نظم نالۂ فراق

0

نظم نالہ فراق کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم ‘نالۂ فراق’ ان کے پہلے شعری مجموعے “بانگ درا” میں شامل ہے۔ یہ نظم علامہ اقبال نے اپنے استاد ڈاکٹر سرٹی ڈبلیوآرنلڈ کی یاد میں 1904ء میں لکھی تھی۔ جس طرح شمس العلماء مولانا سید میر حسن نے ان کے اندر فارسی ادب اور شعر و سخن کا ذوق پیدا کیا تھا اسی طرح ڈاکٹر آرنلڈنے انکو فلسفہ اور حکمت کا شیدائی بنا دیا تھا۔

ڈاکٹر آرنلڈ 1885ء میں علی گڑھ کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہو کر آئے تھے۔ چونکہ وہ عربی کا بھی ذوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے مولانا شبلی نعمانی سے ، جو اس زمانہ میں زبان فارسی اور عربی کے پروفیسر تھے ،عربی ادب کی بعض اونچی کتابیں پڑھی تھیں۔ اور مولانا نے ان سے فرینچ سیکھی تھی۔

1895ء میں انہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Preaching Of Islam شائع کی جس کو انہوں نے بیس سال کی مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچایا تھا اور اس میں تاریخی شواہد کی بنا پر یہ ثابت کیا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی خوبیوں کی بدولت پھیلا ہے۔انگریزی ادب ہی نہیں بلکہ سارے مغربی ادب میں یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔ اس موضوع پر دوسری کتاب نہ اس سے پہلے کسی نے لکھی تھی نہ بعد میں۔

جب سر سید مرحوم نے اس کتاب کو دیکھا تو کہا کہ یہ کام ہمیں کرنا چاہیے تھا جو ایک غیر مسلم نے کیا ہے اور اسی وقت مسٹر عنایت اللہ صاحب دہلوی کو ، جنہوں نے اسی زمانے میں بی-اے کیا تھا، اس کتاب کے ترجمہ پر مامور کر دیا۔ چناچہ 1896عیسوی میں اس کا ترجمہ “دعوت اسلام”کے نام سے شائع ہوا تھا۔

غالباً 1897ء میں ڈاکٹر آرنلڈ علیگڑھ سے لاہور آئے اور یہاں حضرت علامہ اقبال کو ان کی شاگردگی کا فخر حاصل ہوا۔ 1901ء میں ڈاکٹر آرنلڈ نے تفسیر کبیر کی صخیم 8جلدوں کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اقتباسات ایک کتاب کی صورت میں جمع کیے جو امام رازی نے معتزلی حکماء کی تفسیر سے اپنی تفسیر میں جابجا درج کیے ہیں۔ 1904ء کے شروع میں ڈاکٹر آرنلڈ ولایت واپس چلے گئے اور انڈیا آفس میں لائبریرین مقرر ہو گئے۔ 1920ء میں لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوگئے اور 1930ء میں وفات پائی۔

1904ء میں جب ڈاکٹر آرنلڈ واپس انگلستان چلے گئے تو علامہ اقبال نے ان کے فراق میں یہ نظم تحریر کی جس میں کل پانچ بند ہیں۔ان پانچوں بندوں کی تشریح درج ذیل ہے۔

پہلا بند

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ افسوس ڈاکٹر آرنلڈ کو ہندوستان کی سرزمین پسند نہ آئی اس لیے وہ انگلستان واپس چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد دنیا میری آنکھوں میں اندھیری ہوگئی۔ استاد کے فراق میں مجھ کو روز روشن بھی رات کی طرح تاریک نظر آتا ہے۔ جب سے میری نظر ان کو رخصت کرنے کے بعد ان کے دیدار سے محروم ہوئی ہے ، بجھی ہوئی شمع کی طرح میری آنکھ بےنور ہوگئی ہے۔

دوسرا بند

جب سے وہ محبوب (استاد محترم) مجھ سے رخصت ہوا ہے میں نے گوشۂ تنہائی اختیار کرلیا ہے کسی سے ملنے کو جی نہیں چاہتا۔ جب دل میں حفقانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو جنگل کی طرف چلا جاتا ہوں، پھر جب گزرے ہوئے زمانے کی یاد مجھے ستاتی ہے تو میں اس مقام کی طرف واپس آتا ہوں جہاں وہ محبوب رہتا تھا۔ اس کے مکان کے در و دیوار تو وہی ہیں لیکن میں اپنے آپ کو اجنبی سا محسوس کرتا ہوں یعنی جب محبوب کو وہاں نہیں پاتا تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اجنبی مقام پر آگیا ہوں۔

تیسرا بند

جب میرے اندر اپنے استاد سے فیض حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو ہم دونوں میں جدائی ہوگئی۔ اگر وہ کچھ دن اور یہاں قیام کرتے تو خدا معلوم میں کس قدر ان سے علم حاصل کرتا۔ ابر رحمت نے میرے گلزار سے کنارہ کر لیا اور دور چلا گیا بس میرے باغ کی کلیوں کو کچھ سیراب کیا اور اس کے بعد مجھ سے جدا ہو گیا۔

چوتھا بند

اے علم کے سمندر! تو مجھے پیاسا چھوڑ کر کہا چلا گیا۔ تیری شخصیت میرے حق میں افزائش علم کا موجب تھی اور تیرے ہی دم سے میرے دل میں حصولِ علم کا جذبہ موجزن تھا، تیرے جانے کے بعد میرا ذوق علم سرد ہوگیا ہے۔ اب لیلیٰ اور اس کے حسن و جمال کا کہیں چرچا ہی نہیں سننے میں آتا ، اس لیے اب جنون کے اندر ذوق بادیہ پیمائی ہو تو کیسے ہو؟

آخری بند

لیکن مجھے یقین ہے کہ فراقِ محبوب کی شدت میری دشواریوں کو آسان کر دے گی یعنی میں ان کی ملاقات کے لیے ضرور پنجاب سے انگلستان جاؤں گا۔ بے شک ان کی تصویر میرے پاس ہے لیکن میں تو ان کی گفتگو کا طالب ہوں اس لئے تصویر سے مجھ کو تسلی نہیں ہوسکتی۔ سچ کہا ہے کسی شاعر نے کہ تصویر منہ سے کچھ نہیں بول سکتی اس کی گفتگو تو اس کی خاموشی سے عبارت ہے۔