Advertisement
Advertisement

علامہ اقبال کی نظم ‘بزم انجم’ کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم (بزم انجم) ان کی مشہور کتاب “بانگ درا” میں شامل ہے۔اس دلکش تمثیلی نظم میں علامہ اقبال نے تاروں کی زبان سے قومی زندگی کا راز فاش کیا ہے یعنی یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مسلمان اگر بحیثیت قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تاروں کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ ان کا نظام جذب باہمی یعنی آپسی میل جول سے قائم ہے اسی طرح مسلمان بھی الفتِ باہمی کی بدولت ترقی کر سکتے ہیں۔یہ نظم تین بندوں پر مشتمل ہے جن کی تشریح درج ذیل ہے۔

Advertisement

پہلا بند

شاعر نے اس بند میں رات کے وقت آسمان پر ستاروں کے چمکنے کا حسین منظر پیش کیا ہے، فرماتے ہیں جب سورج غروب ہوگیا تو رات ہوگی اور آسمان پر تارے نکل آئے۔ ایک فرشتے نے ستاروں سے کہا۔(جس کی تفصیل دوسرے بند میں ہے)

دوسرا بند

شاعر نے اس بند میں فرشتے کی زبانی تاروں سے کلام کو پیش کیا ہے۔فرشتہ کہتا ہے اے تارو! تم سب معزز ہو، اس وقت کوئی ایسا نغمہ چھیڑو کہ زمین کے باشندے بیدار ہوجائیں کیونکہ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تم ان کی قسمتوں پر اثر انداز ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ ضرور تمہارے نغمہ کو سنیں گے۔ فرشتہ کی بات سن کر ستاروں نے یہ نغمہ شروع کیا۔

Advertisement

تیسرا بند

تاروں کی چمک دمک میں خدا کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے بلکہ خدا کا عکس تاروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح گلاب کا عکس شبنم کی آرسی میں جو قوم ” لکیر کی فقیر” بنی رہتی ہے اور حالات حاضرہ سے مطابقت نہیں کرتی،رحمت کے تقاضوں کو نہیں پہچانتی، وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ زمانہ ہر وقت آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو قومیں زمانہ کا ساتھ نہیں دیتیں اور اپنی جگہ بےحس پڑی رہتی ہیں ان کے اس جمود کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ دوسری قومیں ان کو کچلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔

Advertisement

جو ستارے اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ہم ان کو بھی اپنی جماعت میں شامل سمجھتے ہیں۔ افسوس! اس نکتہ کو زمین والے اب تک نہیں سمجھے، مطلب اس کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ صرف انہی مسلمانوں کو اپنا بھائی نہ سمجھیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہیں یعنی جو ان کے شہر میں رہتے ہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے جو دوسرے ملکوں میں بھی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کا قومی نظام صرف اس صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ وہ جذب باہمی کے اصولوں پر عمل کریں یعنی آپس میں ایک دوسرے سے محبت کریں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس نظم میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو تنظیم اور ربط و ضبط باہمی کا پیغام دیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ علامہ اقبال کے اس پیغام کی قدر کریں اور اس پیغام پر عمل کریں تب جا کر ہم ایک زندہ دل قوم کہلانے کے مستحق ہونگے۔

Advertisement

Advertisement