے دار نے ہمیں کسی ریڑھی سے گوہر مقصود نکالتے دیکھ لیا تو میر کی طرح ان کی عزت سادات بھی جاتی رہے گی ۔ پھر انھوں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہم میر کی طرح کونسا عشق کر رہے ہیں ہم تو صرف شاپنگ کر رہے ہیں۔

مصنف کا دوست مہنگائی کے ستائے لوگوں کی طرح ایک ریڑھی کے پاس کھڑا ہو گیا اور مجھے بھی اس کارِ خیر میں شامل کر لیا۔مصنف کا دوست جب بھرے بازار میں کوٹوں ، جرسیوں ، جرابوں اور بنیانوں کے اندر باہر داخل خارج ہونے لگے تو مصنف نے انھیں شیم پروف کہنے لگا۔مصنف بھی سپورٹس مین سپرٹ کی طرح ان کے محاسن و معائب بتا کر ان کو داد دیتے رہے۔لوگ بسا اوقات اپنی روایات کو بھلا کر انگریزوں کی طرح بڑا آدمی بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

انگریزوں کو یہاں سے گئے ایک عرصہ ہو چکا ہے مگر آج ہم اُن کے اتارے کپڑے پہن کر کتنا اتراتے ہیں۔سردیوں میں لنڈے بازار کی ریڑھیوں کے گرد بہت رش ہوتا ہےلوگ اپنی پسند کی سویٹر جرسیاں نکال کر پھینکتے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایک ہی جرسی یا سویٹر بہت سے ہاتھوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ایسے میں فیصلے کے جملہ حقوق بحق ریڑھی بان محفوظ ہوتے ہیں۔لنڈے بازار میں پھیری لگانے والے رنگ برنگے کوٹ پتلون پاجامے، جرسیاں اور ٹائیاں اٹھائے راہ گیروں کا قافیہ یا ردیف وغیرہ تنگ کرتے ہیں ۔

راہ گیر اگر یہ کہنے کی کوشش کرے ….. بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ آپ ایک بار پہن کر تو دیکھیں ۔ راہ گیر چپکے سے کھسکنے کی کوشش کرے تو پھیری والے اس کا تعاقب شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر فراک نما ضمیض پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھیرنی والا کہتا ہے کہ ذرا بازوؤں کو ڈھیلا کرو اور گاہک بازو کے ایک جھٹکے سے اس کو پیچھے دکھیل دیتا ہے۔ اسے ایک پہنانے اور دوسرا نہ پہننے کا پختہ عزم کر لیتا ہے۔ یہیں سے کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے جو عموما گشتی یک پہنچ جاتی ہے۔

بالآ خر فراک کے بازو گاہک کے حصے میں اور اس کا بقیہ حصہ پھیری والے کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے۔لنڈے بازار میں خریداری کرتے ہوئے خواتین کے ذہن میں اس وقت ان کی اولاد گھوم رہی ہوتی ہے۔ یہ قمیض فلاں کو پوری آ جائے گی یہ پاجامہ فلاں کی طبیعت کے لئے موزوں رہے گا۔ لنڈے بازار میں مناسب پیس خریدتے ہوئے خریدار بعض اوقات اپنے پہنے ہوئے کپڑوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ایک خاتون اپنی سفید پوشی کا بھرم سیاہ برقع سے قائم رکھے لنڈے بازار گئیں کے فٹ پاتھ پر ایک سیل مین لمبی سی چھڑی کی نوک پر جرسیوں اور سویٹروں کو فضا میں بلند کر رہا تھا۔

سلائی کڑھائی دھلائی اور مہنگائی جیسے قافیوں پر خواتین واہ والا کرتی ہوئیں بڑھ چڑھ کر جرسیوں کی نبضیں اور اپنے پرس ٹول رہی تھیں، سیل مین ”مفت ہی لے جا آج ہی لے جا اور سارے ہی لے جا کے نعرے لگا لگا کر خود ہی رقص کر رہا تھا۔ چیخ چیخ کر اس کی آواز بیٹھ چکی تھی اور اب صرف اس کا چہرہ سرخ ہوتا تھا اور آخر میں چاں” کی آواز نکلتی تھی، برقع پوش خاتون زمین پر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد انہیں محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے کوئی چیز کھسک رہی ہے۔ ایک نو دارد بی بی عورتوں کی آڑ میں ان کا برقع اُتار کر سیل مین سے مخاطب ہو ئیں۔ اس کی جائز قیمت لگانا۔

  • مشق:

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کیجیے۔

لنڈے بازار سے کیا مراد ہے اور مصنف کا اس سے تعارف کس نے کروایا؟

لنڈے بازار سے مراد وہ بازار ہے جہاں پرانے اور استعمال شدہ کپڑے اور دیگر چیزیں کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں۔مصنف کا سب سے پہلے لنڈے بازار سے ان کے چچا نے متعارف کروایا اور اس کے بعد اصل تعارف تو ان کے ایک دوست نے کروایا جو انھیں بہلا پھسلا کر لنڈے بازار لے گیا۔

مصنف پہلی دفعہ اپنے دوست کے ساتھ لنڈے بازار گئے تو ان کے ذہن میں کس قسم کے خیالات آئے؟

مصنف نے سوچا کہ بنیانوں یا جرابوں کا ایک آدھ جوڑا خریدنے میں کیا حرج ہے؟ پھر ان یہ سوچ ایک اور گہری سوچ سے برسر پیکار ہو گئی۔ وہ سوچ یہ تھی کہ کسی عزیز رشتے دار یا محلے دار نے ہمیں کسی ریڑھی سے گوہر مقصود نکالتے دیکھ لیا تو میر کی طرح ان کی عزت سادات بھی جاتی رہے گی ۔ پھر انھوں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہم میر کی طرح کونسا عشق کر رہے ہیں ہم تو صرف شاپنگ کر رہے ہیں۔

مصنف نے اپنے دوست کو شیم پروف” کیوں کہا ہے؟

مصنف کا دوست جب بھرے بازار میں کوٹوں ، جرسیوں ، جرابوں اور بنیانوں کے اندر باہر داخل خارج ہونے لگے تو مصنف نے انھیں شیم پروف کہا۔

پھیری لگانے والے راہگیروں کو کس طرح تنگ کرتے ہیں؟

لنڈے بازار میں پھیری لگانے والے رنگ برنگے کوٹ پتلون پاجامے، جرسیاں اور ٹائیاں اٹھائے راہ گیروں کا قافیہ یا ردیف وغیرہ تنگ کرتے ہیں ۔ راہ گیر اگر یہ کہنے کی کوشش کرے ….. بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ آپ ایک بار پہن کر تو دیکھیں ۔ راہ گیر چپکے سے کھسکنے کی کوشش کرے تو پھیری والے اس کا تعاقب شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر فراک نما ضمیض پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھیرنی والا کہتا ہے کہ ذرا بازوؤں کو ڈھیلا کرو اور گاہک بازو کے ایک جھٹکے سے اس کو پیچھے دکھیل دیتا ہے ۔ اسے ایک پہنانے اور دوسرا نہ پہننے کا پختہ عزم کر لیتا ہے۔ یہیں سے کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے جو عموما گشتی یک پہنچ جاتی ہے۔ بالآ خر فراک کے بازو گاہک کے حصے میں اور اس کا بقیہ حصہ پھیری والے کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے۔

لنڈے بازار میں خریداری کرتے ہوئے خواتین کے ذہن میں کیا چیز ہوتی ہے؟

ان کے ذہن میں اس وقت اولاد گھوم رہی ہوتی ہے۔ یہ قمیض فلاں کو پوری آ جائے گی یہ پاجامہ فلاں کی طبیعت کے لئے موزوں رہے گا۔

لنڈے بازار میں خریدار بعض اوقات اپنے کپڑوں سے کس طرح ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟

لنڈے بازار میں مناسب پیس خریدتے ہوئے خریدار بعض اوقات اپنے پہنے ہوئے کپڑوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ایک خاتون اپنی سفید پوشی کا بھرم سیاہ برقع سے قائم رکھے لنڈے بازار گئیں کے فٹ پاتھ پر ایک سیل مین لمبی سی چھڑی کی نوک پر جرسیوں اور سویٹروں کو فضا میں بلند کر رہا تھا۔ سلائی کڑھائی دھلائی اور مہنگائی جیسے قافیوں پر خواتین واہ والا کرتی ہوئیں بڑھ چڑھ کر جرسیوں کی نبضیں اور اپنے پرس ٹول رہی تھیں، سیل مین ”مفت ہی لے جا آج ہی لے جا اور سارے ہی لے جا کے نعرے لگا لگا کر خود ہی رقص کر رہا تھا۔ چیخ چیخ کر اس کی آواز بیٹھ چکی تھی اور اب صرف اس کا چہرہ سرخ ہوتا تھا اور آخر میں چاں” کی آواز نکلتی تھی، برقع پوش خاتون زمین پر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد انہیں محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے کوئی چیز کھسک رہی ہے۔ ایک نو دارد بی بی عورتوں کی آڑ میں ان کا برقع اُتار کر سیل مین سے مخاطب ہو ئیں۔ اس کی جائز قیمت لگانا۔

مصنف نے مضمون کو مزاحیہ انداز میں تحریر کیا ہے لیکن لنڈا بازار بہت سے غریب لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔

لنڈا بازار ہمارے ہاں عموماً وہ بازار مانا جاتا ہے جہاں ہم دوسروں کے استعمال شدہ کپڑے باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے روز مہنگائی کی شرح خوفناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور ایسے میں غریب لوگوں کا گزر بسر دن با دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر یہ سستا بازار ہی ایسی جگہ ہے جہاں انھیں ان کی ضرورت کی چیزیں بھلے وہ استعمال شدہ ہی کیوں نہ ہوں سستے داموں با آسانی مل جاتی ہیں۔اس لحاظ سے یہ بازار ان غریب لوگوں کی سب سے بڑی عید ہیں اور ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

مندرجہ ذیل الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

الفاظ جملے
اوڑھنا بچھونا اس نے وکا لت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
سنہری موقع میرے پاس یہ انعام جیتے کا سنہری موقع موجود ہے۔
گوہرِ مقصود اس کتاب کی صورت میں میرے ہاتھ گویا گوہرِ مقصود لگ گیا۔
تیاپانچا کرنا دوران لڑائی وہ میرے اعمال کا تیا پانچا کرنے لگی۔
روزِ محشر روزِ محشر ہم اپنے مجرموں سے ان کی زیادتیوں کے بارے میں سوال کر سکیں گے۔
بسا اوقات بسا اوقات انسان کو حالات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
موزوں یہ لباس آج کی تقریب کے لحاظ سے موزوں ترین ہے۔
ہاتھ دھو بیٹھنا اپنی کم عقلی کی وجہ سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
سفید پوشی اکثر اوقات انسان کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے۔

سبق کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملوں کو الفاظ کی ترتیب درست کر کے تحریر کیجیے۔

بھی کڑ کچھ دوران ہم غیرت کچھ زمین میں قومی سے گئے تعارف دورانِ تعارف ہم غیرت سے کچھ کچھ زمین میں بھی گڑ گئے۔
حقوق بحق فیصلے محفوظ کے جملہ ریڑھی بان ہوتے ہیں ایسے میں۔ ایسے میں فیصلے کے جملہ حقوق بحق ریڑھی بان محفوظ ہوتے ہیں۔
شروع کروالے اس راہ گیر کھسکنے کی کوشش چپکے سے کرے تو پھیری کا تعاقب دیتے ہیں۔ راہ گیر چسکے سے کھسکنے کی کوشش کرے تو پھیری والے اس کا تعاقب شروع کر دیتے ہیں۔
سستی نفسیات لنڈے بازار بان کی سے خوب واقف کے ریڑھی ہیں خواتین۔ لنڈے بازار کے ریڑھی بان خواتین کی ستی نفسیات سے خوب واقف ہیں۔
گئیں ایک اپنی سفید پوشی خاتون کا قائم رکھے، سیاہ برقع لنڈے بازار بھرم سے۔ ایک خاتون اپنی سفید پوشی کا بھرم سیاہ برقع سے قائم رکھے لنڈے بازار گئیں۔
خواتین ان لنڈے کے بعض پیارے قطعاً ہوتے ہیں کہ سے کنارہ کشی نہیں ہیں اتنے ہوتیں۔ لنڈے کے بعض پیس اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ خواتین ان سے قطعاً کنارہ کش نہیں ہوتیں۔
جرسی یا بسا اوقات ہاتھوں کا شکار ایک ہی سویٹر بہت سے ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات ایک ہی جرسی یا سویٹر بہت سے ہاتھوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

مندرجہ ذیل فقرات کو آسان فہم انداز میں تحریر کیجیے۔

یوں محسوس ہوا جیسے ہم لہو کا لبادہ اوڑھ کر سر خرو ہو چکے ہیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہم خون کا لباس اوڑھ کر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اُس نے اس کار خیر میں ہمیں بھی شامل کر لیا۔ اُس نے اس نیک کام میں ہمیں بھی شامل کر لیا۔
انگریزوں کو یہاں سے گئے ایک عرصہ ہو چکا ہے مگر آج ہم اُن کی اُترن پہن کر کتنا اتراتے ہیں۔ انگریزوں کو یہاں سے گئے ایک عرصہ ہو چکا ہے مگر آج ہم اُن کے اتارے کپڑے پہن کر کتنا اتراتے ہیں۔
راہ گیر چپکے سے کھسکنے کی کوشش کرے تو پھیری والے اس کا تعاقب شروع کر دیتے ہیں۔ راہ گیر چپکے سے بھاگنے کی کوشش کرے تو پھیری والے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ان کے ہاتھ برق رفتاری سے ریڑھی کے کپڑوں کو اوپر تلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ تیزی سے ریڑھی کے کپڑوں کو اوپر تلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

مندرجہ ذیل واحد کے جمع اور جمع کے واحد تحریر کیجیے۔

واحد جمع
طور اطوار
نقص نقائص
محسن محسنین
حق حقوق
احسان احسانات
تعلق تعلقات
خاتون خواتین

مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد تحریر کیجیے۔

الفاظ متضاد
عزت ذلت
داخل خارج
زندگی موت
مہنگائی ارزانی
مناسب غیر مناسب
واقف ناواقف
اجتماعی انفرادی

ذیل میں کچھ خروف دیے گئے ہیں اُن کی قسم بتائیے۔

حروف قسم
جیسے حرفِ تشبیہ
کہ حرفِ جار
لہذا حرفِ علت
لیے حرفِ علت
کے حرفِ جار
کیونکہ حرفِ استفہام
میں حرفِ اضافی
اوپر حرفِ جار

مندرجہ ذیل ہم آواز الفاظ کے جوڑوں پر غور کیجیے اور انہیں اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ہر لفظ کا مطلب واضح ہو جائے۔

برس اس سال وہ چار برس کا ہوگیا۔
برص اسے برص کا مرض لاحق ہے۔
حامی اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
ہامی اس نے میری مدد کرنے کی ہامی بھری۔
کلی پھول مکمل طور پر کھلنے سے قبل کلی ہوتی ہے۔
قلعی برتن کو قلعی کروانا ضروری ہوتا ہے۔
ہل کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا۔
حل مجھے اس مسلئے کا حل تلاش کرنا ہے۔
نذر انھوں نے تمام کتابوں کو آگ کی نذر کر دیا۔
نظر مجھے اس کی نظر لگ گئی۔